مکمل ضابطہ حیات

تحریر: عائشہ عارف (گوجرانوالہ)
ارے صائمہ بیٹی بلال کدھر ہے آج؟ میں کب سے اس کا انتظار کر رہا ہوں۔ اب تو ہمیں بھی بے چینی ہوتی ہے وہ آج کیا نیا سوال پوچھے گا ہم سے اور ہم نے کیا جواب دے کر اس کی تسلی کروانی ہے۔ دن بہ دن اس کے سوال دلچسپ ترین ہوتے جارہے ہیں۔کہ اکثر میں خود شش وپنج میں پڑ جاتا ہوں اور بہت سوچنے کے بعد جواب ڈھونڈ پاتا ہوں۔درست کہا ابو جی آپ کا پوتا اب ماشاء اﷲ آپ کی صحبت میں رہ رہ کے کافی سمجھدار ہوتا جارہا۔ وہ وہ باتیں پوچھتا ہے جن کی طرف ہمارا خیال بھی نہیں جاتا۔ اچھا آپ کمرے میں جاکے آرام کریں۔وہ قریبی پارک میں گیا ہے جیسے ہی آتا ہے میں اسے بھیج دیتی ہوں۔

چلو بہتر جلدی بھیج دینا۔میں زرا کتاب کا مطالعہ کر لیتا ہوں۔وہ کمرے میں گئے۔کْچھ لمحے ورق گردانی کے بعد جیسے بے چین سے ہو گئے کہ آخر آج کا سوال کیا ہوگا، ان کے پوتے کا۔ سوال پتا ہوتا تو وہ ابھی سے جواب سوچ لیتے۔ وہ مسکرائے کبھی سوچا نہیں تھا ننھے سے پوتے کے سوال ہمیں اتنا بے چین کریں گے اور پھر اگلے چند ہی لمحوں میں ان کی یہ بے چینی انھیں پارک تک لے گئی۔

پارک میں بچے کھیل رہے تھے کْچھ پودوں کے گرد کھڑے پھول گن رہے تھے۔ تو کہیں ایک طرف بچوں کی دادیاں نانیاں گروپ بنائے بیٹھی تھیں۔ایک طرف دادا جی کوبلال بھی نظر آگیا۔کْچھ دوستوں کے ساتھ باتیں کرتا ہوا۔وہ پاس گئے اور مسکراتے ہوے سب بچوں کو اونچی آواز میں سلام کیااور حال چال دریافت کیا۔

ہاں تو ننھے دانشمندوں آج کس ٹاپک پہ بات ہو رہی ہے۔نوسالہ بلال فوراً بولا کہ میں دوستوں کو بتا رہا تھا کہ آج میں دادا جی سے کیا سوال کرنے والا ہوں۔ آہاں آپ کا سوال جاننے کے لیے تو ہم بھی بے چین ہیں۔ ایسا کرتے ہیں وہ ادھر گلاب کے پودوں کے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔آپ کا سوال بھی جان لیتے ہیں اور پھولوں کی خوشبو سے بھی لطف اندوز ہوں گے۔

سب بچے بڑے میاں کی بات کا احترام کرتے ہوے گلاب کے پودوں کی طرف چل دیے۔اور بڑے میاں کے گِرد دائرہ بنا کرمودب ہو کر بیٹھ گئے۔ ہاں تو ننھے دانشمند پوچھئے سوال۔ بلال تو جیسے بہت بے چین تھا کہ کب اسے بولنے کا موقع دیا جائے۔فوراً بولا دادا جی میں اکثر اسلامیات اور اردو کی کہانیوں میں پڑھتا ہوں کی قرآن مکمل ضابطہ حیات ہے۔ آپ نے کہا تھا کوئی بھی سوال آپ سے کرنے سے پہلے خود اس پر سوچا کروں۔ تو مجھے تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ ضابطہ حیات کا مطلب کیا ہے۔ پھر مجھے پتا چلا کہ ضابطہ حیات اسے کہتے ہیں جس پر مکمل طور پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزاری جاسکے۔ جس سے ہم زندگی کے کسی بھی معاملے میں رہنمائی حاصل کر سکیں۔ اتنا کہہ کر وہ اداسی سے خاموش ہو گیا۔

تو بڑے میاں بولے ماشاء اﷲ آپ نے درست کہا کہ قرآن مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس سے ہم زندگی کے کسی بھی پہلو پر رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں اور بہت آسان اور کامیاب زند گی گزار سکتے ہیں۔

اتنا کہہ کر دادا جی خاموش ہوئے تو بلال بہت اداسی سے بولا۔دادا جی میں نے تو مْکمل قرآن پڑھ لیا ہے۔مگر مْجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ میں اس سے اپنی زندگی کے معاملات میں رہنمائی کیسے حاصل کروں۔میں نے بہت بار کوشش کی مگر مْجھے بس اتنا پتہ ہے میں قرآن پڑھ رہا ہوں۔پر مْجھے یہ پتا نہیں چلتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ جو میں پڑھ رہا ہوتا ہوں اس کا مطلب تو مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا ہوتا۔جیسے میں اسکول میں انگلش پڑھتا ہوں تو مشکل تو وہ بھی ہوتی ہے پر مجھے اردو سمجھ آ رہی ہوتی ہے اس کی۔

دادا جی جیسے جیسے بلال کی باتیں سن رہے تھے ویسے ویسے ان پر صدمے کی سی کیفیت طاری ہو رہی تھی۔بلال مزید کہہ رہا تھا مْجھے یہ تو پتا ہے قرآن اﷲ کی کتا ب ہے اور اس میں اﷲ ہم سے بات کرتا ہے جیسے ایک بار میں امی کے ساتھ ایک محفل میں گیا تھا تو ایک آنٹی بتا رہی تھی۔ پردادا جی مجھے یہ تو پتا چلتا ہی نہیں کہ اﷲ مْجھ سے کیا بات کر رہا ہے۔

بلال بولتا جارہا تھا اور بڑے میاں مکمل طور پر گْم صم اسے سن رہے تھے۔ تو دادا جی مْجھے بتائے میں قرآن سے رہنمائی کیسے حاصل کر سکتا ہوں اور کیسے کامیاب ہوسکتا ہوں۔دادا جی چند لمحے خاموش رہے بچے بے چینی سے انتظار کر رہے تھے کہ دادا جی کیا جواب دیتے ہیں۔وہ گلا کھنکار کرہلکا سا مسکراتے ہوے بولے ننھے دانشمند آپ تو ہم سے بھی ذیادہ دانشمند نکلے۔

آپ قرآن سے کس معاملے میں رہنمائی چاہتے ہیں۔ تو بلال بولا کہ کلاس میں ایک ہم جماعت اکثر میری پنسل توڑ دیتا ہے۔اور پھر مجھے چھوٹی ہوئی پنسل سے لکھنا پڑتا ہے۔کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے میں بھی اس کی پینسل توڑوں پر میں جب بھی ایسا کرنے لگتا ہوں تو دیکھتا ہوں اس کے پاس تو پہلے ہی چھوٹی سی پینسل ہوتی ہے۔تو میں سوچ رہا ہوں اب اس سے بدلہ کیسے لوں اور میں اسی کا حل قرآن سے تلاش کر رہا تھا۔

سب بچے گم صم بیٹھے کبھی دادا جان کے چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے تو کبھی بلال کے چہرے کی طرف جیسے یہ سوال تو سب کا ہو کہ اگر کوئی ہمارے ساتھ برا کرے تو ہم اس کے ساتھ کیسا پیش آئیں۔کیسے زیادتی کا بدلہ چکا کر اپنی تسکین کریں۔ دادا جی کچھ دیر کی سوچ بچار کے بعد مسکرائے۔ جیسے انھیں جواب مل گیا ہو۔اب دادا جی سب سے پوچھ رہے تھے کیا آپ لوگوں کے ساتھ بھی کبھی کسی نے ایسی شرارت کی؟ کسی نے دْکھ دیا ہو اور آپ بھی اپنا بدلہ لینا چاہتے ہوں۔ سب یک زبان ہو کر بولے کہ جی ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔
اچھا تو پھر آپ کیا کرتے ہو ان کے ساتھ، ننھا عزیر بولا میں تو اگر کوئی مجھے مارے تو ڈبل مارتا ہوں۔
کوئی کہہ رہا تھا میں گھر جا کے بتاتا ہوں۔اور پھر ماما کی فرینڈ کی ماما سے لڑائی ہو جاتی ہے۔تو کوئی کہہ رہا تھا کہ اگر کوئی مجھے مارے تو میں کچھ نہیں کرتا کیوں کہ مْجھے ڈر لگتا ہے اگلا بندہ مجھے پہلے سے زیادہ نہ مارنے لگ جائے۔

اچھا تو میں اب آپ کو قرآن سے حل بتاتا ہوں چونکہ قرآن تو ابھی پاس موجود نہیں ہے۔مگرقرآن میں آیت ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اگر کوئی دکھ دے تو اگر تم بدلہ لینا چاہتے ہو تو صرف اتنا ہی بدلہ لو یعنی اتنا ہی دکھ سامنے والے کو دو جتنا اس نے آپ کو دیا اور معاف کردیا جائے تو یہ ذیادہ بہتر ہے کیونکہ اﷲ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور اﷲ کہتا ہے سورت النور میں کہ معاف کردیا کرو اس امید پرکہ کل تمہیں بھی اﷲ معاف کرے گا۔

اور پتا ہے بچو! جب ہم کسی کو اﷲ کی رضا کے لیے معاف کر دیتے ہیں تو اﷲ خوش ہوتا ہے اور ہمارے درجات بلند کرتا ہے تاکہ ہمیں جنت میں لے جائے اور جنت میں تو بس سکون ہی سکون ہے۔ وہاں کوئی کسی کے ساتھ بھی زیادتی نہیں کرے گا۔ اس لیے ہمیں کسی سے بدلہ لیتے وقت سوچنا چاہیے کہ مجھے بدلہ لے کرسکون لینا ہے کہ معاف کرکے اﷲ کو خوش کرنا ہے اور اﷲ کی خوشی کے زریعے ہمیشہ کی سکون والی جنت لینی ہے اور حقیقت میں یہ سب سے بہترین بدلہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی ہمارے ساتھ برا کرے تو ہم اس کے ساتھ بھلائی والا معاملہ کریں۔ اس طرح وہ انسان آپ کی اچھائی کے بدلے دل میں شرمندہ ہو گا اور آئندہ کے لیے آپ سے اچھا برتاؤ رکھے گا۔

بلال فوراً بولا پھر تو مجھے جنت ہی چاہیے اور میں تو اپنے کلاس فیلو کو نئی پینسلیں لا کے دوں گا تاکہ مْجھے زیادہ پیارا گھر ملے جنت میں۔

سب بچے کہہ رہے تھے کہ ہم بھی معاف کردیا کریں گے تاکہ ہمیں بھی جنت میں ہمیشہ کا سکون اور بہت ڈھیر سارے انعامات ملیں۔ماشاء اﷲ ضروراﷲ جنت دے گا اگر ہم س سے ڈرتے رہیں۔ اچھا بچوں کل آپ سب سوال سوچ کے آنا اور کل پھر ہم قرآن سے حل تلاش کریں گے اور ابھی نماز مغرب کا وقت ہونے والا ہے مسجد میں نماز پڑ ھ کے گھر جاتے ہیں۔

مسجد کی طرف جاتے ہوے دادا جی سوچ رہے تھے کہ ہم کتنے بے وقوف لوگ ہیں جو دنیا بھر کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں لیکن قرآن جو کامیاب زندگی گزارنے کا نسخہ کیمیا ہے اسے نہ خود سمجھتے ہیں اور نہ بچوں کو سمجھاتے ہیں۔ وہ ارادہ باندھ رہے تھے کہ اب وہ روز قرآن کی چند آیات کا ترجمہ پڑھا کریں گے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے تاکہ آنے والی نسل کو سمجھا سکیں بلکہ ان کا ارادہ تھا وہ نماز کے بعد امام اور بچوں کے قرآن استاد کو قرآن کی روازنہ کی ایک آیت بمع ترجمہ سمجھانے کا کہیں گے۔

اب قرآن کو سمجھ کے پڑھ کے واقعی عمل میں لا کر ضابطہ حیات بنانا ہے اور اس سب سے پہلے اتنا عرصہ اﷲ کی کتاب کے ساتھ غفلت برتنے پر سجدہ ریز ہو کر معافی مانگنا تھی اور بے شک اﷲ بہت زیادہ معاف کرنے والا غفور و رحیم ہے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.