کیا حسن نے سمجھا ہے، کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
’’بابا بلّھے شاہ‘‘ ایک ایسا نام ہے جو صوفیانہ شاعری کے آسمان کا چمکتا
دمکتا ستارہ ہے۔ آپ اگرچہ پنجابی زبان کے شاعر ہیں مگر آپ کا لب و لہجہ اور
آہنگ ایسا پُراثر ہے کہ غیر پنجابی بھی آپ سے وہی اُنس و عقیدت رکھتے ہیں
جو پنجابی بولنے والوں کو آپ سے ہے۔ اِسی پُر تاثیر لہجے نے آپ کوعالمی
شہرت دلوائی ہے کہ پوری دنیا میں جہاں جہاں پنجابی زبان سمجھی جاتی ہے وہاں
بلھے شاہ کا کلام سنا اور پسندکیا جاتا ہے۔ خصوصی طور پر بابا بلّھے شاہ کو
پنجاب ،سندھ اور ہندوستان میں سنا جاتا ہے۔ آپ صوفی شاعر عبدالطیف بھٹائی
کے ہمعصر ہیں جو سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔
بابا بلُھے شاہ سیّد گھرانے سے تعلُق رکھتے تھے وہ ۱۶۸۰ میں اُوچ شریف
میں پیدا ہوئے۔آپ کی شاعری عشقِ حقیقی کا مظہر ہے ۔ اُن کی اللہ سے محبت ہر
چیز پرحاوی ہے ۔ آپ کا حرف حرف آپ کے من کی آواز ہے اور اپنے رب سے گہرے
تعلق اور محبت کا اِظہار ہے۔ بابا بلّھے شاہ کا اصل نام عبدُاللہ شاہ ہے آپ
کے والِد ماجِد شیخ شاہ محمد درویش تھے ۔ آپ کو تصوّف وِرثے میں ملا اور
خون میں شامِل محبت آپ کی سوچ اور لگن کے باعث عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی
گئی۔اُن کی شاعری کی اگر بات کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شاعری
میں جہد و عمل کا درس ملتا ہے وہ صوفی ہوتے ہوئے بھی تارک الدنیا نہیں
تھے۔ان کی شاعری میں ہمیں علم و عمل دونوں کی طرف رغبت و دعوت ملتی ہے۔ہمیں
زندگی میں ہر موڑ پر ایسے راہنما کی ضرورت پیش رہتی ہے جو ہمیں علم و عمل
کی طرف راغب کریں ہمیں انسان دوستی کا درس دیں ،ہمیں اللہ اور ان کی
مخلوقات سے محبت و التفات کی ترغیب دیں ۔ اور یہ سب ہمیں بابا کے کلام میں
مل جاتا ہے۔فی زمانہ بابا کے کلام تک بنی نوع انسان کی رسائی سہل بنانے کے
لئے کئی لوگ اپنی سی کوشش کر رہے ہیں جن میں ایک نام پروفیسر سعید احمد کا
بھی ہے ۔انہوں نے نہ صرف بابا بلّھے شاہ کا بلکہ وارث شاہ اور میاں محمد
بخش کے کلام کا بھی اردوترجمہ کیا ہے۔ صرف اردو ترجمہ پر ہی اِکتفا نہیں
کیا بلکہ اُنہوں نے تصوف کا حق ادا کرنے کی بھرپورکوشش کرتے ہوئے اِسے ہندی
اور انگریزی میں بھی ترجمہ کیا ہے۔پروفیسر صاحب نے تصوف اور صوفیا ء سے
اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے تلفظ کی ادائیگی میں آسانی کے لئے اِسے رومن
میں بھی لکھا ہے۔
اپنی کتاب " کافیاں بلّھے شاہ،"GREAT SUFI" WISDOM"BULLEH SHAHمیں پروفیسر
سعید احمد صاحب نے قاری کی سہولت کے لئے کتاب کی ابتداء میں ہی ٹرانسلیشن
گائیڈ دے دی ہے تاکہ قاری الفاظ کا تلفظ ، اس کی ادائیگی اور اپنی زبان کے
مطابق اسکا لہجہ ڈھال سکے۔
اِس کتاب میں اُنہوں نے ۳۵ منتخب کافیاں شامِل کی ہیں جسکاپہلا ایڈیشن ۲
اگست ۲۰۰۴ میں آیا اور پھر ریوائزڈ ایڈیشن ۲۱ جون ۲۰۰۸ کو شائع ہوا۔محترم
جناب سعید احمد صاحب نے پنجابی کو رومن میں اس قد ر واضح طور پر لکھا ہے کہ
انگریزی پڑھنے والا بِلا کم وکاست پنجابی کے لہجے کو پڑھ پائے گا اور پھر
اِ تنی ہی عام فہم انگریزی میں اس کا ترجمہ کیا ہے کہ یہ بات یقینی طورپر
کہی جا سکتی ہے کہ انگریزی سمجھنے والا قاری چاہے وہ کسی بھی دوسری زبان کا
ہو بابا بلّھے شاہ کے خیالات اور احساسات کو اپنے اندر اُترتا محسوس کرے
گا۔جومنتخب کافیاں شامِل ہیں ان میں (۱) اِکو الف تیرے درکار (۲) گھڑیالی
دیو نکال نی (۳)تانگھ ماہی دی (۴)اِک الف پڑھو چھُٹکارا اے (۵)تیرے عشق
نچائیاں وے (۶)اِک ٹوُنا اچنبھا (۷)اک نقطے وِچ گل (۸)آو سئیو رَل دیو
(۹)بس کر جی (۱۰)عشق دی نویوں (۱۱)مینوں سُکھ دا (۱۲)بلُھا کیہ جاناں (۱۳)
حاجی لوک مَکے (۱۴) پڑتالے لاہون عاشق (۱۵)بے حدرمزاں (۱۶)منہ آئی بات
(۱۷)گھنگٹ اوہلے (۱۸)اِک رانجھا مینوں لوڑی دا (۱۹)ماٹی قدم کریندی یار
(۲۰) ڈھولا آدمی بن آیا (۲۱) میرا رانجھن ہُن کوئی ہور (۲۲)بھانویں جان نہ
جان (۲۳)کون آیا پہن لباس (۲۴) پردہ کِس توں راکھی دا (۲۵)راتیں جاگیں
(۲۶)اُلٹے ہور زمانے آئے (۲۷)کِیہ کردا نی کِیہ کردا(۲۸) اَب ہم گُم ہوئے
(۲۹) رانجھا رانجھاکردی(۳۰)تُوں ناہیوں وے (۳۱)تیں کِس پر پاؤں (۳۲)اُٹھ
گئے گونڈھوں یار (۳۳)میں کسنبڑا چُن (۳۴)وَت نہ کرساں مان (۳۵)میری بُکل دے
وِچ چورشامل ہے ۔
ہر کافی اپنے آپ میں ایک جہان ہے اور فاضل پروفیسر نے اِ س جہان کو صرف
پنجابی زبان کے دروازے سے کھوجنے کی مجبوری کو حتیٰ الوسع دور کرنے کی کوشش
کی ہے اور دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی اِس جہان کے حسن کو پرکھنا آسان بنا
دیا ہے۔مصنف کی دیگر کتب کابھی عالمی سطح پر ترجمہ ہو چکاہے جیسا کہ
رشین،پولش، اسپینش، اٹالین،جاپانی ،چینی، فارسی،ترکی، عربی اور کونیگو (ایک
افریقی زبان)وغیرہ۔اس کتاب کو قاضی پرنٹر اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ محترم
جناب پروفیسر صاحب کی ۷ کتب مختلف موضوعات پر شائع ہو چکی ہیں اور مزید کتب
تراجم وغیرہ تصوف کے موضوع پر انشاء اللہ جلد شائع ہونے والی ہیں۔تصوف کے
موضوع پر اُن کا کام قابلِ ستائش ہے جس سے ایک عام قاری بھی رب سے اپنے
تعلق کو مضبوط بنانے اور اولیاء کرام کے پیغام کو سمجھنے میں کافی حد تک
آسانی محسوس کرے گا۔ |