نومولود بچی کا ساتویں دن بال منڈانا

اس مسئلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ نومولود بچی کا ساتویں دن لڑکا کی طرح بال منڈایا جائے گا یا نہیں ؟ بعض حنابلہ بچیوں کے حق میں حلق (منڈانا) سے منع کرتے ہیں جبکہ امام مالک وامام شافعی کے یہاں لڑکوں کی طرح لڑکیوں کا بھی بال منڈایا جائے گا۔ منع وعدم منع اپنے اپنے انداز استدلال پر منحصر ہے۔ جو منع کرتے ہیں ان کا استدلال یہ ہے کہ احادیث میں خصوصیت کے ساتھ بچیوں کے بال منڈانے کا ذکر نہیں ہے بلکہ غلام کا ذکر ہے جوکہ بچہ(مذکر) پر دلالت کرتا ہے اور بچیوں(مؤنث) کے متعلق بال منڈانے کی ممانعت وارد ہے ۔ عدم منع والے کا استدلال ہے کہ نص عام ہے اس میں جس طرح غلام (لڑکا) داخل ہے اسی طرح جاریہ(لڑکی) بھی داخل ہے۔
پہلے نولود سے متعلق روایات کا جائزہ لیتے ہیں پھر اندازہ کرتے ہیں کہ بچی کا بال منڈانا چاہئے یا نہیں ؟
پہلی روایت : عن محمد بن علی بن الحسین أن فاطمۃ بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وزنت شعر الحسن والحسین وزینب وأم کلثوم وتصدقت بزنۃ ذلک فضۃ . (رواہ مالک فی الموطأ 2/501 ، ورواہ أبو داود فی المراسیل :ص279 ح 380، ورواہ البیہقی فی السنن الکبری :9/304)۔
ترجمہ: محمد بن علی بن حسین سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ فاطمہ بنت رسول اﷲ ﷺ نے حسن، حسین، زینب اور ام کلثوم کا بال وزن کیا اور اس کے برابر چاندی صدقہ کیا۔
یہ روایت مرسل ہے جوکہ ضعیف ہوتی ہے، اس لئے اس سے استدلال نہیں کرسکتے ہیں۔
دوسری روایت : أَخْرَجَہُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِی المُصَنَّفِ(4/333 _ رقم : 7973) عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ؛ قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ یَقُولُ : کَانَتْ فَاطِمَۃُ ابْنَۃُ رَسُولِ اللَّہِ ﷺ لاَ یُولَدُ لَہَا وَلَدٌ إِلاَّ أَمَرَتْ بِہِ فَحُلِقَ ، ثُمَّ تَصَدَّقَتْ بِوَزْنِ شَعْرِہِ وَرِقاً۔
ترجمہ: عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں ابن جریج کے واسطہ سے ذکر کیا ہے انہوں نے کہاکہ میں نے محمد بن علی سے سنا وہ کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت رسول اﷲ ? کے یہاں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا تو حکم دیتی کہ اس کا سر منڈایا جائے پھر اس کے بال کے برابر چاندی صدقہ کرتی ۔
ولد کا اطلاق مذکر ومؤنث دونوں پر ہوتا ہے مگریہ روایت بھی منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ محمد بن علی اور فاطمہ کے درمیان انقطاع ہے۔
مذکورہ دو نوں روایات ضعیف ہیں مگر نیچے کچھ صحیح احادیث ذکر کرتا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ لڑکا کی طرح لڑکی کا بھی بال مونڈا جائے گا۔
(۱)حضرت سمرہ ؓ سے روایت ہے ،نبی ? نیفرمایا:
کلُّ غلامٍ مرتَہَنٌ بعقیقتِہِ تذبحُ عنْہُ یومَ السَّابعِ ویُحلَقُ رأسُہُ ویُسمَّی(صحیح ابن ماجہ:2580)
ترجمہ: ہربچہ اپنے عقیقے کے بدلیگروی ہے ۔ ساتویں دن اس کی طرف سے (عقیقے کاجانور )ذبح کیا جائے اور اس کے سر کے بال اتارے جائیں اور اسکا نام رکھا جائے ۔
اس حدیث میں غلام کے تعلق سے تین باتوں کا ذکر ہے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے، دوسری بات اسی دن سر منڈایا جائے اور تیسری بات اس دن نام رکھا جائے ۔
یہ روایت عام ہونے کے سبب اس میں گوکہ غلام (لڑکا) کا لفظ آیا ہے مگر لڑکی کو بھی شامل ہے ۔جس طرح ایک لڑکے کا ساتویں عقیقہ ، سرمنڈن اور نام رکھائی مسنون ہے اسی طرح سے یہ سب باتیں لڑکی کے حق میں بھی مسنون ہے۔ الگ سے کسی حدیث میں نبی ? نے لڑکی کو مخاطب کرکے نام رکھنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ وہی حدیث لڑکیوں کے لئے بھی نام رکھنے پر دال ہے جہاں لڑکوں کا مخاطب کیا ہے۔جب لڑکیوں کے نام رکھنیمیں یہ روایت دلیل ہے تو عقیقہ کرنے اورسرمنڈانے میں بھی دلیل ہوگی ۔ رہا مسئلہ لڑکا اور لڑکی کی جانب سے جانور میں تعداد کے فرق کا تو اسے رسول اﷲ ﷺ نے الگ سے واضح فرمادیا ہے جبکہ نومولودلڑکیوں کے بال منڈانے کی ممانعت نہیں وارد ہے ۔ نصوص کی عمومیت سے دلیل پکڑتے ہوئے کہا جائے گا کہ لڑکی کے حق میں بھی سرمنڈانا مسنون ہیاور ویسے بھی نومولود بچی کے سرمنڈانے پر ممانعت کی دلیل نہیں ۔
نبی ﷺکا فرمان ہے : إنَّ النِّساء َ شقائقُ الرِّجالِ.(صحیح الترمذی:113)
ترجمہ: عورتیں بھی (شرعی احکام میں) مردوں ہی کی طرح ہیں۔
اگر کوئی نص عام ہو تو جوحکم مردوں کے لئے ہے وہ حکم عورتوں کے لئے بھی ہوگا البتہ مردوں یا عورتوں کے جو مخصوص احکام ہیں ان کا معاملہ الگ ہے۔
(۲)حضرت علی رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں :
عقَّ رسولُ اللَّہِ صلَّی اللَّہُ علیْہِ وسلَّمَ عنِ الحسَنِ بشاۃٍ وقالَ یا فاطمۃُ احلِقی رأسَہُ وتصدَّقی بزنۃِ شعرِہِ فضَّۃً قالَ فوزنتْہُ فَکانَ وزنُہُ درْہمًا أو بعضَ درْہمٍ( صحیح الترمذی:1519)
ترجمہ: رسول اﷲ ﷺنے حسن کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کیا، اور فرمایا: فاطمہ ! اس کا سرمونڈدواوراس کے بال کے برابرچاندی صدقہ کرو، فاطمہ نے اس کے بال کو تولا تو اس کا وزن ایک درہم کے برابریا اس سے کچھ کم ہوا۔
اس حدیث میں نومولود کی جانب سے بال منڈاکر اس کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اس حکم میں لڑکی بھی داخل ہے ، اگر نومولود کی جانب سے چاندی کرنا محض لڑکا کی جانب سے ہے تو پھر شارع علیہ السلام ضرور اس فرق کی وضاحت فرماتے مگر آپ ﷺنے جس طرح بچیوں کے بال منڈانے کی ممانعت نہیں فرمائی اسی طرح اس کی جانب سے صدقہ کرنے کو بھی منع نہیں فرمایا ہے ۔
(۳)سلمان بن عامر رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مع الغلام عقیقۃ فأہریقوا عنہ دما، وأمیطوا عنہ الأذی۔(رواہ البخاری معلقا)
ترجمہ:بچے کے ساتھ عقیقہ ہے ، لہذا اس کی طرف سے خون بہاو اور اس سے میل کچیل دور کرویعنی سرمنڈاؤ۔
بلکہ ایک روایت میں نومولود کا لفظ آیا ہے جو عام ہے مذکرومؤنث دونوں کو ،اس کی سند کو مبارکپوری صاحب نے صحیح کہا ہے۔
إذا کانَ الیومُ السَّابعُ للمولودِ فأہریقوا عنہُ دمًا وأمیطوا عنہُ الأذَی وسمُّوہُ۔(تحفۃ الأحوذی:4/462)
ترجمہ: جب نومولود کا ساتواں دن ہو تو اس کی جانب سے خون بہاؤ، اس کا میل دور کرو (سرمنڈاؤ) اور اس کا نام رکھو۔
اس حدیث میں "امیطوا عنہ الاذی" سے استدلال ہے کہ یہ بچی کو بھی شامل ہے ۔ بال کو گندی سے تعبیر کرکے حلق شعر(بال منڈانے) کو گندگی دور کرنا کہا گیا ہے۔
بہت سے اہل علم نے "اذی" سرمنڈانے کو کہا ہے اصمعی نے یقین کے ساتھ کہا ہے کہ یہ سرمنڈانا ہے بلکہ ابن سیرین کا قول ہے وہ کہتے ہیں کہ اذی سے مراد سر منڈانا نہیں ہے تو مجھے نہیں معلوم اور کیا ہے؟۔
شیخ عبدالمحسن عباد حفظہ اﷲ سے سوال کیا گیا کہ کیا بال منڈانا لڑکا اور لڑکی دونوں کو شامل ہے تو شیخ نے جواب دیا کہ ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ازالہ اذی سے مقصود لڑکا اور لڑکی دونوں کی طرف سے گندگی دور کرنا ہے۔ (شرح سنن الترمذی شریط رقم 174)
صاحب سبل السلام امام صنعانی نے کہا کہ سمرہ کی حدیث میں "ویحلق" سے ساتویں دن مولود کی طرف سے سر منڈانے کی شرعی دلیل ہیاور ظاہر ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کے سرمنڈانے کو عام ہے۔
شیخ البانی نے لڑکی کا سرمنڈانا لڑکے کی طرح کہا ہے۔ (سلسلۃ الہدی والنور؍ شریط رقم :564)
مزید دونکتے جن سے لڑکی کا بال منڈانے کی وضاحت ملتی ہے۔
پہلا نکتہ ہے جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بچی کا سر منڈا نے میں کوئی حرج نہیں ہے وہ یہ ہے کہ عقیقہ دراصل نومولود کے سر کے بال کو کہتے ہیں جسے منڈا جاتا ہے ابوعبید اوراصمعی کا قول دیکھیں :
أَصْلُہَا الشَّعْرُ الَّذِی یَخْرُجُ عَلی رَأْسِ الْمَوْلُوْدِ(شرح سنن الترمذی، باب ماجاء فی العقیقۃ)
ترجمہ: عقیقہ دراصل مولود کے سر کے وہ بال ہیں، جو ولادت کے وقت اس کے سر پر پائے جاتے ہیں۔
علامہ زمخشری رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:
وَسُمِّیَتْ الشَّاۃُ الَّتِی تُذْبَحُ عَنْہُ فِی تِلْکَ الْحَالَۃِ عَقِیْقَۃً لِأَنَّہُ یُحْلَقُ عَنْہُ ذَلِکَ الشَّعْرُ عِنْدَ الذَّبْحِ۔(مصدر سابق)
ترجمہ: پیدائش کے بالوں کی موجودگی میں مولود کی طرف سے ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ سے موسوم کیا جاتا ہیکیونکہ ذبح کے وقت یہ بال مونڈھے جاتے ہیں۔
امام شوکانی رحمہ اﷲ بیان کرتے ہیں:
اَلْعَقِیْقَہُ الذَّبِیْحَۃُ اَلَّتِی تُذْبَحُ لِلْمُوْلُوْدِ وَالْعَقُّ فِی الْأَصْلِ: الشَّقُّ وَالْقَطْعُ، وَسَبَبُ تَسَمِیْتِہَا بِذٰلِکَ أَنَّہُ یُشَّقُّ حَلْقُہَا بِالَّذَبْحِ وَقَدْ یُطْلَقُ اسْمُ الْعَقِیْقَۃِ عَلی شَعْرِ الْمَوْلُوْدِ ((نیل الأوطار : 5/140)
ترجمہ: عقیقہ وہ ذبیحہ ہے، جو نو مولود کی خاطر ذبح کیا جاتا ہے۔ اصل میں عَقَّ کا معنی پھاڑنا اور کاٹنا ہے اور عقیقہ کو عقیقہ کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ذبح کے وقت ذبیحہ کا حلق کاٹا جاتا ہے، نیز کبھی عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں پر بھی ہوتا ہے۔
عیقیقہ نومولود کی طرف سے ذبح کئے جانے والے جانور بھی کہا جاتا ہے اور یہاں ہم نے پڑھا کہ نومولود کے بال پر عقیقہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ گویا نومولود کا بال منڈنا ہی عقیقہ ہے خواہ لڑکا ہو یا لڑکی ہے ۔ اس وجہ سے ہمیں بلاتفریق مذکر ومؤنث نومولود کے ساتویں اس کا بال منڈنا چاہئے اور اس کے برابر فقراء و مساکین میں چاندی صدقہ کرنا چاہئے ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ نومولود کا پیدائشی بال کمزور،انتہائی نرم، گھونگھرالے اور مختلف رنگ کا ہوتا ہے ، نیچیمسام پرایک موٹی سی پرت جمی ہوتی ہے ۔ طبی نقطہ نظر سے اس بال کو منڈانے میں نومولود کی صحت کا فائدہ ہے۔ اس سے بال کو تقویت ، کثافت اور کالے رنگت کا فائدہ ہوتا ہے۔پرت کی صفائی کے ساتھ مسام بھی کھل جاتیہیں ۔ سننے، دیکھنے اور سونگھنے کی قوت میں اضافہ کا سبب ہے۔ اطباء نے بھی توالد کے پہلے ہفتہ میں سرمنڈانا مفید بتلایا ہے۔گویا طبی نقطہ نظر سے نومولود کا سرمنڈانا ایک ضرورت ہے اس ضرورت کے تئیں بچی کا سرمنڈانے میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے۔ یہ ایک قسم کی بھلائی بھی ہے جو صدقہ وخیرات کی شکل میں غرباء کے لئے انجام دی جاتی ہے۔
سنن ترمذی وسنن نسائی میں عورتوں کے بال منڈانے پر ممانعت والی حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف الترمذی((914اور ضعیف النسائی((5064 میں شامل کیا ہے ۔
نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے متعلق مسلم شریف میں ہے ، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں:
وکان أزواجُ النبیِّ -صلی اﷲ علیہ وسلم- یَأخذْنَ مِن رؤوسِہنَّ حتی تکونَ کالوَفْرَۃِ (صحیح مسلم:320)
ترجمہ: بے شک نبی کریمﷺ کی بیویاں اپنے سروں کے بال کاٹ لیتی تھیں حتیٰ کہ کانوں تک لمبے ہوجاتے۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے وقت عورت اپنا بال کاٹ سکتی ہے تو جب عورت کے لئے یہ رخصت ہے پھر پیداہونے والی نئی بچی کا معاملہ تو نومولود کا ہے اس کا سر منڈانا ایک ضرورت اور بھلائی کے تحت کے ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نومولود بچی کا ساتویں دن جس طرح نام رکھنا اور عقیقہ کرنا مسنون ہے اسی طرح بال منڈانا اور اس کے برابر چاندی صدقہ کرنا بھی مسنون ہے۔

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 315 Articles with 313089 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.