انتخابات و جمہوریت کی اہمیت
(Irteza Jameel Ghamidi, Karachi)
انتخابات و جمہوریت کی اہمیت |
|
یار کچھ نہیں بننا اس ملک کا، سب ایسے ہی چلنا ہے“ میرا
ایک دوست چائے کے کپ سے چسکی لینے کے لئے کپ اٹھاتے ہوئے کہنے لگا- دوستوں
کے ساتھ شام کی چائے پینے کے سلسلے میں ایک ہوٹل پہ جا بیٹھے اور ہماری
گفتگو کا مختلف وادیوں سے گذر کر سیاست کی کھاردار کھائی میں پہنچنا اس کے
مقدر میں لکھا جا چکا تھا-
“کیوں نہیں بن سکتا؟“ میں پیچھے ٹیک لگاتے ہوئے پوچھنے لگا-
بولے؛ یار دیکھ، سب سیاستدان کرپٹ ہیں“
“اور کوئی تجویز“ میں نے پوچھا-
انہوں نے کہا: “سوچ سکتے ہیں کوئی راستہ“
چائے کا کپ رکھتے ہوئے میں نے کہا؛ “تاحال انسانیت نے جمہوریت سے زیادہ
موزوں طرز حکومت دریافت نہیں کیا- ہمیں بہرحال جمہوری قدروں کو مضبوط کرنا
ہوگا“
گویا ہوئے؛ “لیکن ٧٦ سال ہوگئے ہیں، ہمیشہ آمریت ہی نے عوام کو فائدہ
پہنچایا، جمہوری حکومتوں نے تو نقصان ہی دیا ہے، یار“
“برطانیہ نے اپنی ١٢١٥ سے جمہوریت کی رہ پہ چلنے کی کوشش کرنا شروع کی ہیں-
حالانکہ آج بھی انکے ہاں لمٹڈ منارکی ہے، لیکن بہرحال کئی جمہوری ملکوں سے
زیادہ جمہوری ہے- میگنا کارٹا سے لیکر سکاٹلینڈ کے رفرینڈم تک ایک شاندار
اندرونی جمہوری تاریخ ہے- حالانکہ کہ انہوں نے غیر ممالک میں غیر جمہوری
رویہ اپنایا“
“او یار! آپ کہاں انگلینڈ لے گئے، یہ پاکستان ہے میرے دوست یہاں عوام چھڑی
سے سیدھی ہوتی ہے“
میں نے عرض کی؛ “مجھے معلوم ہے کہ ایک لمبا عرصہ درکار ہے- اور ویسے بھی جو
تبدیلی ارتقاء سے گذرتی ہے، پائدار ہوتی ہے- جو لمبے لمبے جست لگانا چاہتی
ہے وہ منہ کے بل گرتی ہے“
ایک اور دوست جو برابر بیٹھے تھے انہوں نے کہا: “کیوں نہ سوشلزم کا اپنایا
جائے؟“
میں نے کہا؛ “دنیا کی تاریخ میں کبھی استبدادی حکومتیں برقرار نہیں رہ
سکیں- اس لئے سوشلزم کا بھی کیا حال ہوا- یورو کمیونزم نے کمیونزم کی عالمی
حکومت کے خیال کو چاک کر دیا- اور تو اور جب ہمیں قرآن حکیم جمہوریت کی
تلقین کرتا ہے تو پھر ہمارے پاس کسی اور چیز کے سوچنے کا بھی موقعہ نہیں
رہتا- قرآن حکیم کے سامنے سر نیاز جھکانا ہوگا-“
“تم چاہتے ہو کہ عوام تب تک ان کے طمانچوں کو برداشت کرتی رہے؟“ ایک اور
دوست بول اٹھے-
“یہ ان کی ہی غلطیوں کی سزا ہے- اگر وہ آمریت کے خلاف سد بن کر کھڑے ہوتے
اور جمہوریت پروان چڑھ چکی ہوتی تو انہیں ان معاملات میں مشکلیں نہ دیکھنا
پڑتیں- ترکی کی مثال تمہارے سامنے ہے میرے دوست“-
تم کہتے تو ٹھیک ہو پر ہمارے ہاں تو صرف وڈیرے ہی جیت سکتے ہیں-
“یہ بھی ارتقائی مراحل طے کر کے ٹھکانے لگ جائے گا“ میں ایک فاتحانہ
مسکراہٹ سے چائے کی آخری چسکی لے کر اٹھا- اور یوں اپنی بحث کی فتح کا مزا
لیتے ہوئے سوئے گھر چل دئے-
|
|