حضرت نوح علیہ السلام کی تبلیغی روش سے اس بات کا اندازہ
لگایا جاسکتاہے کہ رہنمائے دین کو قوم کا کس قدر درد اور امت سے کتنی
ہمدردی ہوتی ہے ۔لوگوں نے آپ پر پتھرسے جسارت کی لیکن آپ پتھر کا جواب دیئے
بغیران حیوان صفت لوگوں کو انسان بنانے میں شب وروز کوشاں رہے ۔ساڑھے نو
سال کی تبلیغ میں حد اکثر ہی نور ایمان سے شر شارہوئے ۔۔۔۔یہاں تک کہ اللہ
نے وحی کی کہ اب کو ئی ایمان نہ لائےگاعلاوہ ان کے جو لاچکے ہیں ۔لہٰذ ا،تم
ان کے افعال سے رنجیدہ نہ ہو ۔اور ہماری نگاہوں کےسامنے ہماری وحی کی
نگرانی میں کشتی تیارکرو۔(سور ھود 36اور 37)
جب حکم خدا پر عمل درآمد ہونا شروع ہوا تو ۔۔۔ایک کافر نے کہا:اے نوح !
پیغمبری کادعویٰ تھا!۔۔۔اور بالآخر نجار بن گئے ۔۔۔!
دوسرے نے کہا:کشتی بنانا توٹھیک ہے لیکن دریا بھی تو تیار کرو۔کسی کسی
عقلمند کو خشکی کے لئے کشتی تیار کرتے دیکھاہے!؟
تیسرے نے اعتراض کیا:اتنی عظیم کشتی کس لئے !چھوٹی بناؤ کہ اگر دریامیں
چلانا ہو تو چلاسکو۔۔۔
کچھ روز بعد ۔۔۔تنو ر سے پانی ابلنے لگا ،بجلی کی چمک نے نگاہوں کو خیرہ
کردیا ،گالی کھٹا نے ہر سو سیاہی پھیلادی ،بادل امڈ پڑے ،آسمان نے ابر رحمت
کے دہانے کھول دیئے اور قرآن مجید نے یوں عکاسی کی ہے کہ موسلادھار بارش کے
ساتھ ساتھ آسمان کے در بھی کھول دیئے گئے اور زمین سے بھی چشمے جاری کردئے
گئے او پھر دونو ں پانی ایک خاص مقررہ مقصد کے لئے باہم مل گئے ۔(سورہ قمر
11 اور12(
پانی کا زمین پر اس طرح سے قبضہ ہوگیا تھا کہ گویا زمین نے آسمان سے ہاتھ
ملالئے ہوں ۔یہ عالمی طوفان چھ ماہ (رجب المرجب تا ذی الحجۃ الحرام )تک رہا
اور سفینہ نوح کوہ جودی پر جاٹھہراجو کہ موصل ،آمد یا جزیرہ کے علاقہ میں
واقع ہے ۔(سورہ ہود تفسیر نمونہ ،زیر نظر آیۃ ا۔۔۔ناصرمکارم شیرازی ،طبع :انتشارات
دارالکتب الاسلامیہ ،طہران ،بازار آزر ،چاپ نہم )
آج سے تقریبا پچاس برس قبل کی بات ہے کہ ترکی کے ایک پہاڑ پر کچھ محققین کو
آپ کی کشتی دریافت ہوئی توانہوں نے اس کی تصاویر میڈیا پر شائع کردی ۔اس کا
شائع ہونا تھاکہ پوری دنیامیں ہنگامہ پربا ہوگیا اور منکرین کے درمیان ایک
بہت بڑی بحت کا آغاز ہو چلا ۔معترض نے کچھ اعتراض بھی پیش کئے جس کا جواب
دینے سے اہل کتاب ناکام رہے درآنحالیکہ اس کا تسلی بخش جوب قرآن میں موجود
ہے ۔
لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ بھلاکیسے ممکن ہے کہ جدید ٹکنالوجی کا استعمال کئے
بغیر عالمی سیلاب میں مہینوں تک تیرنے والی کشتی تیار کا وجود ہو؟
قرآن میں ارشاد ہوا:"وحملنٰہ علیٰ ذات الواح و دسر۔ "اور ہم نے نوح کو
تختوں اورکیلوں والی کشتی میں سوار کیا ۔(سورہ قمر 13)
تحقیق کے بعد یہ خبر سامنے آئی کہ اس سے کیلوں اورتختوں کے آثار ملے ہیں
۔جو اس بات کی نشاندہی ہےکہ وہ جناب نوح کی ہی کشتی ہے۔
لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ کیا کوئی ایسی کشتی کا تیار کرنا ممکن ہے جس میں
جہاں بھرکے جانور سماں جائیں ؟
اللہ نے ان کا جواب یوں دیا :"قلنااحمل فیھا من کل زوجین اثنین واھلک الا
من سبق علیہ القول ومن آمن وما آمن معہ الاقلیل۔ "
تو ہم نے کہاکہ نوح اپنے ساتھ ہر جوڑے میں سے دو کو لے لو اور اپنے اہل
کوبھی لے لو علاوہ ان کے جن کے بارے میں ہلاکت کافیصلہ ہوچکا ہے اور صاحبان
ایمان کو بھی لے لو اوران کےساتھ ایمان والے بہت ہی کم تھے۔(سورہ ہود 40)
اسلامی تاریخ میں ملتاہے کہ کشتی نوح بارہ سو ہاتھ لمبی اور چھ سو ہاتھ
چوڑی تھی ۔ابو حیان اندلسی کا بیان ہے کہ آپ نے لکڑیاں لبنان کے جنگلوں
فراہم کی تھیں ۔(انوارالقرآن ،علامہ سید ذیشان حیدر جوادی صفحہ
484ناشر:انصاریان پبلیکیشنز 2007)جدید تحقیقات کے مطابق کشتی تین منزلہ تھی
جس میں جانور ترتیب وار سوار تھے ۔اس کی مساحت اتنی تھی کہ اس میں 522 ریل
کے ڈبے سوار کئے جاسکتے تھے اور تقریبا 25000جانور ۔بعض اسلامی روایات میں
یہ بھی آیاہےکہ طوفان آنےسے چالیس سال قبل ہی اللہ کی طرف سے ایک عذاب آگیا
تھا کہ ہر عورت بچہ جنم دینےسے معذور ہوگئی تھی ۔جس کےسبب اس وقت بہت ہی کم
افراد کا وجود رہا۔
اب بعض لوگوں کا اعتراض کہ اتنے عظیم طوفان میں کشتی کیسے تیرتی رہی اور وہ
محفو ظ بھی رہی؟
خدا وند عالم قرآن میں ارشاد فرماتاہے :"وقال ارکبو ا فیھا بسم اللہ مجرٰھا
ومر سٰھا۔"نوح نے کہاکہ اب تم کشتی میں سوارہوجاؤ ۔خدا کے نام کے سہارے اس
کابہاؤ بھی ہے او ر اس کاٹھہراؤ بھی ۔(سورہ ہود 41)
حیرت انگیز بات یہ ہےکہ اس پہاڑ کی وادی میں بڑی بڑی چٹانوں پر مشتمل لنگر
دریافت ہوئے ہیں جو یقینا سفینہ نوح کے ہی ہیں ۔
بعض کا یہ اشکال کہ چلو یہ مان لیاکہ کشتی بنی اور اس نے لوگوں مخلوقات کی
حفاظت بھی کی لیکن اب تک باقی کیسے رہی؟
قرآن کریم میں ارشاد ہوتاہے :''ولقد ترکنھا اٰیۃ فھل من مدکر۔ "اور ہم نے
ایک نشانی بناکر چھوڑدیاہے تو کیاکوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے ۔(سورہ قمر 15)
قابل تعجب بات یہ ہےکہ صرف اسی پہاڑی پر برف تھی ۔جس کے باعث وہ آج لوگوں
کے نمونہ عبرت قرار پائی۔پروردگار عالم کا قرآ ن حکیم میں واقعات کو بیان
کرنا شاید اس مقصد کے تحت ہوکہ لوگ ماضی کی تصاویر کو حال کے آئینہ میں
دیکھ کر نصیحت حاصل کریں ۔چونکہ رسول اسلام کی حدیث کے مطابق اہل بیت کشتی
نوح کے مانند ہیں ۔جو ان کی پیروی کرے گا وہ فلاح و نجات یافتہ ہوجائے گا
۔لہٰذا!ہمیں تعصب کی عینک کواتار کر۔۔۔اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامناہو
گا ۔تاکہ دنیا و آخرت دونوںمیں حقیقی سعادت تک رسائی حاصل کر سکیں ۔ |