قومی احتساب بیورو یعنی نیب نے سابق وزیر اعظم میاں نواز
شریف کے دو بیٹوں اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ملک واپس لانے کے لیے
انٹرپول سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اس ضمن میں سمری کی منظوری دے
دی ہے جس کے بعد نیب کے حکام ملزمان کو پاکستان واپس لانے کے لیے انٹرپول
سے رابطہ کرے گی۔
|
|
نیب کے ترجمان نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے پر بہت جلد
عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔
پاناما لیکس کے مقدمے میں گذشتہ برس سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سابق
وزیر اعظم میاں نواز شریف کے علاوہ ان کے دونوں بیٹوں حسن نواز، حسین نواز
کے علاوہ ان کی بیٹی مریم نواز کے خلاف بھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا
تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد حسن نواز اور حسین نواز لندن روانہ ہوگئے
تھے جبکہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد
صفدر سمیت احتساب عدالت میں پیش ہوتے رہے ہیں۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق احتساب عدالت نے عدم پیشی پر حسن نواز اور
حسین نواز کو اشتہاری قرار دینے کے علاوہ ملک میں ملزمان کے نام پر جائیداد
کو قرق کرنے کا حکم دیا تھا۔
ملزمان حسن نواز اور حسین نواز برطانوی شہری ہیں اس لیے اگر نیب انٹرپول کے
ذریعے ان کو وطن واپس لانے کے لیے انٹرپول سے رابطہ کرتی ہے تو اس بات کے
امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کہ برطانوی حکومت ان دونوں شہریوں کو
پاکستانی حکام کے حوالے کرے گی۔
اس کے علاوہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبادلوں کا کوئی
معاہدہ بھی موجود نہیں ہے۔
سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار چند پیشیوں پر تو عدالت میں پیش ہوتے رہے
لیکن بعدازاں وہ علاج کی خاطر لندن روانہ ہوگئے اور اس کے بعد وہ احتساب
عدالت میں پیش نہیں ہوئے، جس کی وجہ سے عدالت نے اُنھیں اشتہاری قرار دینے
کے علاوہ ان کے پاکستان میں اثاثے اور اکاؤنٹس منجمند کیے ہیں۔
|
|
نیب کے سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر ذوالفقار بھٹہ نے بی بی سی کو بتایا کہ
چیئرمین نیب کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ملزمان کو وطن واپس لانے کے لیے
براہ راست انٹرپول سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ متعلقہ حکام کو ملزم کی وطن واپسی کے تناظر میں قائل کرنے
کے لیے ٹھوس شواہد ہونا ضروری ہیں۔
ذوالفقار بھٹہ کا کہنا تھا کہ اگر شواہد کمزور ہوں تو انٹرپول نیب کی
درخواست کو مسترد بھی کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ٹھوس شواہد کے بغیر ایک صوبے کی پولیس دوسرے صوبے
کی پولیس کو ملزم نہیں دیتی اسی طرح کمزور شواہد پر ایک ملک ایک شخص کو
کیسے دوسرے ملک کے حوالے کرسکتا ہے۔
نیب کے سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ نیب کے پاس سابق وزیر
اعظم کے بچوں کے خلاف شواہد نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ خود بھی نواز شریف سمیت دیگر ملزمان کے نام ای
سی ایل میں نہیں ڈالنا چاہتی اور اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح
نواز شریف اور ان کی فیملی کو ملکی سیاست سے دور رکھا جائے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے ان دنوں
لندن میں ہیں جبکہ ان کی بیٹی مریم نواز بھی ان کے ہمراہ ہیں۔
|
|