سوانح حیات حضرت امام زین العابدین علیہ السلام-حصہ دوم

حدود شام کا ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ ؑکے ہاتھوں میں ہتھکڑی، پیروں میں بیڑی اور گلے میں خاردار طوق آہنی پڑا ہوا تھا ،اس پر مستزاد یہ کہ لوگ آپ ؑ پر کو ڑے برسا رہے تھے اسی لیے آپ ؑنے بعد واقعہ کربلا ایک سوال کے جواب میں ”الشام الشام الشام“ فرمایا تھا۔شام پہنچنے کے کئی گھنٹوں یا دنوں کے بعد آپ ؑآل محمدؑکو لیے ہوئے سرہائے شہدا سمیت داخل دربار ہوئے پھر قید خانہ میں بند کردئیے گئے، تقریباً ایک سال قید کی مشقتیں جھیلیں۔ قیدخانہ بھی ایسا تھا کہ جس میں تمازت آفتابی کی وجہ سے ان لوگوں کے چہروں کی کھالیں متغیر ہوگئی تھیں (لہوف) مدت قید کے بعد آپؑ سب کو لیے ہوئے 20 صفر 62 ھ کو کربلا وارد ہوئے ۔آپ ؑکے ہمراہ حضرت امام عالی مقام حسین بن علی ابن ابی طالب ؑ کا سر مبارک بھی تھا ،آپ ؑنے اسے اپنے پدر بزرگوار کے جسم مبارک سے ملحق کیا۔

8 ربیع الاول62 ھ کو آپؑ آل محمد ﷺکا لٹا ہوا قافلہ لے کر مدینہ منورہ پہنچے ،وہاں کے لوگوں نے آہ وزاری اور کمال رنج وغم سے آپ ؑکا استقبال کیا۔15 شبانہ وروز نوحہ وماتم ہوتا رہا ۔تفصیلی واقعات کے لئے کتب مقاتل وسیر ملاحظہ کی جائیں۔ اس عظیم واقعہ کا اثر یہ ہوا کہ اہل مدینہ یزید کی بیعت سے علیحدہ ہوکر باغی ہوگئے بالآخر واقعہ حرہ کی نوبت آگئی۔

حضرت امام زین العابدین ؑکے دربار زیاد و یزید میں خطبات
کتاب لہوف ص86 میں ہے کہ کوفہ پہنچنے کے بعد امام زین العابدین ؑنے لوگوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا،سب خاموش ہوگئے، آپ کھڑے ہوئے خدا کی حمدوثناء کی ، اپنے جد امجد حضرت محمد ﷺ کا ذکر کیا، ان پر صلوات بھیجی پھر ارشاد فرمایا”اے لوگوں! جو مجھے جانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے جو نہیں جانتا اسے میں بتاتا ہوں میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ؑہوں ۔میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کا سامان لوٹا گیا جس کے اہل وعیال قید کردئیے گئے۔ میں اس کافرزندہوں جوساحل فرات پر پس گردن ذبح کردیاگیااوربغیرکفن ودفن چھوڑدیاگیا۔شہادت حسین ؑہمارے فخرکےلئے کافی ہے۔

اے لوگوں! تمہارابراہوکہ تم نے اپنے لیے ہلاکت کاسامان مہیاکرلیا، تمہاری رائیں کس قدربری ہیں ِتم کن آنکھوں سے رسول اللہ ﷺ کودیکھوگے جب محبوب خداﷺ تم سے بازپرس کریں گے کہ تم لوگوں نے میری عترت کوقتل کیااورمیرے اہل حرم کوذلیل کیا ”اس لیے تم میری امت میں نہیں“۔

جب حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اہل حرم سمیت درباریزیدمیں داخل کئے گئے اور ان کومنبرپرجانے کاموقع ملاتوآپ ؑ منبرپرتشریف لے گئے اورانبیاءکی طرح شیریں زبان میں نہایت فصاحت وبلاغت کے ساتھ خطبہ ارشادفرمایا ”

اے لوگو! سنو، میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ؑہوں، میں پسرزمزم وصفا، فاطمہ زہرا اور محمدمصطفی ﷺ کافرزندہوں، میں اس کافرزندہوں جوکربلامیںشہیدکیاگیا۔ میں اسکا پسرہوں جس کے اہل حرم قیدکردئے گئے ،میں اس کافرزندہوں جس کے بچے بغیرجرم وخطاذبح کرڈالے گئے ، میں اس کابیٹاہوں جس کے خیموں میں آگ لگادی گئی، میں اس کافرزندہوں جس کاسرنوک نیزہ پربلند کر کے کو فہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں ان اہل حرم کے ہمراہ پھرایا گیا اور رسول زادیوں ؑ کوقیدکرکے شام تک پھرایاگیا۔پھرامام علیہ السلام نے فرمایا لوگو! خدانے ہم کوپانچ فضیلت بخشی ہیں :
1۔ خدا کی قسم ہمارے ہی گھرمیں فرشتوں کی آمدورفت رہی اورہم ہی معدن نبوت ورسالت ہیں۔
2۔ ہماری شان میں قرآن کی آیتیں نازل کیں اورہم نے لوگوں کی ہدایت کی۔
3۔ شجاعت ہمارے ہی گھرکی کنیزہے ،ہم کبھی کسی کی قوت وطاقت سے نہیں ڈرے اورفصاحت ہماراہی حصہ ہے، جب فصحاءفخرومباہات کریں۔
4۔ ہم ہی صراط مستقیم اورہدایت کامرکزہیں اوراس کے لیے علم کاسرچشمہ ہیں جوعلم حاصل کرناچاہے اوردنیاکے مومنین کے دلوں میں ہماری محبت ہے۔
5۔ ہمارے ہی مرتبے آسمانوں اورزمینوں میں بلندہیں ،اگرہم نہ ہوتے توخدادنیاکوپیداہی نہ کرتا،ہرفخرہمارے فخرکے سامنے پست ہے، ہمارے دوست روزقیامت سیروسیراب ہوں گے اورہمارے دشمن روزقیامت بدبختی میں ہوں گے۔
جب اہل شام نے امام زین العابدین ؑ کاکلام سنا تو چیخیں مارکررونے وپیٹنے لگے اوران کی آوازیں بے ساختہ بلندہونے لگیں یہ حال دیکھ کر یزیدگھبرااٹھاکہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑاہوجائے اس نے اس کے ردعمل میں فورا موذن کوحکم دیاکہ اذان شروع کرکے امام کے خطبہ کومنقطع کردے، موذن گلدستہ اذان پر گیا اور کہا ”اللہ اکبر“ امامؑ نے فرمایاتونے ایک بڑی ذات کی بڑائی بیان کی اورایک عظیم الشان ذات کی عظمت کااظہارکیااورجوکچھ کہا ”حق“ ہے۔پھرموذن نے کہا ”اشہد ان لاالہ الااللہ “ آپ ؑ نے فرمایامیں بھی اس مقصدکی ہرگواہ کےساتھ گواہی دیتاہوں اورہرانکارکرنےوالے کےخلاف اقرارکرتاہوں۔

پھرموذن نے کہ” اشہدان محمدارسول اللہ“ یہ سن کرحضرت علی ابن الحسین ؑروپڑے اورفرمایاائے یزیدمیںتجھ سے خداکاواسطہ دے کرپوچھتاہوں ”بتا حضرت محمدمصطفی ﷺمیرے ناناتھے یاتیرے ، یزیدنے کہاآپ ؑکے، آپؑ نے فرمایا،پھرکیوں تونے ان کے اہلبیت کوشہیدکیا، یزیدنے کوئی جواب نہ دیااوراپنے محل میں یہ کہتاہواچلاگیا۔”لاحاجة لی بالصلواة“ مجھے نمازسے کوئی واسطہ نہیں،اس کے بعد منہال بن عمرکھڑے ہوگئے اورکہافرزندرسول اللہ ﷺآپ ؑکاکیاحال ہے، فرمایااے منہال ایسے شخص کاکیاحال پوچھتے ہوجس کاباپ نہایت بے دردی سے شہیدکردیاگیاہو،جواپنے چاروں طرف اپنے اہل حرم کوقیدی دیکھ رہاہو،جن کانہ پردہ رہ گیانہ چادریں رہ گئیں، جن کانہ کوئی مددگارہے نہ حامی، تم تودیکھ رہے ہوکہ میں مقیدہوں، ذلیل ورسواکیاگیاہوں، نہ کوئی میراناصرہے،نہ مددگار، میں اورمیرے اہل بیت لباس کہنہ میں ملبوس ہیں ہم پرنئے لباس حرام کردئیے گئے ہیں، اب جوتم میراحال پوچھتے ہوتومیںتمہارے سامنے موجودہوں ،تم دیکھ ہی رہے ہو،ہمارے دشمن ہمیں برابھلاکہتے ہیں ۔پھرفرمایاعرب وعجم اس پرفخرکرتے ہیں کہ حضرت محمدمصطفی ﷺ ان میں سے تھے اورقریش عرب پراس لیے فخرکرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺقریش میں سے تھے اورہم ان کے اہلبیت ہیں لیکن ہم کوقتل کیاگیا، ہم پرظلم کیاگیا،ہم پرمصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے اورہم کوقیدکرکے دربدرپھرایاگیا،گویاہماراحسب بہت گراہواہے اورہمارانسب بہت ذلیل ہے، گویاہم عزت کی بلندیوں پرنہیں چڑھے اوربزرگوں کے فرش پرجلوہ افروزنہیں ہوئے۔ آج گویا تمام ملک یزیداوراس کے لشکرکاہوگیااورآل مصطفیﷺ یزید کی ادنیٰ غلام ہوگئی ہے، یہ سنناتھا کہ ایک مرتبہ پھر ہرطرف سے رونے پیٹنے کی صدائیں بلندہوگئیں۔
یزید پھر خائف ہوا گیا اور اس نے اس شخص سے کہاجس نے امام ؑکومنبرپرتشریف لے جانے کےلئے کہاتھا ”ویحک اردت بصعودہ زوال ملکی“ تیرابراہوتوان کومنبربربٹھاکرمیری سلطنت ختم کرناچاہتاہے۔ اس شخص نے جواب دیا، بخدا میں یہ نہ جانتاتھا کہ یہ لڑکا اتنی بلندگفتگوکرے گا ۔یزیدنے کہاکیاتونہیں جانتاکہ یہ اہلبیت نبوت اورمعدن رسالت کا ایک فردہے۔ یہ سن کرموذن سے نہ رہاگیا اوراس نے کہااے یزید”اذاکان کذالک فلماقتلت اباہ“ جب تویہ جانتاتھا توتونے ان کے پدربزرگوارکوکیوں شہیدکیا،موذن کی گفتگوسن کریزیدبرہم ہوگیا،”فامربضرب عنقہ“ اورموذن کی گردن ماردینے کاحکم دیدیا۔

اہل مدینہ سے خطبہ
مقتل ابی مخنف ص88 میں ہے کہ ایک سال تک قیدخانہ شام کی صعوبت برداشت کرنے کے بعدجب اہل بیت رسول اللہ ﷺکی رہائی ہوئی اوریہ قافلہ کربلا سے ہوتاہوامدینہ کی طرف چلاتومدینہ کے قریب پہنچ کرامام علیہ السلام نے اہل مدینہ سے عہد ساز خطبہ ارشاد فرمایا:
حمد اس خداکی جوتمام دنیاکاپروردگارہے، روزجزاءکامالک ہے ، تمام مخلوقات کاپیداکرنےوالاہے جواتنادورہے کہ بلندآسمان سے بھی بلند اوراتناقریب ہے کہ سامنے موجودہے اورہماری باتوں کاسنتاہے، ہم خداکی تعریف کرتے ہیں اوراس کاشکربجالاتے ہیں ،عظیم حادثوں،زمانے کی ہولناک گردشوں، دردناک غموں، خطرناک آفتوں ، شدیدتکلیفوں اورقلب وجگرکوہلادینے والی مصیبتوں کے نازل ہونے کے وقت۔
اے لوگو! تم سے کون مردہے جوشہادت امام حسین ؑکے بعدخوش رہے یاکونسادل ہے جوشہادت نواسہ رسول اللہ ﷺ سے غمگین نہ ہویاکونسی آنکھ ہے جوآنسوو ¿ں کوروک سکے، شہادت جگر گوشہ بتول سلام اللہ علیہا پرساتوں آسمان روئے، سمندراوراس کی شاخیں روئیں،مچھلیاں اورسمندرکے گرداب روئے ،ملائکہ مقربین اورتمام آسمان والے روئے۔ اے لوگو! کون ساقطب ہے جو میرے پدربزرگوار ؑ کی خبرسن کرنہ پھٹ جائے، کونساقلب ہے جومحزون نہ ہو، کونساکان ہے جواس مصیبت کوسن کرجس سے دیواراسلام میں رخنہ پڑا،بہرہ نہ ہو، اے لوگو! ہماری یہ حالت تھی کہ ہم کشاں کشاں پھرائے جاتے تھے، دربدرٹھکرائے جاتے تھے، ذلیل کئے گئے۔ شہروں سے دورتھے، گویاہم کواولادترک وکابل سمجھ لیاگیاتھا حالانکہ نہ ہم نے کوئی جرم کیاتھا نہ کسی برائی کاارتکاب کیاتھا نہ اسلام میں کوئی رخنہ ڈالاتھا اورنہ ان چیزوں کےخلاف کیاتھاجوہم نے اپنے آباواجدادسے سناتھا،خداکی قسم اگرحضرت محمد ﷺ بھی ان لوگوںلشکریزید کوہم سے جنگ کرنے کےلئے منع کرتے تویہ نہ مانتے جیساکہ حضرت محمد ﷺنے ہماری وصایت کااعلان کیااوران لوگوں نے نہ مانابلکہ جتنا انہوں نے کیاہے اس سے زیادہ سلوک کرتے،ہم خداکےلئے ہیں اورخداکی طرف ہماری بازگشت ہے“۔

روضہ رسولﷺ پرامام علیہ السلام کی فریاد
مقتل ابی مخنف ص341میں ہے کہ جب یہ لٹاہواقافلہ مدینہ میں داخل ہواتوحضرت ام کلثومؑ گریہ وبکاکرتی ہوئی مسجدنبوی میں داخل ہوئیں اورعرض کی، اے ناناآپؑ پرمیراسلام ہو”انی ناعیة الیک ولدک الحسین“ میں آپؑ کوآپ ؑکے فرزندحسین ؑ کی خبرشہادت سناتی ہوں، یہ کہناتھا کہ قبررسول اللہ ﷺ سے گریہ کی صدابلندہوئی اورتمام لوگ رونے لگے پھرحضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنے نانا پاک ﷺکی قبرمبارک پرتشریف لائے اوراپنے رخسارقبرمطہرسے رگڑتے ہوئے یوں فریادکرنے لگے :
اناجیک یاجداہ یاخیرمرسل۔۔۔اناجیک محزوناعلیک موجلا
سبیناکماتسبی الاماءومسنا۔۔۔حبیبک مقتول ونسلک ضائع
اسیرا ومالی حامیا ومدافع۔۔۔من الضرمالاتحملہ الاصابع
ترجمہ: میں آپﷺ سے فریادکرتاہوں اے نانا، اے تمام رسولوں میں سب سے بہتر،آپ ﷺکامحبوب ”حسین‘ؑ‘ شہیدکردیاگیا اورآپ ؑکی نسل تباہ وبربادکردی گئی، اے نانامیں رنج وغم کاماراآپؑ سے فریادکرتاہوں مجھے قید کیاگیامیراکوئی حامی ومددگار نہ تھا اے نانا ہم سب کواس طرح قیدکیاگیا،جس طرح لاوارث کنیزوں کوقیدکیا جاتاہے،اے ناناہم پراتنے مصائب ڈھائے گئے جوانگلیوں پرگنے نہیں جاسکتے۔

امام زین العابدین علیہ السلام اورمحمدحنفیہ ؒکے درمیان حجراسودکافیصلہ
آل محمدﷺکے مدینہ پہنچنے کے بعدامام زین العابدین ؑ کے چچامحمدحنفیہ ؒنے بروایت اہل اسلام امام ؑ سے خواہش کی کہ مجھے تبرکات امامت دیدو، کیونکہ میں بزرگ خاندان اورامامت کااہل وحقدارہوں۔ آپ ؑ نے فرمایاکہ حجراسودکے پاس چلووہ فیصلہ کردے گا جب یہ حضرات اس کے پاس پہنچے تووہ بحکم خدایوں بولا ”امامت زین العابدین ؑ کاحق ہے“ اس فیصلہ کودونوں نے تسلیم کرلیا۔کامل مبردمیں ہے کہ اس واقعہ کے بعدسے محمدحنفیہ ؒ،امام زین العابدین ؑ کی بڑی عزت کرتے تھے، ایک دن ابوخالدکابلی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی توکہاکہ حجراسودنے خلافت کاان کے حق میں فیصلہ دے دیاہے اوریہ امام زمانہ ؑ ہیں۔

نوٹ:۔۔۔محترم قارئین آپ کی رائے باعث عزت افزائی اور رہنمائی ہو گی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 122454 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More