تکیہِ مخملی سرہانے رکھ۔۔۔

جویل ولڈن Joel Weldon مشہور ترین نفسیاتی صلاح کار اور ترغیبی مقرر Motivational Speaker ہیں۔ وہ امریکہ کی نامی اور مستند مقررین کی قومی انجمن کے چنندہ ممبران میں شمار ہوتے ہیں۔اپنے ایک لکچر میں انھوں نے بتایا کہ دنیا میں سب سے عجیب و غریب بیج چینی بانبو کے درخت کا بیج ہوتا ہے۔ یہ پانچ سال تک زمین میں پڑا رہتا ہے ۔ اس دوران زمین کے اوپر کوئی نشونما یا کونپل تک نظر نہیں آتی ! غور کیجیے پورے پانچ سال! اس تمام عرصہ میں بیج کی دیکھ بھال پابندی سے پانی ، کھاد وغیرہ دے کر کی جاتی ہے۔ اور پھر ایک حیرت انگیزبات سامنے آتی ہے۔ جب بلا آخر چینی بانبوں کا یہ بیج زمین کے اوپر نمودار ہوتا ہے تو صرف چھ ہفتوں میں یہ نو ے فٹ کی لمبائی حاصل کر لیتا ہے۔ یہ بیج زمین کے اوپر نمودار ہونے میں اتنا وقت کیوں لیتا ہے؟اور پھر نمودار ہونے کے بعد یہ اتنی تیزی سے نشونما پا کر اتنا لمبا اور اونچا کیسے ہوجاتا ہے؟ زمین کے اوپر اتنی اونچائی تک یہ کیسے کھڑا رہ پاتا ہے ؟ ماہر بناتات بتاتے ہیں کہ زمین میں دبا ہوا یہ بیج اپنی نشونماکے ان ابتدائی پانچ سالوں میں زیر زمین جڑوں کا ایک ایسا مضبوط اور طویل و عریض نظام و جال تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے جس کی بنیاد پر چھ ہفتوں میں نوے فٹ کی نشونما اور اونچائی حاصل کرنا ممکن ہو سکے۔ زمین کے اوپر اتنی اونچائی تک کھڑا رہ پانے کے لئے اسے جس مظبوط سہارے، بنیاد اور نظام کی ضرورت ہوتی ہے اسے یہ بیچ نہایت استقلال سے اندر ہی اندر تیار کرتا رہتا ہے۔ اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ فطرت میں چھپی یہ حقیقت زبانِ حال سے کیا اشارہ کر رہی ہے۔کیونکہ فرمان ِ رب ہے کہ ’’ آسمانوں اور زمین میں غور و فکر کرو کہ ان میں کیا کچھ ہے۔‘‘ (یونس ۱۰۱ ) آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں،دن اور رات کے آنے جانے میں اہل دانش کے لئے نشانیاں ہیں (۱۹۰) ۔کیا چینی بانبو کا بیج اس حقیقت کو آشکار نہیں کر رہا ہے کہ عظیم و بہترین نتائج کے حصول کے لئے خاموشی سے دیرپا اور مسلسل مشقت اور تیاری کی ضرورت ہوئی۔یہ محض کتابی بات نہیں ہے بلکہ اس حقیقت کے ثبوت ہمیں

اپنے اطراف میں مل جاتی ہے جیسے ہمارے ملکِ عزیز کی تقریبا ۸۰ فیصد آبادی آج ایک مخصوص طبقہ اور اسکی تنظیم کے پوری طرح زیرِاثر ہے۔اور اس تنظیم کا اثر و رسوخ ملک کے ہر شعبہ میں سرائیت کر چکا ہے۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس تنظیم کو یہ طاقت اور عروج کسی نے طشتری میں رکھ کر پیش کیاہے؟ جی نہیں، بلکہ یہ تنظیم، جس سے وابستہ افراد بمشکل ۲ فیصد ہونگے، گزشتہ سو سالوں سے ہر طرح کے حربوں و چالاکیوں کے ساتھ ساتھ نہایت خاموشی،منصوبہ بندی،سنجیدگی، پابندگی استقلال و اعتما د ، شدید comittment اورآپسی اتحاد وتال میل سے اندر ہی اندر بتدریج اپنی جڑیں مظبوط کرتی رہی ہے۔ جن بچوں (بیجوں) پر انھوں نے محنت کی تھی آج وہی نو جوان اور بوڑھے ہو کر اہم ترین پوزیشن مقام حاصل کر کے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں اس تنظیم کی تائید و تعریف مقصود نہیں بلکہ یہ واضح کرنا مطلوب ہے کہ خدانے اس دنیا کو اصول و ضوابط کے ایک نظام کے تحت کر دیا ہے۔ مذہب،عقیدہ، رنگ ونسل،جنس اور اسی طرح مثبت یا منفی مقاصدو طریقہ کار سے قطع نظر جو بھی ان اصولوں کو اپنائے گا، اسے کم از کم اس دنیا کی کامیابی ملنا طے ہے۔ اور ان اصولوں کا خلاصہ ہے محنت وجد و جہد ،پیشگی تیاری اور مضبوط بنیاد۔ محنت اور کامیابی ایک سکہ کے دو رخ ہے۔دراصل جو کامیابی ہمیں اپنی نظروں سے دیکھائی دیتی ہے اسی کامیابی کے ساتھ آنکھ سے نظر نہ آنے والی جدوجہد کی ایک داستان بھی ہوتی ہے جسے دیکھنے کے لیے چشمِ بینا کی ضرورت ہوتی ہے۔جیسے بحر اوقیانوس میں تیرتے برف کے تودوں Ice burgs کا صرف نوفیصد حصہ سطحِ آب سے اوپر ہوتا ہے اور 91 فیصد حصہ زیرِ آب ۔ کسی مفکر نے بہت خوب کہا ہے کہ ’’ پہاڑ کی اونچی چوٹی پرنظر آنے والا شخص وہاں آسمانوں سے ٹپکا ہوا نہیں ہوتا ہے ‘‘ ۔آیئے ہم بھی عظیم کامیابی کے لئے اپنی جڑوں کو مضبوط کرنے اور پھیلانے کے ایک مشن کا آغاز کریں۔اور اس کے لئے ہمیں شدید محنت اور ایثار و قربانی کے لئے تیار ہونا ہوگا ، عیش و آرام کا تیاگ کرنا ہوگا،اپنی آنکھوں سے شیخ چلی کے خوابوں کو نکالنا ہوگا ،سستی اور نیند کو بھگانا ہوگا۔ بقول سراج اورنگ آبادی :
تکیہِ مخملی سرہانے رکھ !
لیکن آنکھوں سیں اپنی خواب نکال

Shakeel Khan
About the Author: Shakeel Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.