تحریر: محمد مبین امجد، گوجرانوالہ
یوسفی صاحب کو پڑھنا میں نے حفظ کے دوران ہی شروع کر دیا تھا۔ اس سے پہلے
ہم بہاولپور کینٹ میں سال ڈیڑھ سال رہے جہاں پہلی مرتبہ میں نے کوئی کتاب
پڑھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کینٹ میں اﷲ چوک سے آگے ایک محافظ مارکیٹ ہے
جہاں ایک بک ڈپو سے دو دو روپے میں کہانیوں کے کتابچے ملتے تھے جن میں عمرو
عیار، ٹارزن اور جنوں پریوں کی کہانیاں ہوتی تھیں۔ ایک کتابچے میں ایک ہی
کہانی ہوتی اس لیے میں جب بھی والد صاحب کے ساتھ مارکیٹ جاتا تو ڈھیڑ سارے
کتابچے خرید لاتا۔ وہیں سے تین تین روپے والے کتابچے بھی ملتے، ویسے تو ان
میں بھی ایک ہی کہانی ہوتی مگر وہ ذرا طویل ہوتی تھی۔
میرے اس شوق کو دیکھ کر والد صاحب نے مجھے ایک ضخیم ناول لا کر دیا۔ اس
ناول کا نام ''منزل'' تھا اور لیفٹینینٹ کرنل ڈاکٹر عمر بشیر کا لکھا ہوا
تھا۔ (بعد میں انتہائی کوشش کے باوجود وہ ناول نہیں مل سکا)۔ اس ناول کی
مرکزی کہانی وہی تھی کہ کیسے ہمارے کمانڈوز جاسوسی سرگرمیاں سرانجام دیتے
ہیں۔ اور ہمارے کمانڈوز کیمقابل دنیا کی کوئی آرمی نہیں ٹھہر سکتی وغیرہ
وغیرہ
پھر ہم یہاں آگئے۔ پرائمری کا امتحان میں پاس کر چکا تھا۔ اس لیے حفظ
القرآن کی سعادت کیلیے ایک مدرسے میں داخل ہوا۔ چونکہ کتابوں کی چاٹ لگ چکی
تھی اس لیے میں نے یہ مشغلہ مدرسے میں بھی جاری رکھا مگر چھپ چھپا کر۔۔۔
ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ کی مارکیٹ میں تین چار بک سیلرز اکٹھے ہی تھے۔ ایک دن
میں وہاں گیا تو یوسفی صاحب کی کتاب ''چراغ تلے'' خرید لایا۔ اگلے ہی دن
چھٹی کا دن تھا۔ میں نے بڑے چاؤ سے کتاب کھولی اور پڑھنی شروع کی۔ مگر یہ
کیا اس پہ تو لکھا ہوا تھا کہ طنزومزاح مگر یہ تو لگتا کسی جنتر منتر کی
کتاب ہے۔ پہلا پیرا پڑھا اور دانتوں پسینہ آگیا۔ خیر میں نے اسے یونہی رکھ
دیا۔ اور مدرسے کی لائبریری میں گیا اور لائبرییرین سے چند لفظوں کے معانی
پوچھے تو وہ چونک گیا۔
کہنے لگا کہ یہ تم نے کہاں سے پڑھے۔۔؟ مگر میں نے کہا بس کسی سے سنے ہیں۔
خیر اسے شک ہوگیا۔ کہنے لگا اب جب بھی کچھ پوچھنا ہو تو میرے پاس آنا میں
تمہیں خود سے ایک طریقہ بتاؤں گا لفظوں کے معانی تلاش کرنے کا۔ اور ساتھ
کہنے لگا کہ لفظ لکھ کر لانا۔ میں نے کہہ دیا ٹھیک ہے۔ اگلے دن میں اس کے
پاس ایک لمبی لسٹ لے کر گیا۔ اس نے مجھے ڈکشنری دی اور مجھے سمجھانے لگا کے
کیسے معانی دیکھتے ہیں۔ خیر اب تو میں جب بھی لائبریری جاتا ڈکشنری لے کر
بیٹھ جاتا۔ وہ مجھے دیکھ کر حیران ہوتا رہتا تھا۔
ایک دن پھر کہنے لگا تم یہ لفظ کہاں سے سن کر آتے ہو یا پڑھ کر آتے ہو۔۔؟
میں بتانا نہیں چاہتا تھا مگر اس نے اصرار کیا تو میں نے بتا دیا کہ ایک
کتاب سے پڑھتا ہوں۔ اس نے کہا کل تم وہ کتاب لے کر آنا تو میں تمہیں ایک
انعام دوں گا۔ مگر میں ڈر گیا اور اگلا پورا ہفتہ لائبریری نہیں گیا۔ پھر
ایک دن میں مسجد میں ایک ستون کی اوٹ میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ وہ میرے سر
پہ پہنچ گیا۔ اور مجھے کہنے لگا میرے ساتھ آؤ۔۔۔ میں بلا چوں چراں اس کے
ساتھ لائبریری میں چلا گیا۔ وہ کہنے لگا یار یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تم
پڑھتے ہو۔۔ پھر اس نے مجھے ایک ڈکشنری دی غالباَ اوکسفرڈ کی تھی، اور کہا
یہ تم اپنے پاس ہی رکھ لو۔
یوں میرے اور یوسفی صاحب کے درمیان بے دھڑک ملاقاتیں ہونے لگیں۔ اور ہر ہر
ملاقات میں وہ میرے قریب آتے گئے۔ اگلی کتاب ''خاکم بدہن'' مجھے یاد ہے کہ
میں نے بغیر کسی ڈکشنری کے پڑھی اور سمجھی۔پھر جیو نیوز پہ یوسفی صاحب کا
پروگرام ''بہ زبان یوسفی'' چلنے لگا۔ جب بھی یہ پروگرام چلتا میں بہت شوق
سے دیکھتا اور سنتا اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ درمیان سے سارے پردے ہٹ گئے
اور جب پردے ہٹے تو پتہ چلا یہ ہنسنے ہنسانے والا یوسفی تونرا ڈھونگ ہے اصل
میں تو یہ رلاتا ہے اور اتنی آہستگی سے چوٹ کرتا ہے ہونٹ مسکاتے ہیں مگر
آنکھ میں آنسو بھر آتے ہیں۔ یہ ہنسنے ہنسانے والا ڈھونگی ایک بار پھر اتنی
آہستگی سے چوٹ کر گیا ہے کہ اس چوٹ سے بلاشبہ لاکھوں افراد کے آنسو نکل آئے
ہیں۔ یہ آخری چوٹ اس قدر ظالم ہے کہ اب شاید سالوں اس ڈھونگی کی طرح کوئی
ہنس یا ہنسا نہیں سکے گا۔ آہ! آخری چوٹ یوسفی نے بہت ہی گجھی ماری ہے۔ اب
اﷲ ہی اس سے سمجھے ہم تو یہی دعا کر سکتے ہیں۔ |