خون ِ ناحق۔۔۔۔موساد

پچیس سالہ فلسطینی سائنس دان فادی البطش کے ملائیشیا میں قتل نے اسرائیل کے اس خفیہ پروگرام سے پردہ اٹھا دیا ہے، جس کے تحت ان افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے جنھیں اسرائیل اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔فادی البطش نے غزہ سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور بعد میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے ملائیشیا چلے گئے۔ ان کا تخصص توانائی کا نظام اور بچت تھا، انھوں نے اس موضوع پر کئی سائنسی مقالے بھی تحریر کیے تھے۔حماس کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ فادی البطش حماس کے ایک وفادار رکن تھے ، وہ ایک نوجوان فلسطینی اسکالر تھے، جنھوں نے توانائی کے شعبے میں خدمات انجام دیں۔ ساتھ ہی حماس نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ کو فادی البطش کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔فادی البطش کے والد نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’انھیں شک ہے کہ ان کے بیٹے کا قتل موساد نے کیا ہے‘‘۔ انھوں نے ملائیشیا کے حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ جلدازجلد قاتلوں کاسراغ لگائیں۔

اسرائیلی تفتیشی صحافی رونن برگمن اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں بڑے ماہرین میں سے ایک ہیں اور ایک کتاب Rise and Kill First کے مصنف بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فادی البطش کے قتل کی واردات جس طرح انجام دی گئی ہے، اس سے موساد کے ملوث ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے انھوں بتایا کہ واردات میں موٹر سائیکل کا استعمال ہونا اور اسرائیل سے دور اتنی مہارت کے ساتھ کام انجام دینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس واردات کے پیچھے موساد کا ہاتھ ہے۔اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے اپنے ہدف کی شناخت کئی مراحل سے گزر کر مکمل ہوتی ہے۔اس عمل میں موساد ، دیگر خفیہ ایجنسیاں اور سیاسی قیادت شامل ہوتے ہیں۔اسرائیل کے دیگر مقامی اور عسکری ادارے بھی ہدف کی نشاندہی میں معاونت کرتے ہیں۔
مثال کے طور پہ یہ ممکن ہے کہ حماس کے حوالے سے کام کرنے والی کسی خفیہ ایجنسی نے اپنی کسی رپورٹ میں فادی البطش کی نشاندہی کی ہو۔اور ایسا بھی ممکن ہے کہ دنیا بھر میں موجود اسرائیلی جاسوسوں نے یہ کام کیا ہو۔"الجزیرہ کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حماس کے غزہ سے ترکی اور لبنان کے درمیان ہونے والے تمام رابطوں کی اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔فادی البطش کے دوستوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ انھوں نے کبھی بھی حماس سے اپنے رابطوں کو نہیں چُھپایا۔ ان کے ایک دوست کے مطابق ’’وہ فلسطینی برادری میں حماس سے اپنے تعلقات کے باعث جانے جاتے تھے‘‘۔

فادی البطش کی بطور ہدف نشاندہی ہونے کے بعد موساد نے ان کے بارے میں حاصل معلومات کی جانچ پڑتال کی ہوگی تاکہ فادی البطش کے قتل، اس سے حاصل ہونے والے فوائد اور اس کیلئے موزوں طریقہ کار کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے۔ اس کے بعد موساد اپنی سفارشات اسرائیلی خفیہ اداروں کے سربراہان کو پیش کرتی ہے۔ تاہم ان سربراہان کے پاس کسی آپریشن کی اجازت دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ صرف وزیر اعظم ہی اس قسم کے آپریشن کی اجازت دینے کا اختیار رکھتا ہے۔ جس کے بعد آپریشن عمل در آمد کیلئے موساد کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔

قیساریہ یونٹ موساد کی ایک خفیہ شاخ ہے، جس کے ذمہ دنیا بھر اور خاص طور پر عرب ممالک میں جاسوسوں کی تعیناتی کاکام ہے۔ یہ یونٹ ۱۹۷۰ء کی دہائی کے اوائل میں قائم ہوا۔ اس کا بانی ایک مشہوراسرائیلی جاسوس مائیک حراری تھا۔اس یونٹ نے جاسوسوں کے وسیع نیٹ ورک کو بروئے کار لاتے ہوئے عرب ممالک اور مشرق وسطیٰ میں معلومات جمع کرنے اور مستقبل کے ممکنہ اہداف کی نگرانی کا کام کیا۔بعد میں مائیک حراری نے قیساریہ کا سب سے زیادہ خطرناک اور مہلک یونٹ ’’کیدون‘‘ قائم کیا۔ کیدون عبرانی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ’’سنگین‘‘ کے ہیں۔اس گروہ کے اکثر افراد کا انتخاب اسرائیلی فوج کی مختلف شاخوں سے کیا جاتا ہے، جن میں اسپیشل فورسز بھی شامل ہیں ۔ذرائع نے الجزیرہ کو بتایا ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ فادی البطش کو کیدون کے افراد کے ذریعے قتل کروایا گیا ہو۔ موساد نہ صرف فلسطینی رہنماؤں بلکہ شام ، لبنان، ایران اوریورپ کے سیاستدانوں کوبھی اپنا ہدف بناتی ہے۔

قیساریہ سی آئی اے کے Special Activities Center (SAC) کی طرح ہی کام کرتی ہے۔سی آئی اے کے انتہائی خفیہ نیم فوجی مشن جن میں ٹارگٹ کلنگ بھی شامل ہے Special Operation Group (SOG) انجام دیتا ہے جو کہ SAC کا حصہ ہے اور موساد کے کیدون سے مماثلت رکھتا ہے۔برگمن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ۲۰۰۰ء تک اسرائیل نے اپنے مخالفین کو قتل کرنے کی ۵۰۰سے زائد کارروائیاں کیں، جن میں ۱۰۰۰ سے زائد افراد قتل ہوئے۔دوسرے انتفاضہ کے دوران اسرائیل نے مزید ۱۰۰۰ کارروائیاں کیں، جن میں سے ۱۶۸ کامیاب رہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی حکومت اس قسم کی مزید ۸۰۰ کارروائیاں کر چکی ہے، جن میں غزہ اور فلسطین سے باہرحماس کے سیاسی اور عسکری قائدین کو قتل کیا گیا۔ موساد نے تنظیمی سطح پر دیگر عرب خفیہ ایجنسیوں سے رابطے رکھے ہوئے ہیں ۔جن میں اُردن اور مراکش کی خفیہ ایجنسیاں قابل ذکر ہیں۔حالیہ دنوں میں خطے میں قائم ہونے والے نئے اتحاد اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے خطرے کے پیشِ نظر موساد نے مصر اور دیگر خلیجی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں سے بھی اپنے رابطے بڑھائے ہیں۔موساد نے خطے میں اپنی کارروائیوں کی نگرانی کیلئے اُردن کے دارالحکومت عمان میں اپنا دفتر قائم کیا ہوا ہے۔موسادنے ۱۹۹۷ء میں عمان میں حماس کے رہنما خالد مشعال کو کان میں زہر کا اسپرے کر کے قتل کرنے کی کوشش کی، اس کے ردعمل میں اردن کے بادشاہ شاہ حسین نے اسرائیل سے امن معاہدہ ختم کرنے اور عمان میں قائم موساد کے دفتر کو بند کرنے کی دھمکی دی۔ اس دھمکی کے نتیجے میں اسرائیل نے زہر کا اثر ختم کر نے والی دوائی مہیا کی، جس سے خالد مشعال کی جان بچائی گئی۔

برگمن نے اپنی کتاب میں موساد کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس وقت اردن کی انٹیلی ایجنسی کے سربراہ جنرل سمیح نے اس بات پر اسرائیل سے شدید احتجاج کیا کہ انھیں اس آپریشن کے بارے میں پہلے سے کیوں نہیں آگاہ کیاگیا، کیوںکہ وہ اس حوالے سے مل کرکام کرنا چاہتے تھے۔برگمن کی تحقیق کے مطابق مراکش کے۱۹۶۰ءسے ہی اسرائیل کے ساتھ روابط قائم ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مراکش نے اسرائیل سے بہت سی خفیہ معلومات اور تکنیکی امداد حاصل کی اور اس کے بدلے میں مراکش کے اس وقت کے بادشاہ حسن نے مراکش کے یہودیوں کو اسرائیل جانے کی اجازت دے دی اور موساد نے مراکش کے دارالحکومت رباط میں اپنا دفتر قائم کیا۔اس تعاون میں اس وقت مزید اضافہ ہوا، جب مراکش نے موساد کو ۱۹۶۵ء میں عرب لیگ کے اجلاس کے دوران عرب ممالک کے سربراہان اور فوجی حکام کے کمروں کی جاسوسی کی اجازت دی۔

CIAکے مقابلے میں موساد کو اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے حوالے سے کافی زیادہ قانونی آزادی حاصل ہے۔اور اسے قانونی پہلوؤں کیلئے بہت کم ہی کہیں جواب دہ ہوناپڑتا ہے۔CIAکے سابق آپریشن آفیسر رابرٹ بئیر کا موساد کی ٹارگٹ کلنگ کے بارے میں کہنا تھا کہ ’’یہ ان کی قومی سلامتی کی پالیسی کا حصہ ہے‘‘۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390045 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.