شخصیت پرستی ایک ناسور

شخصیت پرستی،ایک ناسور قوموں کی زندگی اور عروج و ارتقاء میں نظریات اور اسلاف کی عظیم روایات بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جو قومیں اپنے آفاقی نظریات اور اسلاف کی غیر معمولی خدمات کو بھلا دیتی ہیں وہ رفتارِ زمانہ کا ساتھ دینے سے قاصر نظر آتی ہیں اور زمانہ انہیں روندتا ہوا گزر جاتا ہے اور ان کا نام صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ شخصیت پرستی ایک دیمک کی طرح ہے جو ملک و قوم کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک جغرافیائی طور پر بھی عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔ شخصیت پرستی ایک نشہ کی طرح ہے اور اس کا شکار اپنی عقل و شعور اور فہم و فراست سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔اس کے ذہن و قلب پر اس شخصیت کا سحر طاری ہوجاتا ہے اور اس کی خودی اور فیصلہ کرنے کی صلاحیتیں بروئے کار نہ لانے کی وجہ سے زنگ آلود ہو جاتی ہیں۔ شخصیت پرستی انسان کو دین و دنیا دونوں کے فوائد سے بیگانہ کر دیتی ہے اور وہ اپنے فائدے اور نقصان سے ناآشنا نظر آتا ہے۔ شخصیت پرست انسان کی زندگی کا محور و مرکز اس کی پسندیدہ شخصیات ہو جاتی ہیں۔ وہ شخصیات چاہے مذہبی ہوں یا سیاسی وہ زندگی کے ہر شعبے میں ان کا پیروکار نظر آتا ہے۔ اپنی من پسند شخصیات کے خلاف کسی بھی قسم کی بات خواہ وہ سچ ہی کیوں نہ ہوں سننا پسند نہیں کرتا اور ان کی محبت میں وہ کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے۔ شخصیت پرست شخص فہم و ادراک سے محروم ہو جاتا ہے۔اس کے من میں سوالات جنم نہیں لیتے جستجو اور تجسس بتدریج ختم ہو جاتا ہے۔ ان صلاحیتوں کی عدم موجودگی سے معاشرہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ شخصیت پرستی انسان کو عقل کا اندھا بنا دیتی ہے۔اور وہ شخصیات کو بے عیب اور لا ریب سمجھ کر ان کی پرستش شروع کر دیتا ہے۔ شخصیت پرستی بت پرستی سے زیادہ مہلک ہے اور انسان کی دینی اور سماجی فکروں کو تباہ کردیتی ہے۔ شخصیت پرستی ایک ناسور کی مانند ہے جو قوموں کے پورے جسم کو عضو معطل بنا دیتی ہے۔ آج شخصیت پرستی ہمارے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ اب سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست ،مذھب اور صحافت میں شخصیت پرستی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ مذہب کے نام پر ہم خالص اسلامی تعلیمات کی بجائے اپنی اپنی پسندیدہ شخصیات کی چکنی چپڑی باتوں کے اسیر ہو چکے ہیں اور قرآن و حدیث کے مقابلے میں ان کی من گھڑت باتوں کو دلیل کے طور پر پیش کرنے کی گھٹیا کوشش کرتے ہیں۔ آج کوئی خدائی صفات کا حامل ہونے کا دعویٰ کرے یا خود کو نعوذباللہ نبی بنا کر ظاہر کرے ہم عقل و خرد سے عاری اندھی تقلید کرتے چلے جا رہے ہیں۔اور اپنے مستقبل اور اس عمل کی سنگینی سے بے فکر ہو چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی اولاد سے زیادہ اہمیت اپنے ننگ ملت ننگ دین نام نہاد لیڈروں کو دیتے ہیں وہ اپنے خاندان اور مذہب پر تو تنقید برداشت کر سکتے ہیں مگر اپنی من پسند شخصیات کی شان میں ادنی سی گستاخی بھی ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی ہے سیاست میں شخصیت جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں کی نام نہاد جمہوری جماتوں کی بنیاد شخصیت پرستی پر ہی کھڑی ہے اگر شخصیات کو جماعت سے نکال دیں تو جماعت ختم ہو جاتی ہے اور چونکہ یہ بات جماعت کے سربراہوں کے مفاد میں ہے اس لیے جماعتوں میں وہ سیاسی کلچر کو فروغ نہیں دیتے اور یہی وجہ ہے یہ پاکستان پر نسل در نسل حکومت کرتے ہیں اور عوام کو باشعور کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کے سندھ کی عوام ذولفقار بھٹو اور آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ بینظیر بھٹو کی قبر کو سجدے کرتی ہے اور منّتیں مانتی ہے۔ شخصیتوں کے دباﺅ میں رہنے والی جمہوریت کبھی ملک اور قوم کیلئے بار آور نہیں ہوسکتی۔ اب جمہوریت کا یہ ڈھونگ، ڈرامہ اور تماشہ اپنے انجام کو پہنچ جانا چاہیئے اور حقیقی عوامی اور اُصولی جمہوریت کا آغاز ہونا چاہیے ۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کے شعور کا راستہ باشعور لوگوں نے روک رکھا ہےجماعت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی بے نظیر بھٹو اور پھر بلاول بھٹو اور شاید انکی اولادوں کو بھی ذہنی طور پر حکمران تسلیم کرتے ہیں۔ شخصیت پرستی ذہنی غلامی کی ہی ایک قسم ہے جس میں انسان کسی نظریہ،جما عت یا شخصیت سے اس حد تک متاثر ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے افکار و نظریات اور تعلیمات و ترجیحات کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھے بغیر قابلِ تقلید سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ شخصیت پرست اور جماعت پرست انسان دنیا و آخرت دونوں میں ذلت ورسوائی کا مستحق ٹھرتا ہے حقیقت پسندی کی روش برقرار رکھ کر ہی ہم حق کے راستے پر بھی گامزن رہ سکتے ہیں لیکن جیسے ہی ہم نے اپنی ترجیحات کو غلط سمت دی ہم صحیح اور غلط کی پہچان کھو دیں گے اور ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بن جائے گی۔ عزیز جان پاکستانی قوم! خدارا! شخصیت پرستی کی لعنت سے نکلیں آپ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنا کوئی اور آپ بھی کلمہ گو ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہے،آپ کے لیئے بھی وہی احکامات اور تعلیمات ہی اسلام کی آپ کےلیے بھی وہی حقوق و فرائض ہیں پاکستان کے جو کسی اور کے لیئے ہیں لہٰذا شخصیات کو پرے دھکیل دیں اور صحیح سوچ اور صحیح فکر لے کر اللہ کی نصرت کی امید لے کر خدائے واحد و یکتا کے دین کی سر بلندی اور عالم اسلام کی تعمیر وترقی کے لیے اپنا کردار ادا کیجئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے سماج میں شخصیت پرستی کو ختم کر کے اپنے بچوں کو اپنے ذہن سے سوچنے کی آزادی فراہم کریں تاکہ وہ اپنے صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرسکیں اور ہم فکری جمود سے نجات پا کر ترقی یافتہ اقوام کی برابری کر سکیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کچھ عرصے میں آپ اپنے ضمیر کو مطمئن پائیں گے اور یہی اصل کامیابی ہے اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو بقلم محمد ابو سفیان اعوان

Muhammad Abu Sufyan Awan
About the Author: Muhammad Abu Sufyan Awan Read More Articles by Muhammad Abu Sufyan Awan: 19 Articles with 30184 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.