چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی
سربراہی میں لارجر بینچ نے 13ویں آئینی ترمیم سے پہلے کی رٹ پٹیشن کی طرح
کونسل کے چار ممبران کی طرف سے شاہد خاقان عباسی کابینہ کے فیصلے کو کالعدم
قرار دیتے ہوئے کونسل کا پہلا کردار بحال کرنے کی آئینی درخواست کو ناقابل
سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا ہے جس میں ترمیم و فیصلے کو قومی مفادات
کے مغائر قرار دیا گیا تھا ‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ فیصلہ نیک شگون
ہے یقیناًفاروق حیدر حکومت شاہد خاقان عباسی کابینہ کے فیصلے پر مہر تصدیق
ہے اور جو اس کا حصہ بنتے رہے ہیں ان سب کیلئے سبق آموز ہے ‘ کونسل عملاً
بلیک میلنگ اور کرپشن کا سب سے بڑا گڑھ بن چکی تھی ‘ وہ تعمیراتی منصوبہ جو
یہاں یا پاکستان میں تعمیراتی محکمے دس کروڑ کی لاگت سے تعمیر کرتے تھے
کونسل پچاس کروڑ کا بل پاس کرتی تھی جبکہ کروڑوں ہاء کی سڑک دیوار پانی
دیگر ضروریات کے حوالے سے سکیموں کے جعلی بلات ہوتے تھے جو پہلے خود کونسل
بلدیات تعمیرات وغیرہ سے تعمیر ہوتی تھیں مگران کے نام پر چار چار بار بلات
ہوتے تھے یہی حال دیگر انتظامی اخراجات کا چلا آ رہا تھا جس کا خاتمہ اصل
تکلیف کا باعث بنا ہوا ہے تو انصاف کی کرسی پر دیانتدار اہل وکیل سیاستدان
کی کرسی پر حقیقی سیاسی کارکن بیورو کریٹ کی کرسی پر حقیقی اہلیت کارکردگی
والا آفیسر صحافتی منصب پر حقیقی صحافی ہونا چاہیے جب یہاں انوسٹر لائے
جاتے ہیں تو تباہی ہوتی ہے بات پنجابی ‘ سندھی ‘ بلوچی ‘ پٹھان ‘ کشمیری کی
نہیں ہے بلکہ کرپٹ مافیا کی ہے جو مذہب قومی مفاد ریاستی پہچان ‘ لسانی
تعصبات کا نام لیکر بربادی پھیلاتے رہے ہیں اگرچہ خزانہ سرکار سے تنخواہ
لینے والے شخص کا یہ فرض ہے اسے دیانت داری سے پورا کرنا ہی ذمہ داری ہے
مگر حکومت آزادکشمیر کو کم از کم سپریم کورٹ پاکستان کے فیصلے کو سراہنا
چاہیے تھا اور جو موقف کونسل کے حوالے سے رکھا ہوا تھا وہ اپنے ماتحت
اداروں کے متعلق نظر آنا چاہیے ‘ وزیر بلدیات راجہ نصیر کی وزارت اور بطور
سیکرٹری بلدیات منصور قادر ڈار سے پہلے کونسل جیسا دوسرا نام بلدیات اور
پھر وہ سب محکمے جہاں تین سال مدت تبادلہ کا قانون برسوں سے پامال ہوتا آ
رہا ہے ان کو کون سیدھا کرے گا جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم ایف آئی اے بلا کر
ان کے لیے بنائے تو قول عمل ایک جیسا ثابت ہو جائے ‘ فالیں نکالنے کا شور
ہو یا حکمرانوں کے دوست ‘ کلاس فیلو ‘ محلہ فیلو ‘ ٹرائب فیلو ‘ جماعت فیلو
کے نام پرکیا ہوتا ہے پتہ کریں ‘ بچارے راجہ نصیر کی طرح کتنے ہی وزیر بے
خبر ہوتے ہیں اوپر والوں کے دوست اور علاقہ دیگر ناموں پر کیا کچھ ہو جاتا
ہے ۔ اپوزیشن لیڈر بات کرے تو ریفرنس حرکت میں آ جاتے ہیں یہ کہاں کی
بہادری ہے ‘ چوہدری یاسین کیخلاف ریفرنس حرکت میں لانا جائز ہے تو پھر آپ
اور کونسل کی رٹ کرنے والوں میں فرق کرنے کی کوئی دلیل باقی رہتی ہے ؟
اپوزیشن قائدین اور قانون دانوں کی طرف سے 13ویں ترمیم پر رائے کا اظہار نہ
صرف عام لوگوں کے لیے باعث دلچسپی بنتا ہے بلکہ خود حکومت کو اس پر اپنا
موقف بار بار بیان کرنے کا جواز ملتا ہے یہی صحت مندانہ جمہوریت اور عوامی
آگاہی کا بہتر ذریعہ ہے حکومت اپنی کابینہ کے خاموش ارکان اور اداروں کے
سیاسی سربراہوں کو بھی حرکت میں لائے خالی کرسیوں پر بیٹھ کر جھولا جھولنے
اور مخالفین کو بھی ناراض نہ کرنے سے گریز کریں ۔ جو سامنے آ کر جی جی کرے
وہی جی دار ہے اور طارق بٹ چاندی جیسا عظیم کارکنان دنیا فانی سے کوچ کر
جائے تو اس کے نام پر کوئی گلی ‘ روڈ ‘ چوک کرکے ہی وفا شعاری کا ثبوت دے
دیتے ؟ |