حضرت زینب عالیہ سلام اللہ علیہا کا یزید کے دربار میں خطاب

بحوالہ کتاب ''کاروان شھادت'' صفحہ نمبر 441 تالیف علامہ محمد علی فاضل
(بحار الانوار ٤٥ ص:١٣٣ اور احتجاج طبرسی:٢ ص:١٢٢ میں قدرے مختلف عبارتوں کے ساتھ ہے)
عقیلہ بنی ہاشم، عالمہ غیر معلمہ، فصاحت و بلاغتِ امیر المومنین علی بن ابی طالب کی ورثہ دار، شریکۃ الحسین(ع)، ثانی زہرا، زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے جب یزید کی اس حد تک جسارت اور بے باکی کو دیکھا اور ساتھ ہی دربار کی فضا کو بہت ہی مناسب ملاحظہ کیا تو جلال میں آگئیں اور علی(ع) کی شیر دل بیٹی نے کھڑے ہو کر ایک ایسا تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس سے دربار کے درو دیوار ہل گئے۔ اور دربار میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ ملاحظہ فرمائیے اس خطبے سے اقتباس شدہ چند جملے:
رسول زادی نے اللہ رب العالمین کی حمد و ثنا اور رسول(ص)اور آل رسول(ص)پر درود و سلام بھیجنے کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ:
((ثُمَّ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ اَسَآءُ واالسُّوْۤءِ ی اَنْ کَذَّبُوْا بِاٰیَاتِ اللّٰہِ وَکَانُوابِہَا یَسْتَہْزِءُ وْنَ)) پھر جنہوں نے برا کیا ان کا انجام بھی برا ہوا۔ کیونکہ انہوں نے اللہ کی نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ (روم:١٠)
((اَظَنَنْتُ یَا یَزِیْدُ حَیْثُ اَخَذْتَ عَلَیْنَا اَقْطَارَ الْاَرْضِ وَآفَاقَ السَّمَآءِ فَاَصْبَحْنَا نُسَاقُ کَمَا تُسَاقُ الْاُسَاریٰ، اِنَّ بِنَا عَلَی اللّٰہِ ہَوَاناً وَّبِکَ عَلَیْہِ کَرَامَۃً۔ وَاِنَّ ذَالِکَ لِعَظَمِ خَطَرَکَ عِنْدَہ، فَشَمِختَ بِاَنْفِکَ وَ نَظَرْتَ فِیْ عَطْفِکَ جَذْلَانَ مَسْرُوْرًا۔ حَیْثُ رَأَیْتُ الدُّنْیَا لَکَ مُسْتَوْثِقَۃً وَالْاُمُوْرَ مُتَّسِقَۃً وَّحِیْنَ صَفَالَکَ مُلْکُنَا وَسُلْطَانُنَا۔))
او یزید! اب جبکہ تو اپنے گمان کے مطابق ہمارے اوپر سختی کئے ہوئے ہے اور زمین و آسمان کے راستوں کو ہم پر بند کیا ہوا ہے اور نہ ہمارے لیے کوئی راہ چارہ چھوڑی ہے اور ہمیں قیدیوں کی مانند پھرا رہا ہے۔ اس سے تو نے یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا نے تجھے عزت دی ہے اور ہمیں ذلیل کیا؟ اور تمہیں کامیابی عطا کی ہے اور یہ کامیابی اس لیے ہے کہ تو خدا کے نزدیک بڑا با آبرو ہے؟ جس کی بنا پر تو تکبر کر رہا ہے اور اکڑ کر چل رہا ہے اور ادھر ادھر تکبر اور خود پسندی کی وجہ سے دیکھ رہا ہے؟ اور تو غرور کر رہا ہے کہ دنیا نے تیری طرف رخ کر لیا ہے؟ اور اس نے تمہارے کاموں کو سنوار دیا ہے اور ہماری حکومت کو تمہارے ساتھ مختص کر دیا ہے؟
((فَمَہْلاً مَّہْلًا! اَنَسِیْتَ قَوْلَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ: وَلَایَحْسَبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ خَیْرٌ لِاَ نْفُسِہِمْ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُوْا اِثْمًا وَّلَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْن))
(سورہ آل عمران: ١٧٨)
یزید! ذرا آہستہ، ٹھہر ٹھہر کر، کیا تو نے خدا وند تعالیٰ کا یہ قول فراموش کر دیا ہے جو اس نے فرمایا ہے کہ جو لوگ کافر ہوگئے ہیں انہیں یہ گمان نہیں کرنا چاہیے ہم نے انہیں جو ڈھیل دی ہے وہ ان کے لیے بہتر ہے؟ ہم نے انہیں اس لیے ڈھیل دی ہے تاکہ ان کا امتحان لیں اور وہ اپنے گناہوں میں مزید اضافہ کریں اور ان کے لیے توبہ کی گنجائش باقی نہ رہے اور ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔
''أَمِنَ الْعَدْلِ یَابْنَ الطُّلَقَآءِ تَخْدِیْرُکَ حَرَآئِرَکَ وَاِمَآئُکَ وَسَوْقُکَ بَنَاتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِ وَسَلَّمَ سَبَایَا قَدْ ہَتَکْتَ سُتُوْرَہُنَّ وَاَبْدَےْتَ وُجُوْہَہُنَّ ،تَحْدُوْبِھِنَّ الْاَعْدَآءُ مِن بَّلَدٍ اِلٰی بَلَدٍ، یَسْتَشْرِفُھُنَّ اَہْلُ الْمَنَاہِلِ وَالْمَنَاقِلِ ،وَےَتَسَفَّحُ وُجُوْہَہُنَّ الْقَرِیْبُ وَالْبَعِیْدُ وَالدَّنِیُّ وَالشَّرِیْفُ''
اے ہمارے نانا کے آزادکردہ غلاموں کے بیٹے ! کیا یہی انصاف ہے کہ تو اپنی عورتوں اور کنیزوں کو تو پردے میں بٹھائے رکھے لیکن رسول کی پردہ داروں کو قید کرکے شہر بہ شہر پھرائے ؟ان کی ہتک حرمت کرے اور ان کے چہرے سے پردے ہٹا دے تاکہ لوگوں کی نگاہیں ان چہروں پر پڑیں ،اور نزدیک و دور کے اور شریف اورکمینے ہر قسم کے لوگ ان کو دیکھیں ،جبکہ ان کے ساتھ ان کے مرد بھی نہ ہوں ، نہ کوئی مدد کرنے والا اور نہ حفاظت کرنے والا۔
''وَکَیْفَ یُرْتَجیٰ مُرَاقَبَۃَ مَن لَّفَظَ فُوہُ اَکْبَادِ الْاَزْکِیَآءِ وَنَبَتَ لَحْمُہ، مِنْ دِمَآءِ الشُّہَدَآءِ ،وَکَیْفَ لَایُسْتَبْطَأُ فِی بُغْضِنَا اَہْلِ الْبَیتِ مَن نَّظَرَ اِلَیْنَا بِالشَّنَفِ وَالشَّنَآنِ وَالْاَحَنِ وَالْاَضْغَانِ، ثُمَّ تَقُوْلُ غَےْرَ مُتَأَثِّمَ وَلَامُسْتَعْظِمٍ ''لَاہَلُّوْا وَاسْتَہَلُّوْافَرَحاً،ثُمَّ قَالُوْا یَایَزِیْدُ لَاتَشَلْ'' مُنْتَحِےًا عَلٰی ثَنَایَا اَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ سَیِّدِ شَبَابِ ا؟ہْلِ الْجَنَّۃِ ،تَنْکُتُھَابِمِخْصَرَتِکَ وَکَیْفَ لَاتَقُوْلُ ذَالِکَ وَقَدْ نَکَأْتَ الْقَرْحَۃَ وَاسْتَأْصَلَتَ الشَّافَۃَ بِاِرَاقَتِکَ دِمَآءَ ذُرِّیَّۃِ مُحَمَّدٍ (ص)وَنُجُوْمِ الْاَرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،وَتَھْتِفُ بِاَشْیَاخِکَ زَعَمْتَ اَنَّکَ تُنَادِیْہِمْ فَلَتَرِدَنَّ وَشِیکًامَوْرِدَہُمْ وَلَتَوُدَّنَّ اَنَّکَ شَلَلْتَ وَ بَکَمْت وَلَمْ تَکُنْ قُلْتَ مَاقُلْتَ وَفَعَلْتَ مَافَعَلْتَ۔
ہمدردی اور دلسوزی کی امید اس شخص سے کیونکر وابستہ کی جا سکتی ہے ،جس کی ماں نے پاکپاز لوگوں کا کلیجہ چبایا ہو اور جس کا گوشت شہیدوں کے گوشت سے اگا ہو!!اور اس قسم کا سلوک اس شخص سے قطعاً دور نہیں جوہمیں دشمنی کی نگاہوں سے دیکھتاہو ، یزید! اس قدر عظیم گناہ کو گناہ ہی شمار نہیں کرتا اور خود کو اس قبیح کارنامے اور ناپسندیدہ کردار پر غلط کار نہیں سمجھتا ،بلکہ اپنے کافر بزرگوں پر فخرو مباہات اور ان کے یہاں پر موجود ہونے کی تمنا کرتا ہے کہ تیرے بے رحمانہ قتل و غارت اور کرتوتوں کو اپنی آنکھوں سے آکر دیکھیں اور خوش ہوں اور تیرا شکریہ ادا کریں ۔
اے یزید!تو جوانانِ جنت کے سردار اباعبد اللہ الحسین کے ہونٹوں پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کررہا ہے ،ایسا کیوں نہ کرے اور کیوں نہ کہے؟کیونکہ تو نے ہمارے زخموں کو ناسور میں بدل دیا ہے ، اور محمد مصطفیٰ(ص) کی ذریت اور آلِ عبد المطلب میں سے روئے زمین کے جو روشن ستارے ہیں ان کا خون بہاکر تو نے انہیں بیخ و بُن سے اکھاڑ دینے کی کوشش کی ہے اور اب اپنے گمان کے مطابق اپنے بزرگوں کو پکار رہا ہے کہ وہ جواب دیں ،تھوڑا صبر کرلو زیادہ دیر نہیں گزرے گی کہ تو خود ان کے ساتھ جا ملے گا ،پھر تو اس بات کی آرزو کرے گا کہ اے کاش تیرے ہاتھ شل ہوتے اور تیری زبان گنگ ہوتی !!اور یہ باتیں زبان پر نہ لاتا اور نہ ہی ایسے ایسے کرتوتوں کا ارتکاب کرتا !!۔۔۔۔۔۔
غرض علی ؑکی بیٹی کا ایک ایک حرف یزید کے دل پر بجلی بن کر گررہا تھا اب اس میں بات کرنے کی جرأت نہیں رہی تھی کہ سید زادی نے اپنے خطبے کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے مزید رسوا کرنے کے لئے فرمایا:
''وَلَئِنْ جَرَتْ عَلَیَّ الدَّوَاہِیَ مُخَا طَبَتَکَ اَنِّیْ لَاَسْتَصْغِرُ کَ وَاسْتَعْظِمُ تَقْرِیْعَکَ وَاسْتَکْثِرُ تَوْبِیْخَکَ ،وَلٰکِنَّ الْعُیُوْنَ عَبْریٰ وَالصُّدُوْرَ حرّیٰ اَلَافَالْعَجَبَ ' کُلَّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللّٰہِ النُّجَبَآءِ بِحِزْبِ الشَّیْطَانَ الطُّلَقَآءِ ، فَھٰذِہِ الْاَیْدِیْ تَنْطِفُ مِنْ دِمَآئِنَا،وَالْاَفَوَاہُ تَتَحَلَّبُ مِن لُّحُومِنَا، وَتِلْکَ الْجُثَثُ الطَّوَاہِرُ وَالزَّوَاکِیْ تَنْتَابُھَا الْعَوَاسِلُ وَتَعْفِرُہَا اُمَّھَاتُ الْفَرَاعِل''
یہ زمانے کی ستم ظریفی ہے اور مصائب زمانہ نے مجھے مجبور کردیا ہے کہ مجھے ، تیرے جیسے (خبیث)شخص سے ہمکلام ہونا پڑرہا ہے ، لیکن یاد رکھ کہ میں تجھے ذرہ بھر بھی اہمیت نہیں دیتی ، البتہ تیرے مصائب و مظالم کو بہت زیادہ سمجھتی ہوں اور تیری سخت سے سخت ترین مذمت کرتی ہوں ، ہائے کیا ، کیا جائے !!آنکھیں ہیں کہ آنسوؤں کے سیلاب بہا رہی ہیں اور دل ہیں کہ جلے جا رہے ہیں کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اللہ کا برگزیدہ گروہ ، آزاد کردہ غلاموں کی اولاد کے شیطانی گروہ کے ہاتھوں قتل کردیا جائے !! ہمارے خون کا ایک ایک قطرہ تمہارے ہاتھوں سے ٹپک رہا ہے اور ہمارے بدن کے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا تمہارے منہ سے گر رہا ہے ،ادھر ان پاک و پاکیزہ اور مطہر اجسام پر سے صحرا کے درندے گزر رہے ہیں اور بیابان کے ٹیلوں کی رےت اور مٹی اڑاڑ کر ان کو ڈھانپ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔
علی ؑ کی شیر دل بیٹی اپنی قلبی اور ذہنی حریت اور آزادی کا بھرے دربار میں اعلان کرتے ہوئے مسند اقتدار پر بیٹھے دشمن کو چیلنج کرکے کہتی ہیں :
''فَکِدْ کَیْدَکَ وَسِعْ سَعْیَکَ وَنَاصِبْ جُھْدَکَ فَوَاللّٰہِ لَاتَمْحُوْا ذِکْرَنَا ،وَلَاتُمِیْتُ وَحْیَنَا، وَلَا تُورِکَ اَمَدَنَا وَلَاتَرْحَضُ عَنْکَ عَارَہَا ''
یزید !تم جو چالیں چل سکتے ہو چلو ، جو کوششیں کرسکتے ہو کرلو، لیکن خدا کی قسم نہ تو تم ہمارے ذکر کو کبھی مٹا سکو گے ،اور نہ ہی ہماری یاد کو دلوں سے محو کر سکو گے ، نہ تو کبھی ہمارے جاہ و جلال تک تمہاری رسائی ہو سکتی ہے اور نہ تم اپنے دامن سے ظلم و ستم کے داغ دھبے دھو سکتے ہو ۔۔۔۔۔۔
بطلِ حریت کی صاحبزادی اور فاتح کربلا کی فاتحہ کوفہ و شام بہن نے دشمن کے وجود پر ایک اور کاری اور آخری ضرب لگائی اور اسے ہمیشہ کے لئے بے چارہ کر کے رکھ دیا ،فرماتی ہیں :
''وَہَلْ رَأْیُکَ اِلَّافَنَدٌ وَاَیَّامُکَ اِلَّاعَدَدٌ وَجَمْعُکَ اِلَّابَدَدٌ، یَوْمَ یُنَادِی الْمُنَادِ ''اَلَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ''
تیرا نکتہ نظر بے اعتبار اور ناپائیدار! تیری حکومت کا دورانیہ گنتی کے چند دن اور تیری مجتمع ٹولی کا انجام انتشار وافتراق ہے ،جس دن منادی ندا دے گا کہ ''اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر''
آخر میں سیدہ معظمہ ،علی ؑ کی علی ؑ بیٹی نے جس طرح خطبے کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور حضرات محمد(ص) و آل محمد(ص)پر درور و سلام سے کیا تھا اسی طرح اس کا اختتام بھی حمد وثنا ئے پروردگار پر اس طرح کیا کہ جس میں اس کی طرف سے اپنے اوپر نعمتوں اور احسانات کا تذکرہ کر کے عملی طور پر یزید کو بتلا دیا کہ تو اس قدر آسائشوں کے باوجود اپنے رب کو بھول چکا ہے، اور ہم مصائب و آلام کا شکار ہونے کے باوجود اس کی حمد اور اس کے لئے شکر بجالا رہے ہیں ،شہزادی کونین فرماتی ہیں :
''وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الَّذِیْ خَتَمَ لِاَوَّلِنَا بِالسَّعَادَۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ ،وَلِآخِرِنَا بِالشَّہَادَۃِ وَالرَّحْمَۃِ ،وَنَسْأَلُ اللّٰہَ اَنْ یُّکْمِلَ اَہَمَّ الثَّوَابِ وَیُوْجِبَ اَہَمَّ الْمَزِیْدِ وَیَحْسِنَ عَلَیْنَا الْخِلَافَۃِ اِنَّہ، رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ وَّنِعْمَ الْوَکِیْلُ''
اور تمام تعریفیں ہیں اس اللہ رب العالمین کے لئے جس نے ہمارے پہلے کو تو سعادت اور مغفرت سے نوازا ہے اور آخری کو شہادت اور رحمت سے، میری اپنے خدا سے یہی دعا ہے کہ انہیں اجر جزیل عنایت کرے اور ان کی جزا میں مزید اضافہ فرمائے ،وہ خود ہمارے لئے بہترین اور سب سے بڑا مہربان ہے وہی ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین کارساز ہے''
یزید کا رد عمل :
اب یزید بوکھلا چکا تھا ،اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کیا جائے ،اس کے پاس اب بات کرنے کے لئے کوئی دلیل اور منطق نہیں تھی ،صرف وہی ظالم اور جابر حکمرانوں والا پرانا حربہ ،قتل کی دھمکیوں پر اتر آیا ۔
درباریوں کی طرف منہ کر کے کہا:
''کیا خیال ہے ان قیدیوں کو قتل نہ کردیا جائے ؟''ایک ملعون درباری نے خوشامدانہ لہجے میں کہا ''ضرور انہیں موت کا مزہ چکھایا جائے !!''
مگر ایسی جگہوں پر کچھ منصف مزاج لوگ بھی ہوتے ہیں چنانچہ ،قمقام زخار ص ٥٦٥میںہے :انصار میں سے ایک شخص نعمان بن بشیر جس کے والد بشیر بن سعد رسول خدا ؐ کے صحابی تھے ،خود نعمان ،معاویہ کے دورِ حکومت میں کوفہ کا گورنر تھا ٦٥ ھ میں اسے حمص میں قتل کردیا گیا۔
فوراً بول اٹھا :
''دیکھو یزید!اگر اس وقت یہاں پر رسول خدا(ص) ہوتے تو وہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ،تو جو سلوک ان کا ہوتا تم بھی وہی کرو''
MUHAMMAD MAHDI FAZIL
About the Author: MUHAMMAD MAHDI FAZIL Read More Articles by MUHAMMAD MAHDI FAZIL: 3 Articles with 3710 views I am agry to meet all World... View More