لیاری میں الیکشن مگر فیفا ورلڈ کپ کے بعد۔

لیاری میں فٹبال ورلڈ کپ کے دوران انتخابی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں جب تک ورلڈ کپ کا بخار اترے گا نہیں لیاری میں الیکشن کی سرگرمیاں شروع ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔

لیاری میں فٹبال کا جنون ان دنوں ساتوٰیں اآسمان پر ہے

کوئی ایک ماہ بعد عام انتخابات ہیں اورملک میں اس کی بھرپور تیاریاں جاری ہیں۔ کہیں پارٹی ورکرز اپنے نمائندوں کے قد آور بینرز اور پینافلیکس نصب کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں گھر اور چوراہوں پر اپنی جماعت کا پرچم لہرارہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی انتخابی رنگ دکھائی دے رہا ہے۔ اس بار نوجوانوں نے کام نہ کرنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے۔ کچھ نوجوانوں نے تو کھلم کھلا سوشل میڈیاپر کس کو ووٹ دینا ہے اور کس کو نہیں دینا کی مہم شروع کر رکھی ہے ۔

سیاسی شعور کی بات کی جائے تو سب سے پہلے کراچی کے جس علاقے کانا م ہمارے ذہنوں میں آتا ہے وہ لیاری ہے جہاں قیام پاکستان سے لے کر آمریت کے ہر دور میں ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہی ہے، یہاں تک کہ پیپلزپارٹی کے اپنے جمہوری دور میں چوہدری اسلم کے نام نہاد آپریشن کے خلاف لیاری کے لوگوں نے خاموش رہنے کی بجائے سیسہ پلائی دیوار بننے کو زیادہ ترجیح دی۔

ملک کی طرح لیاری میں الیکشن کی گہما گہمی نہیں ہے بلکہ لیاری والے عالمی فٹبال کپ کے سحر میں گم ہیں۔ جہاں الیکشن کے دنوں میں پارٹی پرچموں کی بہار ہونی چاہیئے وہاں لیاری میں فیورٹ فٹبال ٹیم برازیل سمیت گلی محلوں میں یورپی ملکوں کے جھنڈے لہرارہے ہیں۔ انتخابی امیدواروں کی جگہ میسی، رونالڈو اور نیمار کی پینا فلیکس تصویروں نے لے لی ہے۔ انتخابی نعروں کی جگہ برازیل برازیل کے نعرے گونجنے لگے، جہاں کارنرز میٹنگز ہونی چاہیے تھیں وہاں پراجیکٹر کے ذریعے رات گئے میچز دیکھنے کیلئے نوجوان اور بزرگ موجود ہیں۔

کیا کلری، کیا بغدای،کیا ریکسرلین کا بزنجو گراؤنڈ، کیا پھول پتی اور فوٹولین ۔ کلاکوٹ اور نوالین میں تو پیدا ہوتے ہی یوں سمجھ لیں فٹبال کا شوق امڈ آتا ہے۔ کلری کا علی محمد محلہ اور سرگوات تو ان دنوں لیاری کے دیگر علاقوں کے لوگوں کیلئے تفریح کا مقام بنے ہوئے ہیں۔ یہاں دوران میچ علاقہ معززین کی جانب سے میچ دیکھنے والوں کی تواضع باقاعدہ شربت اور چائے سے کی جاتی ہے۔ خواہ میچ دیکھنے آنے والا شخص اس علاقہ کا رہائشی ہو یاکسی اور علاقہ سے آیا ہوا مہمان۔

اسی طرح بمباسہ اسٹریٹ بغدادی کی ایک گلی نے پورے شہر کو اپنے سحر میں مبتلا کر رکھا ہے۔ برازیل کے میچ پر جو رونق وہاں ہوتی ہے شاید ہی برازیل میں ہوتی ہو۔ کبھی کبھارتو شک ہونے لگتا ہے کہ کیا واقعی یہ برازیل کا علاقہ تو نہیں؟ کلاکوٹ میں کوچ محمد سلیم کے کلاکوٹ یونین اسٹار فٹبال کلب کے باہر لوگوں کے رش کو جب دیکھتا ہوں تو لیاری سے متعلق بزرگوں سے سنی باتوں پررشک ہوتا ہے کہ کس طرح کسی گراؤنڈمیں ہونے والے فٹبال میچ کو دیکھنے کیلئے لیاری اپناکام کاج چھوڑ کر میچ دیکھنے چلا آتا تھا۔

ملک بھر میں الیکشن کا بول بالا ہے اور لیاری میں اس دفعہ پیپلز پارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی کی سیٹ پر منظور نظر کسی فرد کی بجائے براہ راست چئیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری خود اس نشست پر کھڑے ہیں جبکہ صوبائی نشستوں پر وہی پرانے چہرے پیپلزپارٹی کی جانب سے اتارے جارہے ہیں جن سے یہاں کے لوگوں کی اکثریت مطمن نہیں۔

پیپلزپارٹی کے مدمقابل لیاری کے ہی اپنے سپوت اور سماجی ورکر پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اورپاک سرزمین پارٹی کی جانب سے ناصرکریم،شکور شاد،عبدالرشید بلوچ، صادق رشید میدان میں اتر رہے ہیں۔ اسی میدان میں ماضی کے بھی ایک سیاسی کردار حبیب جان کی جانب سے بھی عین الیکشن کے وقت انٹری ماری گئی ہے۔
اب دیکھنا یہ کہ ان میں سے کس کی دال گلے گی۔ لیاری میں اس دفعہ کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ پیپلز پارٹی کی جانب سے وہ زیادتیاں ہیں جو شاید ہماری نسل تو کبھی نہیں بھول سکتی ۔

خیر مقابلہ کس کا ہوگا کون جیتے گا یہ بعد کی بات ہے ابھی تو لیارین فیفا کے عالمی کپ پر اپنی تما م تر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں بلکہ اس بات کو کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ معذرت کے ساتھ لیاری میں الیکشن مہم مگر فیفا کے بعد۔

Amjad Buledi Baloch
About the Author: Amjad Buledi Baloch Read More Articles by Amjad Buledi Baloch: 13 Articles with 11386 views i am journalist.. View More