تحریر: حامد حسن حامی، بہاولپور
تبدیلی کا مطلب کیا؟؟ سوال ہوتا ہے کہ ملک میں تبدیلی کیسے لائی جائے تو اس
کا جواب آج کل تو صرف ’’ووٹ‘‘ ہی بنا ہوا ہے لیکن میرا نہیں خیال کہ ووٹ
ملک میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ ووٹ سے حکومت کی تبدیلی ممکن ہے ملک کی
نہیں۔ سیاست پر گفتگو سے مکمل احتراز کرتے ہوئے میں صرف اتنا کہوں گا کہ
1947ء کے پاکستان اور آج کے پاکستان میں بہت تبدیلی آ چکی ہے اور اس تبدیلی
کا ذمہ دار صرف سیاست کو ٹھہرانا کسی طور جائز نہیں۔ بہت سی چیزیں ہیں جو
تبدیلی کا باعث بنتی ہیں اور یہ تبدیلی مثبت بھی ہوتی ہے اور منفی بھی۔
پہلے وقت کے لوگ سادہ اور مخلص تھے، ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ ایک
احترام تھا، مروت تھی اور محبت تھی جبکہ آج ان چیزوں کا وجود ہی ناپید ہے۔
ہماری تربیت سے ہی ان کا فقدان ہے۔ محبت، خلوص اور احساس وہ اجناس ہیں کہ
سونے کے بھاؤ میں بھی نہیں ملتیں کیونکہ آج کوئی بھی اپنے بچوں کو محبت،
خلوص، احترام یا احساس کی تربیت ہی نہیں دیتا۔ بچے بچپن سے ہی منافقت کا
سبق، طاقت کا استعمال اور درد دینا سیکھتے ہیں۔ من حیث القوم ہم منفی رویے
کے حامل ہو چکے ہیں۔ نہ صرف ہمارے اعمال بلکہ ہماری سوچ تک منفی ہو چکی ہے۔
ہم کسی بھی تحریک، تحریر، تقریر یا مہم میں پہلے منفی پہلوؤں پر نظر ڈالنے
کے عادی ہو گئے ہیں۔ جب تک ہم منفی بحث اور پروپیگنڈہ سے سیر نہیں ہوتے
ہمیں کچھ اور سوجھتا ہی نہیں۔
کسی نے اپنا کاروبار شروع کیا، کسی کی شادی ہوئی، کسی نے کوئی ڈگری لی،
حکومت یا حزب اختلاف نے کوئی منصوبہ پیش کیا۔ ہمارا کوئی تعلق نہ ہونے کے
باوجود ہم پہلے اس میں کیڑے نکالتے ہیں، اس کے ہر ہر پہلو کے منفی اثرات کا
جائزہ لیتے ہیں۔ جب خوب تھک جاتے ہیں تب اس موضوع کی جان چھوٹتی ہے۔ میرے
ایک بزرگ دوست ہیں شبّن میاں۔ وہ کہا کرتے ہیں، ’’یہ جو کہا جاتا ہے نا کہ
تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں، وہ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک طرف تصویر ہوتی ہے اور
دوسری طرف سفید کاغذ۔۔۔ لیکن جو معاملات ہیں تو ان میں ایک طرف معاملات
ہوتے ہیں تو دوسری طرف سیاہ کاغذ اور ہم لوگوں کو سیاہی پہلے نظر آتی ہے
اور سیاہی کو دیکھنے کے بعد ہم روشن رخ دیکھتے ہی نہیں‘‘۔ اب اگر اس سوال
کا جواب میں دینا چاہوں تو مجھے شبّن میاں کی بات کی روشنی میں ایک چیز جو
تبدیلی کی متقاضی نظر آتی ہے وہ ہے ہمارا نقطہ نظر یا دوسرے الفاظ میں
ہماری سوچ۔ ہم اگر اپنی سوچ کو مثبت رہ گزر کا راہی بنائیں تو اس کے مابعد
اثرات بہت دور تک جاتے ہیں۔ لیکن ایسا ممکن کیسے ہو؟
ایک جاہل انسان کبھی مثبت نہیں سوچ سکتا۔ علم وہ روشنی ہے جو اندھیروں اور
تاریکیوں کو تاراج کرتی ہے۔ سوچ کو روشنی کا حامل بنانے کا ایک ذریعہ! لیکن
اس سے پہلے بھی کچھ ہے جس کا ہماری زندگی پر اثر ہوتا ہے۔ ہمارا عقیدہ۔
یہاں عقیدے سے مراد خدا و رسول والا عقیدہ نہیں ہے بلکہ وہ عقیدہ ہے جو ہم
اپنے لیے بنا لیتے ہیں۔ جس کی روشنی میں ہمارے روز مرہ کا رویہ نمو پاتا ہے
اور شخصیت کا ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ اس میں ہمارا اٹھنا بیٹھنا، بولنا
ہنسنا، کھانا پینا، دوسروں کے ساتھ رویہ اور نہ جانے کتنے اجزاء ہیں جو
ایسے تکمیل پاتے ہیں کہ ہمیں بھی احساس نہیں ہوتا۔ اس ’’بن چکی‘‘ شخصیت کو
بلاشبہ یکلخت تبدیل نہیں کیا جا سکتا بلکہ شخصیت کے چند ہی پہلو ایسے ہیں
کہ جن کو تبدیل کیا جا سکتا ہے اور ان میں سب سے بڑا جس سے ہم مکمل طور پر
بدل سکتے ہیں وہ ہے اخلاق کا۔ شبّن میاں کہتے ہیں کہ آدمی جاہل ہو چل جاتا
ہے، گنوار ہو یا کم عقل ہو چل جاتا ہے لیکن اگر بدتمیز ہو تو دنیا برا کہا
کرتی ہے۔ تو اگر ہم اپنے اندر صرف میٹھا بول پیدا کر لیں تو کیا جھگڑا شروع
ہو سکتا ہے کیا؟
دوسری چیز کہ جس کا انفرادی اثر انفرادی نہیں رہتا وہ ہے احساس۔۔ دوسرے کا
احساس۔ ’’تم اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے بھی
وہی پسند نہ کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔۔۔!‘‘ اس حدیث کے مطابق جب مزاج
بن جائے تو انسان دوسروں کے متعلق برا نہیں سوچ سکتا۔ دوسرے الفاظ میں جو
چیز آپ اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں اگر وہ اپنے حوالے سے سوچیں تو احساس پیدا
ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یعنی کوئی ایک عمل جو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے
سامنے یا آپ کے لیے نہ کیا جائے کیونکہ وہ آپ کو پسند نہیں تو یہی سوچیں کہ
وہ عمل دوسروں کو کیسے پسند آ سکتا ہے۔۔۔!! ایک چھوٹی سی مثال سے وضاحت
کرتا چلوں۔۔۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا ہمسایہ گلی میں موٹرسائیکل کھڑی کر کے
گلی بند کر دیتا ہے تو کیا آپ کی گاڑی گلی کو بند نہیں کرتی ہو گی۔۔؟
تیسری چیز جو تبدیلی لا سکتی ہے وہ ہے محبت۔۔۔! آپ کو اپنے آپ سے اور اپنے
گھر والوں سے محبت ہونی چاہیے۔ آپ کی ساری محنت اور کمائی کا محور آپ کی
اپنی ذات ہوتی ہے یا آپ کے گھر کے لیے۔ اپنا سارا وقت اپنی ساری قوت آپ اسی
ایک چیز پر صرف کرتے ہی کہ اپنی اور اپنوں کی زندگی آسان سے آسان تر بنائی
جائے۔ جو مقاصد آپ ان کے لیے سوچتے ہیں ان کو پورا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی
کا زور بھی لگاتے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے سوچ وسعت اختیار کرتی ہے اگر
پہلی دو چیزیں بھی شامل حال ہوں تو۔
دو اور چیزیں جو بنیادی حیثیت رکھتی ہیں وہ ہیں برداشت اور درگزر۔۔۔۔! اگر
آپ میں برداشت نہیں تو آپ اخلاق جیسے زیور سے بے بہرہ ہی رہیں گے اور اگر
آپ دوسروں کی غلطیاں معاف نہیں کر سکتے تو احساس اور محبت دونوں بے فائدہ
چیزیں ہیں۔ان 4چیزوں سے ہمارے کردار کے مثبت ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہ
جاتی اور پھر سوچ کے مثبت ہونے میں دیر ہی نہیں لگے گی۔ یہی وہ عوامل ہیں
جو پہلے انفرادی تبدیلی اور پھر معاشرتی یا قومی اصلاح کا باعث بنتے ہیں۔
اگر ہم اپنے کردار اور اپنی سوچ میں مخلص ہو گئے تو ملک میں مثبت تبدیلی
لانا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہو گا، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی نسلوں کو
کیا دے کر جائیں گے۔ اس ملک کو مخلص لوگوں کی ہی ضرورت ہے نا کہ چوروں،
اچکوں یا مفاد گیروں کی۔ آئیں اس ملک کو خلوص کے نذرانے دے کر اپنے مثبت
کردار سے سیراب کریں۔۔ وقت لگ سکتا ہے لیکن عروج ناممکن نہیں۔
|