جوں جوں ملک میں عام انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے ، بہت
سے تبدیلیاں بھی دیکھنے میں آرہی ہیں ۔ اگر پنجاب کے سیاسی منظر نامے میں
ہر روز کوئی تبدیلی رونما ہورہی ہے تو کراچی کے سیاسی افق پر بھی کئی منظر
تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ سیاسی شعبدہ باز کہتے ہیں جنگ اور سیاست میں سب
کچھ جائز ہے، مگر میرے مشاہدے کے مطابق اس دور میں جنگ اور سیاست میں زیادہ
تر چیز ناجائز ہی ہے ۔ ماہِ جون کے اختتام پر پہنچتے ہی سیاسی میدان زیادہ
ہی گرم ہوگیا پنجاب میں زعیم قادری صاحب نے بالکل اسی انداز میں دھواں دھار
پریس کانفرنس کی جس طرح کراچی میں مصطفٰی کمال صاحب کی ایم کیوایم کے خلاف
پہلی پریس کانفرنس تھی اگر ان دونوں پریس کانفرنسوں کو غور سے سنا جائے تو
ان دونوں میں ہزارہا ایسے سوالات چھپے ہیں جن کے جواب شائید ہی کبھی مل
پائیں ۔جس طرح مصطفٰی کمال صاحب نے اپنے عروج کے دور یا پھر اقتدار کے دور
میں نہ کبھی ایم کیوایم کے خلاف کوئی بات کی نہ ہی بانی ایم کیو ایم کے
خلاف بلکہ عجب اتفاق ہے ایک ٹی وی ٹاک شو میں تو مصطفٰی کمال صاحب نے انہی
زعیم قادری صاحب کے ساتھ بانی ایم کیو ایم پر تنقید کرنے کے بعد وہ لفظوں
کی جنگ لڑی تھی جو شائید ہی کبھی بھلا ئی جاسکے ۔
کراچی جو کہ پاکستان کا معاشی حب کہلاتا ہے اور سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا
شہر ہے اس شہر کی بھی عجیب قسمت رہی ہے اس شہر کو اس کی معاشی اہمیت کی وجہ
سے جومقام ملنا چاہیئے تھا وہ نہ مل سکا ۔ اس شہر میں احساسِ محرومی اس وقت
سے پیدا ہونا شروع ہوگئی تھی جب اس کی پاکستان کے دارلخلافہ کی حیثیت کو
ختم کیا گیا ۔ ماضی میں اس شہر پر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی گرفت انتہائی
مضبوط رہی کئی بار بھاری عوامی مینڈیٹ لے کر آنے والی جماعتوں نے اس شہر
اور ان کے مسائل پر تو خوب سیاست کی لیکن انہیں حل کرنے میں اتنی سنجیدگی
نہیں دکھائی جتنا اس شہر کا حق تھا۔ اس شہر میں کئی آپریشن کیئے گئے مگر ان
میں زیادہ تر کے مقاصد سیاسی ہی نظر آئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ کئی
سیاسی رہنماؤں نے سیاست چمکانے کی خاطر اس شہر کے باسیوں کو بھی نہ بخشا
کبھی یہاں رہنے والوں کو بھوکا ننگا بولا گیا تو کبھی زندہ لاشوں کا خطاب
دیا گیا۔ لیکن جوں ہی الیکشن قریب آیا ان تمام لوگوں کے منہ سے اس شہر اور
شہر کے باسیوں کے لیئے پھول جھڑنے لگے جو کل تک اس شہر کے بارے میں زہر
اگلتے رہے ۔سیاسی لوگوں کو ہمیشہ اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ پورا ملک ان
کا حلقہ انتخاب ہے کسی ایک شہر یا شہریوں کو اگر حرف تنقید بنائیں گے تو
ممکن ہے وہی شہر کبھی ان کا حلقہ انتخاب ہو۔ جیسا کہ اب حالیہ انتخابات میں
واضح نظر آرہا ہے ۔
اس شہر کے حوالے سے ایک نہایت دکھ بھرا پہلو یہ بھی ہے کہ اس شہر میں ہونے
والے منفی واقعات کو تو اپنی سیاسی تقاریر اور پریس کانفرنسوں کا حصہ بنایا
جاتا ہے اور بڑھا چڑھا کر اس کا پرچار کیا جاتا ہے لیکن شہر میں ہونے والے
مثبت کاموں کا زکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا ۔یہ شہر جو ملک کا سب سے
بڑا فلاحی ڈونر بھی ہے یہاں نہ صرف فلاحی اداروں کے ذریعے لوگ مستحقین
لوگوں کی مدد کرتے ہیں بلکہ اپنے طور پر بھی ایسے امداد کرنے والے لوگوں کی
بڑی تعداد موجود ہے ، اس شہر میں ہزاروں درسترخوان مستقل بنیادوں پر روز
آنہ لگائے جاتے ہیں جہاں غریب غربا اپنے پیٹ کی آگ بغیر کسی معاوضے کے
بجھاتے ہیں۔ماہِ رمضان میں اس شہر کی تمام ہی سڑکیں دسترخوانوں میں تبدیل
ہوجاتی ہیں ۔ گذشتہ ماہِ رمضان میں اس شہر میں پیار و محبت کے وہ وہ مناظر
دیکھنے میں آئے ہیں کہ دل بھر آتا تھا۔اس شہر کے نوجوانوں کی بڑی تعداد شام
ڈھلتے ہیں فٹ پاتھوں، سڑکوں، پارکوں، ساحل اور مساجدوں میں لوگوں کو افطار
کرانے کی تیاریوں میں نظر آتے تھے۔ جگہ جگہ شہر کے شادی حالوں میں افطار
اور تراویح کے انتظامات ہوتے تھے یہ سب تو صرف ماہ صیام کا ذکر ہے اس کے
علاوہ بھی اس شہر میں بسنے والوں نے مستقل بنیادوں پر بہت سے فلاحی کام
جاری رکھے ہوئے ہیں کبھی کبھی تو میں سوچتا ہوں بھلا ہو ان فرشتہ صفت لوگوں
اور فلاحی اداروں کا اگر یہ نہ ہوتے تو اس شہر کا کیا ہوتا۔
یہ بات قطعی طور پر درست نہیں کہ کسی ایک سیاسی جماعت یا رہنما سے اختلاف
کی وجہ سے اس کے تمام اہل زبان کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے اس سے نفرتیں
بڑھتی ہیں انتشار پیدا ہوتا ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ اس شہر کے کئی
علاقوں سے دہشت گرد پکڑے گئے مگر اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ وہاں کے
باقی تمام لوگ بھی دہشت گرد ہیں ۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شہر کے
دکھوں کا مداوا کیا جائے اس شہر اور لوگوں کے لیے الفاظ و کلام میں احتیاط
سے کام لیا جائے اس شہر کی اہمیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے اس شہر میں
ہونے والی زیادتیوں پر ایک ہوکر آواز بلند کی جائے اس شہر کے مسائل کے حل
کے لیئے مثبت اقدامات کیئے جائیں اور پھر ان سے ووٹ مانگا جائے ۔ |