پاکستان میں الیکشن جیسے جیسے قریب ہوتے جا رہے ہیں
اتنی ہی سیاسی میدان میں گہما گہمی میں تیزی آ رہی ہے۔الیکشن 2018 جس سے
پوری قوم نے امیدیں باندھ رکھی ہیں کہ شاید یہ الیکشن پاکستان کے لئے حقیقی
تبدیلی کا ذریعہ بنے گا۔چند دن بعد ہونے والے انتخابات کے لیے پاکستانی
عوام اس سوچ میں غرق ہیں کہ اپنا قیمتی ووٹ کس کو دیں؟کس امیدوار کے
انتخابی نشان پر اپنی تصدیقی مہر ثبت کریں ؟کس کو راہنما مانیں؟اپنی رائے
کس کے حق میں استعمال کریں؟
دوسری طرف کچھ قابل و ایماندار امیدواروں کے ساتھ ساتھ بہت سارے سیاسی
شعبدہ باز اور بازیگر فریب دہی و ملمّع سازی کے ذریعے سادہ لوح عوام کی
نظروں کو خیرہ کرنے اور کھلا فریب دینے کی خاطر برساتی مینڈکوں کی طرح ٹرٹر
کرتے ہوئے اور دلالی سے مستفید ہونے اور قوم و ملت کا سودا کرنے کے عزم
مصمم کے ساتھ میدان میں اترچکے ہیں۔ جس طرف دیکھئے ایک شوروغل اور ہمہمہ و
ہنگامہ بپا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر ایک جشن لگا ہوا ہے ، مشروبات
کی بوتلوں کے کھلنے کی ٹھکاٹھک، قبیلوں و برادریوں کے اتحاد و یک جہتی کی
باتیں ، کونوں کھدروں میں ہوتے مول تول، انتخابی دنگل میں اترنے کے لئے بال
وپر تولنے والے خواہشمند امیدواروں کے عارضی دفاتر پر سالوں سے بچھڑے ہوئے
بے روزگاروں کی یومیہ ملاقاتیں و شب بیداریاں ، نکڑوں اور کارنروں
پرآویزاں ہورڈنگس اور بینروں کی بہتات، خوشنما وعدوں کے دلفریب نعرے نظر
آرہے ہیں۔
کسی بھی جمہوری ملک میں طاقت کا اصل سرچشمہ عوام کو سمجھا جاتا ہے۔ یعنی
عوام کے ووٹ سے ہی حکومت بنتی ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ ٹرن آوٹ کم ہی رہا ہے
یعنی عوام کی اکثریت ووٹ کاسٹ ہی نہیں کرتی جو قابل افسوس پہلو ہے۔ووٹ
ہماری قومی امانت ہے۔ یہ وہ قیمتی اثاثہ ہے جس کی بنیاد پر عوام و خواص پر
اثرات مرتب ہوتے ہیں، قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں رقم ہوتی ہیں،
حکومتوں کی پالیسیوں کے تبدیل ہونے کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔
تبدیلی کے سفر کا پہلا قدم جانکاری ہے، جانیں اپنے حلقے اور علاقے کو اور
ووٹ کی سادہ پرچی پر اپنے مستقبل کا حال خود لکھیں ۔عوام پر واضح رہنا
چاہیے کہ ووٹ صرف کاغذ کی پرچی نہیں جو بغیر سوچے سمجھے مہر لگا کر کسی کے
بھی حق میں ڈال دی جائے بلکہ یہ آپ کی قیمتی رائے ہے یہ آپ کے پاس صرف
ایک امانت ہی نہیں بلکہ ایک شہادت ہے ۔ووٹ نہ دینا یا کرپٹ امیدوار کو ووٹ
دینا سچی گواہی کو چھپانے کے مترادف ہے اور اللہ تعالیٰ نے سچی گواہی کے
چھپانے کو بہت بڑا ظلم قرار دیا ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے اس شخص سے بڑا
ظالم اور کون ہوگا جس کے ذمہ اللہ کی طرف سے گواہی ہو اور وہ اسے
چھپائے۔(البقرۃ)
عام طور پر ہم لوگ ووٹ کی طاقت واہمیت اور اس کی شرعی حیثیت سے لاعلمی کی
بناء پر اس کو ایسے افراد کے حق میں استعمال کرڈالتے ہیں جو کسی بھی طرح اس
کے اہل ہی نہیں ہوتے ، جس کا خمیازہ ہم لوگ اگلے پانچ سالوں تک بھگتتے رہتے
ہیں اور آخرت میں بھی اس عمل کا جوابدہ ہونا پڑے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم
ووٹ کی طاقت و اہمیت اور اس کی دینی وشرعی حیثیت کو جان کر اس کا صحیح
استعمال کریں ۔ ووٹ ایک شہادت اور گواہی ہے ، ووٹ دینے والا اس شخص کے
متعلق جس کو وہ اپنا بیش قیمت ووٹ دے رہا ہے اس بات کی شہادت اور گواہی
دیتا ہے کہ یہ شخص اس عہدہ کے لئے ہر طرح لائق ہے، اس میں اس منصب کی
قابلیت موجود ہے اور یہ شخص لیاقت و قابلیت کے ساتھ ساتھ امانت دار و دیانت
دار بھی ہے ۔ اگر بالفرض وہ نمائندہ اہل نہ ہو ، یا اس میں اس کام کی
قابلیت و اہلیت نہ ہو ، یا وہ امانت دار و دیانت دار نہ ہو ، اور ووٹ دینے
والا ان تمام باتوں کو جانتے ہوئے بھی اگر اس کو ووٹ دیتا ہے تو گویا وہ
جھوٹی شہادت دے رہا ہے اور جھوٹی گواہی یا شہادت کی قباحت و شناعت اور
شریعت کی نظر میں اس کے گندے اور گھناونے ہونے کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے
ہیں کہ رسالت مآبؐنے اس کو شرک کے ساتھ کبیرہ گناہوں میں شامل فرمایا
ہے۔ایسے لوگوں کے لیے فرمان خداوندی ہے کہ جو شخص بھلائی کی سفارش کرے گا
وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ
پائے گا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے۔(النسا )
وطن عزیز کے ہر باسی کو ووٹ ضرور دینا چاہیے، اگر نیک لوگ ووٹ نہیں دیں گے
تو برے لوگ ہی ہم پر ہمیشہ مسلط رہیں گے۔ نیک لوگوں کی سستی ہی کی وجہ سے
نالائق، فاسق اور ظالم حکمران خلق خدا پر مسلط ہوتے ہیں۔ہمار ے ہاں اچھے
لوگ الیکشن کے دن خاموشی سے گھر میں پڑے رہتے ہیں اور برے لوگ میدان مار
جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہی اچھے لوگ اگلے کئی سال تک روتے رہتے ہیں کہ حکومت
بری ہے، مہنگائی بہت کردی، بجلی پوری نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ
ووٹ کس کو دیا جائے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم
میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیا دہ پر ہیز گار
(اللہ کی نافرمانی سے پر ہیز کرنے والا)ہے ہمارے لیے ووٹ کا معیار یہی حکم
الٰہی ہونا چاہیے ایسا مت سوچئے کہ اچھے کردار کے امیدوار کو ووٹ دیں اور
وہ جیت نہ سکے تو ووٹ ضائع ہو جائے گا ہم اپنے عمل کے ذمہ دار ہیں۔ووٹ دیتے
وقت یہ خیال رکھا جائے کہ ووٹ اسے دیں جو دوبارہ پانچ سال کے بعد نہیں بلکہ
آپ کو آپ کی ضرورت کے وقت میسر ہو،جو تعلیم یافتہ ہو جس کی سوچ تعلیم
یافتہ ہو،جو ہماری آپکی نسلوں کی ترقی کا ضامن ہو، ووٹ انہیں دیا جائے جن
کے بچے آکسفورڈکی بجائے ہمارے بچوں کے ساتھ سرکاری اسکولوں میں ’’ٹاٹ‘‘
پربیٹھ کر پڑھیں اور اپنی بیماریوں کا علاج پرائیوٹ ہسپتالوں کی بجائے
ہمارے گورنمنٹ ہسپتالوں میں کروائیں۔
دردمندانہ التجاہے کہ خود غرضی ، عارضی مفادات ، قرابت و تعلقات ، دوستانہ
مراسم یا کسی کی غنڈہ گردی کے ڈر و خوف کی وجہ سے جھوٹی شہادت جیسے حرام
اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں ۔ بلکہ کسی خوف و جبر یا لالچ کے بغیر
صرف اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی رائے کا
بہترین استعمال ووٹ سے کریں اور امانت دار، دیانت دار قیادت کو منتخب کریں
پھر یقیناً نظام میں تبدیلی آئے گی، قانون کا بول بالاہو گا اور امن و
امان بھی۔
ہم پر فتن حالات میں بھی اپنے رب سے نا امید نہیں ہیں بلکہ دعا گو ہیں کہ
ہمارے ملک کی باگ ڈور ایسے مسلمان حکمران کو بخش دے جو ہر چیز کو امانت
سمجھتے ہیں۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرے ۔
|