کیا سعد رفیق،دانیال عزیز،خواجہ آصف،عابدشیر علی،احسن
اقبال اور شہباز شریف سمیت سوشل میڈیا پر ان کے ہمنوا اور پوری بیس کروڑ
آبادی جس میں بچے بوڑھے جوانوں سمیت سب کے سب ٹینکوں بسوں کے نیچے،بازاروں،
شہروں کو جام اور احتجاج کیا ہوا ہے کہ ہمارا لیڈرکرپٹ نہیں انہوں نے اگر22
ممالک میں جائدادیں بنائی ہے ملک کو لوٹاہے ،اداروں کوتباہ کردیا ہے لیکن
لاہور کے پانچ لاکھ آبادی اور پنڈی کے دو لاکھ آابادی کے لیے دنیا کے مہنگا
ترین قرضے لے کر میٹرو پر چھ ارب خرچ بھی تو کیے ہیں جس کا ہر ماہ پچاس
کروڑیہ غریب قوم سبسڈی کی شکل میں ادا کرتی ہے جس کی عورتیں سو روپے پر
اپنی بچو ں کی خاطرعزتیں نیلام کرتی ہے اس قوم پرٹیکس کی شکل میں مہنگائی
کا طوفان آتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیڈر ایماندار ہے انہوں نے ملک کو
سپر پاور بنایا ملک کرپشن لوٹ مار اور دہشت گردی کی وجہ سے دنیا میں بدنام
نہیں اور نا ہی ہمارے ملک کے وزیراعظم کو امریکی ایئرپورٹ پرکپڑے اتارنے
پڑے تھے بلکہ وہ تو ہم نے امریکی اور برطانوی وزیراعظم کے تلاشی لی تھی
لیکن پھر صبح اچانک میری آنکھ کھلی ، خواب سے جگا،سب کچھ پہلے کی طرح ہی
تھا کوئی احتجاج نہیں ہورہا تھا ، کوئی بازار اور دکان بند نہیں تھا بلکہ
دل ہی دل میں بہت سے ایماندار لیگی بھی خوش تھے کہ چلوں ملک میں اب تو
قانون کی بالادستی قائم ہوجائے گی ، دوسروں کو چھوڑیے جنہوں نے دس سالوں
میں لوٹ مار اور دولت بنائی انہوں نے سوشل میڈیا پر بھی احتجاج نہیں کیا
وجہ صاف ظاہر ہے کہ لوٹ مار کرنے والوں کے ساتھ لوٹ مار کھانے والا بھی
ساتھ نہیں دیتا۔
ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے ان مفاد پرست سیاست دانوں نے عام
لوگوں کی تو بات ہی کیا اکثر ہمارے دانشور اور صحافیوں کو جن میں پہلے میں
بھی شامل تھا کہ پاکستان میں تمام برائیوں کی جڑ فوج ہے وہ مارشل لاء لگاتی
ہے ،جمہو ریت کو پنپنے نہیں دیتے، الیکشن میں دھاندلی کراتے ہیں۔ سیاست
دانوں کو جی ایچ کیو سے پیدا کرتے ہیں ، غلط معلومات اور پروپیگنڈا کرتے
ہیں۔ بعد میں ہر مسئلے پر تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ بعض فوجی جنرل یا
بریگیڈائروغیرہ کی انفرادی عمل ضرور اس میں شامل رہا ہے وہ بھی ان سیاست
دانوں خاص کر شریفوں نے فوج کو سیاست میں ملوث کیا۔ فوجی جنرل جو بھی آئے
ہیں ان کے ساتھ نواز شریف، بھٹو، چوہدریوں اورمولویوں کی شکل میں حکومت
کرتے رہے ہیں اور حکمرانی کے خوب مزے بھی لیے ان کے ساتھ مل کر ملک کو لوٹا
لیکن بعد میں یہ سیاست دان کہتے رہتے ہیں کہ وہ وہ مارشل لا کا دور تھا اور
انہوں نے ملک کو ترقی کرنے نہیں دیا حالانکہ ایوب خان ، ضیا الحق اور پر
ویز مشرف نے اگر سیاست دانو ں کی بجائے فوج کے جنرلوں کے ذریعے حکومت کی
ہوتی تو آج ملک کا شاید یہ حال نہ ہوتا ۔ ہم جن کو ووٹ دیتے ہیں انہوں نے
ملک میں صحیح ڈکیٹر شپ کو بھی رہنے نہیں دیا۔جمہورہت کے تو معنی بھی ان کو
معلوم نہیں کہ جمہور ی حکومت میں فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں۔ عوامی رائے
اور عوام کے فلاح وبہبود کیلئے کام کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بعض نون لیگی یا نادان دوست اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان
فیصلوں کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے ۔سپریم کورٹ جاکر اور ان کے کیسز پر ریسرچ
کرکے میرے خیال میں ججز نے پہلے بھی اور آج بھی ان کو کم سے کم سزا دی ہے
اور ان کے ساتھ نرم رویہ رکھا ہے جو ان کے اختیار میں ہے کہ 14سال سزا دی
جائے یا کہ دس سال ، کورٹ نے دس سال سزا دی باوجود اس کے کہ انہوں نے کوئی
ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیا صرف میڈیا پر عوام کو اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے
گمراہ کیا۔
دوسرا تنقید یہ بھی ہوتا ہے کہ جنرلوں نے بہت کر پشن کی ہے ان کو عدالتیں
سزا کیوں نہیں دیتی تو جنرلوں یا دوسرے کرپٹ افراد کے کیسز حکمرانوں نے
چلانے ہوتے ہیں جن پر کرپشن کیسز موجود ہیں ، کس نے روکا ہے کہ وہ عدالتوں
میں ان کے خلاف ثبوت نہ دیں یا پیرو ی نہ کریں جنہوں نے کرپشن یا غلط کام
کیا انکے نام آج بھی ای سی ایل میں ہے کیسز عدالتوں میں ہے لیکن حکمران ان
کے خلاف عدالتوں میں نا جا کریا زرداری کی طرح کیس کو اتنا کمزور کرتے ہیں
کہ ججوں کو بری کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ عدالت ثبوتوں اور دلائل
پر فیصلے کرتے ہیں نا کہ خواہشات پر ہم سب گھر میں بیٹھ کر جنرلوں کو سزا
دینے کی دعائیں صرف کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عدالت ہوا میں فیصلہ کریں جن
پرویز مشرف پر الزام ہے کہ جن شریفوں کی حکومت کو انہوں نے ختم کیا تھا
انہوں نے ان کانام eclسے نکال کر باہر بیجھوا دیا تاکہ یہ ملک میں سیاست کر
سکے اور عوام کو ان کے نام پر بے وقوف بنا سکیں ۔
کوئی بتا سکتا ہے کہ درانی کو فوج سے کیوں نکالا تھا؟ ان کا نام ای سی ایل
میں کیوں ڈالا کیا تھا؟ جنرل اسلم بیک پر کیس کیا ہے؟ اصغرخان کیس کے فیصلے
پر عمل کس نے کرنا تھا۔چھ سات جنرل اور بھی ہے جن کو فوج نے خود سزا دی ہے
جب کہ ہر حکمران کا جس طرح حساب الگ ہے اسی طرح ہر جنرل کا بھی حساب الگ ہے
آج کی فوج نے ماضی سے کافی سبق حاصل کیا کہ ملک میں جمہوریت ہی بہتر نظام
ہے فوج کا کام حکمرانی کرنا نہیں لیکن بدقسمتی سے آج ہمارے ملک اور دنیا کی
بہترین فوج کے خلاف بعض نادان اور بعض جان بوجھ جان کر تنقید اور بدنام
کررہے ہیں۔ ملک کو عالمی سطح پر کئی چیلنجز درپیش ہے جس سے فوج نبردآزما
ہے۔
ان کو معلوم نہیں کہ عالمی سطح پر اور پڑوسی ملک بھارت ہمارے فوج کو ناکام
بنانے کیلئے کیا کیا حربے استعمال کررہے ہیں تاکہ دہشت گردی کو شکست دینے
اور ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کی سزا اس فوج کو کمزور اور بدنام کرکے دی
جائے لیکن فوج اور اس ملک سے محبت کرنے والے کم نہیں بلکہ ماضی کی طرح آج
بھی یہ سازشی عناصر ناکام ہوں گے ۔
مجھے افسوس ہوتا ہے جب فوج پر ایسی تنقید ہوتی ہے کہ سب کچھ فوج کا کیا ہوا
ہے اﷲ سے تو ہمارے سیاست دان نہیں ڈرتے جو فوج کے خلاف یا عوام کو بے وقوف
بنانے کی پروپیگنڈا کرتے ہیں لیکن وہ لوگ بھی نہیں ڈرتے جو سنی سنائی باتوں
پر یقین کرتے ہیں ۔فوج کا کوئی ایسانظام نہیں کہ وہ ہر بات کا جواب ہر
بیوقوف شخص کو دے جو منہ اور سننے میں آئے اور الزامات اور بدنام کرنے کی
مہم چلائیں یعنی فوج نے نواز شریف کو کہا تھا کہ تم کھربوں کی کرپشن کرو
اور 22ممالک میں جائدادیں بناؤ، یعنی فوج نے ان کو اقتدار ہر دفعہ دی اور
پھر کہا کہ تیس سال سے حکمران رہوں لیکن عوام کو ہسپتال ، تعلیم ،پانی
،خوراک اور مکان نہ دو اور عوام کو خودکشیوں پر مجبور کرو۔ فوج نے کہاتھا
کہ ملک کی تاریخ میں جو قرضہ لیا کیا تھا اس چھ ہزار قرضے کو زردار ی نے 13
ہزارارب اور نااہل اور کرپٹ نواز شریف نے 27ہزار ارب تک پہنچا دیا اور دنیا
کی تاریخ میں مہنگے ترین قرضے لیے گئے ہیں جس کی قسط دینے کیلئے ملک میں
پیسے نہیں اور آئے روز ٹیکسوں کی صورت میں عوام سے بجلی اور پٹرول کی شکل
میں وصول کیے جارہے ہیں جس سے مہنگائی کا طوفان آتا ہے جو غریب خودکشیوں ،
چوری ،لڑائی اور جھگڑوں کی شکل میں ادا کرتا ہے ۔افسوس یہ ہے کہ آج اگر ان
شریفوں اور زرداریوں نے عوام کا ایک مسئلہ بھی حل کیا ہوتا تو عوام ان کے
لئے سڑکوں پر ہوتی اور ان کے سب خون معاف کیے جاتے ۔ نااہلی ان حکمرانوں کی
ہے جو اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں اور عیاشی کیلئے امریکا ، برطانیہ اور دبئی
میں حرام کی جائیدادیں بناتے ہیں ایسے حکمرانوں کا نجام ایسا ہی ہوتا ہے کہ
دولت ، بچے ،شہرت کے باوجود دنیا بھر میں ذلیل اور خوار ہوتے ہیں ۔ اس میں
سب کے لئے نشانیاں ہے لیکن کوئی غور وفکر کر یں ۔فوجی اور عدلیہ نے بھی
ماضی میں غلطیاں کی ہے جس طرح ہر ادارے میں زرداری اور شریفوں کے لگائے
ہوئے افسر ز اور سربراہ ہوتے ہیں جو قانون پر عمل نہیں کرتے بلکہ ان کے
مفادات کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح جب نیب کا چیر مین ٹھیک بندہ آیا اور
سپریم کورٹ کا چیف نے بلاتفریق کارروائیوں شروع کی تو ملک تب ہی بہتر ی کی
طرف گامزن ہوا ناکہ ہم اس نیب سربراہ ،فوج یا سپریم کورٹ کے چیف پر الزامات
اور تنقید شروع کریں کہ وہ ماضی کا بھی حساب دیں۔ ماضی میں جنہوں نے غلطیاں
کی ہے اس کے ذمہ دار بھی وہ لوگ ہے ۔ہر انسان اپنے عمل کا جواب دے ہوتا
ہے۔اداروں کی آزادی اور بہتر ین جمہوریت جو عوام کو جوابدے ہو ملک کیلئے
صرف بہتر ہے۔ |