پانی کے کیپسول
(RIAZ HUSSAIN, Chichawatni)
میری اپنی قوم ، حکومت اور سٹیک ہولڈرز سے درخواست ہے خدارہ انٹرنیشنل سروے اور پانی کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے ملک دشمن ایجنڈوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی آنے والی نسل کے لیے سوچیں یعنی ڈیمز کو ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کریں یا کروائیں ۔ کیونکہ ان ڈیمز کی ضرورت صرف ایک عام پاکستانی کو نہیں بلکہ سب کو اس کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ انسانی زندگی کو ہر لحاظ سے خطرہ لاحق ہے۔ قحط سالی یا پھر پانی کے بغیر زندگی۔ اس امر پر ذر ا سوچیں کہیں ایسا نہ ہو جہاں ایک عام پاکستانی میڈیکل سٹور میں پانی پینے کے لیے پانی کے کیپسول لینے کی لائن میں نظر آئے وہاں آپ کے بچے بھی موجود ہوں پھر آپ نہ اقتدار میں ہوں گے اور نہ ہی کوئی آپ کی سننے والا ہوگا۔ ’’اب کیا پچھتائے جب چڑیا ں جگ گئی کھیت ‘‘۔ |
|
|
ڈیمز، نہریں، پانی کی بوتل نوبت پانی کے کیپسول |
|
رب کائنات کا کائنات کو وجود میں لانا۔ اس کائنات کو
زندگی گزارنے کے لیے روئے زمین پر مختلف ضروریات زندگی مہیا کرنا ایک انمول
تحفہ ہے ، یہ تحفہ اس رب العزت کا انمول تحفہ ہے جو اس پر قدرت رکھتا ہے۔
اس کے سوا نہ تو کوئی عبادت کے لائق ہے اور نہ ہی ایسی تخلیق کر سکتا ہے۔
اللہ کریم کے روئے زمین پر بہت سے تحائف میں ایک تحفہ پانی بھی ہے۔ یوں تو
اللہ کریم کی کوئی بھی چیز تحفے /نعمت سے کم نہیں لیکن آج جو مسئلہ انسانی
زندگی کو درپیش ہے، ہونے والا یا ہونے جار ہا ہے وہ ہے پانی۔
پانی کی انسانی زندگی میں کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا
سکتا ہے کہ انسانی جسم میں تقریباً تین حصے پانی ہے ،اسی کل کائنات کا
جائزہ لیں تو ایسی ہی نسبت ملے گی کہ پانی کتنے حصے ہیں۔ انسان جب بیمار
ہوتا ہے تو ڈاکٹرمریض میں پانی کی کمی کو پہلے ترجیح دیتا ہے۔ اگر ضرورت
محسوس ہو تو ڈرپ لگائی جاتی ہے تاکہ پانی کی کمی کو جلد از جلد پورا کیا جا
سکے۔ چھوٹے بچوں کو او ۔آر۔ ایس پلانے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ اکثر بچوں
میں سوکڑے کی بیماری بھی دیکھنے میں آتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ پانی کی کمی
ہوتی ہے۔
انسانی زندگی کے علاوہ ہر جاندار چرند ، پرند ، درخت ، فصلوں کو پانی بہت
بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر پودوں کو پانی وقت پر نہ دیا جائے تو وہ مرجھا
جاتے ہیں، پھل میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یا پھر وہ سوکھ جاتے ہیں۔ اکثرو
بیشتر فصلوں کو بروقت سیراب کرنے کے لیے نہری پانی موجود نہ ہوتو ٹیوب ویل
کے ذریعے اس کمی کو پورا کیا جاتا ورنہ فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔
جب سے انسانی زندگی نے ہوش سنبھالا ہے اس نے پانی کو پایا ۔ وقت گزرتا رہا
ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے پانی کو دریاؤں میں دیکھا ، بڑی بڑی نہریں دیکھنے
میں ملیں۔ کبھی پانی کی بندش کا روگ سامنے نہ آیا اگر آیابھی تو وہ چند دن
کے لیے علاقہ وائز کہ نہر کی بھل صفائی کرنا مقصود ہے۔ جیسے جیسے انسانی
ترقی رونما ہونا شروع ہو ئی اس نسبت سے پانی کی کمی ہونا شروع ہو گئی۔
پانی کی اس کمی کی اہمیت کو سمجھتے بوجھتے ہوئے اسے پورا کرنے کی کوشش نہ
کی گئی۔ ترقی یافتہ ممالک جنہیں پانی کی قلت کی اہمیت تھی اور اس قلت سے
پیدا ہونے والے قحط کے خطرات کو بھانپتے ہوئے انہوں نے ڈیم بنانا شروع کیئے
تاکہ کسی بھی ناگہانی صورت حال میں پانی کو زیر استعمال لا کر اس ضرورت کو
پورا کیا جا سکے۔ ان دانشوروں کو معلوم ہے کہ پانی کے بغیر زندگی ناممکن
ہے۔ اسے ممکن بنانے کے لیے مختلف علاقائی اعتبار سے انہوں نے انسانی زندگی
اور فصلوں کے پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ڈیمز بنائے ، جہاں جہاں ان
کو موسمی لحاظ سے بہتر لگا وہاں وہاں انہوں نے ڈیمز تعمیر کیئے۔
ہمارا قریبی پڑوسی جسے ہم ہندوکہہ کر پکارتے ہیں وہ بھی ہم سے کئی گنا
سمجھدار اور دانشور ثابت ہوا ۔بھارت کے حکومتی ادوار میں جو بھی جیسے بھی
حکمران اقتدار پر برجمان ہوئے انہوں نے پانی کی قلت کو سامنے رکھتے ہوئے
ڈیم ہی ڈیم بنا ڈالے حتیٰ کہ ہمارا (پاکستان) کا وہ پانی بھی روک دیا گیا
یا کم کر دیا جس کا انٹرنیشنل لیول پر معاہدہ ہوا تھا۔ میں سلام پیش کرتا
ہوں ایسی حکومتوں کو جنہوں نے اس پاگل پن کا ثبوت دیا اور اپنے ملک کے لیے
بڑے پیمانے پر پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی ڈیمز میں اضافہ نہ کر سکے۔
آج عالمی سطح پر آواز اٹھنے پر پاکستان میں 2025تک پانی کی انتہائی قلت کا
سامنا کرنے کے شواہد اور تجربات کی روح میں آگاہ کیا جا رہا ہے لیکن اس کے
باوجود ہمارے حکمران خواب خرگوش ہیں۔ ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ،
شائد اس لیے کہ انہوں نے ملک پاکستان کو اتنا لوٹ لیا ہے اب پاکستان رہے یا
نہ رہے، پانی ہو نہ ہو ہم لندن پرواز کر جائیں گے۔ اگر ان کا جینا اور مرنا
ملک کے لیے ہو ، ملک سے محبت اور وفادار ہوں تو آج پاکستان کو دوسرے ممالک
پانی کی قلت سے آگاہ نہ کرتے ۔ اب سوشل میڈیا پر کالا باغ ڈیم پر زور دیا
جا رہا ہے جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے نوٹس لیا ہے اور شرم دلائی ہے
۔
میرا 1988میں کوئٹہ ہنہ جھیل جانے کا اتفاق ہوایہ خوبصورت جھیل پہاڑوں کے
درمیان موجود ہے ، وہاں انگریزدور کا پہلے سے ایک بند بنا کر اسے چھوٹے ڈیم
کی شکل دی گئی تھی لیکن پاکستان کے قائم ہونے جانے کے بعد عدم توجہ کہ وجہ
سے یہ بند بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا ۔ حالانکہ ایسے چھوٹے چھوٹے ڈیم
بہت مناسب جگہوں پر قائم کئے جا سکتے تھے جس سے نہ صرف قحط سالی یا انسانی
زندگی کے لیے پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش نہ ہوتا۔
بات ہو رہی تھی کہ ہمارے آباؤ اجداد نے دریاؤں اور نہروں میں پانی بہتے
دیکھا۔ کھلی فضا میں آنکھ کھولی اور پانی کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑا اور
نہ ہی اس پریشانی سے دوچار ہونا پڑا ۔ ہمارے والدین کا دور آیا تو دریاے
چھوٹے ہوتے گئے، نہریں مزید تعمیر نہ کی جا سکیں۔ البتہ طویل موٹر ویز ضرور
بنا دیئے گئے لیکن انسانی زندگی کے اہم جز پانی کی طرف کوئی توجہ نہ دی
گئی۔ ہمارے والدین نہروں کو خشک ہوتے دیکھا تو پانی کی کمی کو پورا کرنے کے
لیے ٹیوب ویل کا دور آیا ۔ زمین دوز پانی کو نکالنا شروع کر دیا۔ کاشتکارنے
اپنی فصل کو پانی کی کمی پوری کرنے کے ٹیوب ویل کا بے دریغ استعمال شروع کر
دیا۔
اب ہم جو دیکھ رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں زیر زمین پانی بھی تیزی سے ختم
ہوتا نظر آرہا ہے ، جس سے ٹیوب ویل بھی بے بس ہو جائیں گے انٹرنیشنل سروے
کے مطابق پاکستان 2025میں پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا ۔ ابھی تو ہم صرف
سن رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ارد گر نظر دوڑائی جائے تو راول لیک(جھیل)
راول ڈیم، خان پور ڈیم ، دیگر دوسرے ڈیمز کا پانی اپنی سطح سے تیزی سے نیچے
گر رہا ہے بارشیں بھی نہ ہونے کے برابر ہو رہی ہیں۔ اگر بارشیں مزید چند
ہفتے نہ ہوئیں تو پانی کی شدیدقلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دریاوں سے نہریں ،
نہروں سے ٹیوب ویل اور اب ہم ٹیوب ویل سے بوتل تک پہنچ گئے ہیں۔
اب مجھے فکر آنے والی نسل کی ہے ، کیونکہ ہماری حکومتوں نے پانی کے ذخیرے
کے لیے کوئی خاص اقدام نہیں اٹھاے اور نہ ہی اٹھانے کا رادہ رکھتی ہے ہاں
وہ تمام پراجیکٹ مکمل کیئے جائیں گے یا کئے جا سکتے ہیں جن سے بالواسطہ جیب
میں ایک بڑی رقم آئے ۔ ڈیمز کی مد میں چند شر پسند لوگ دوسرے ممالک سے مال
وصول کرتے ہیں اور ڈیمز بنانے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور ساتھ سادہ لوح
قوم کو بھی غلط گائیڈنس سے اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔
اگر یہی وطیرہ ہمارے حکمرانوں اور پاکستان دشمن ایجنٹ کار ہا تو مجھے یوں
محسوس ہو رہا ہے کہ ہماری آنے والی نسل کو میڈیکل سٹور سے پانی کی بوتل کی
بجائے بھاری قیمت میں پانی کے کیپسول نہ خریدنا پڑیں ۔ جو ثبوت ہو گا کسی
بھی ملک کی حکومتی بے بسی اور بے حسی کا اس وقت اعوام اسقدر پس چکی ہو گی
کہ وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکے گی۔
میری اپنی قوم ، حکومت اور سٹیک ہولڈرز سے درخواست ہے خدارہ انٹرنیشنل سروے
اور پانی کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے ملک دشمن ایجنڈوں کو پس پشت ڈالتے
ہوئے اپنی آنے والی نسل کے لیے سوچیں یعنی ڈیمز کو ترجیحی بنیادوں پر تعمیر
کریں یا کروائیں ۔ کیونکہ ان ڈیمز کی ضرورت صرف ایک عام پاکستانی کو نہیں
بلکہ سب کو اس کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ انسانی زندگی کو ہر لحاظ سے خطرہ
لاحق ہے۔ قحط سالی یا پھر پانی کے بغیر زندگی۔ اس امر پر ذر ا سوچیں کہیں
ایسا نہ ہو جہاں ایک عام پاکستانی میڈیکل سٹور میں پانی پینے کے لیے پانی
کے کیپسول لینے کی لائن میں نظر آئے وہاں آپ کے بچے بھی موجود ہوں پھر آپ
نہ اقتدار میں ہوں گے اور نہ ہی کوئی آپ کی سننے والا ہوگا۔ ’’اب کیا
پچھتائے جب چڑیا ں جگ گئی کھیت ‘‘۔ شکریہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں اور
اسٹیک ہولڈرز کو ڈیمر تعمیر کرنے کی توفیق دے آمین۔
|
|