ایلومیناتی سیاست اور دجال کی عالمی حکومت

illuminati ایک سیکرٹ سوسائٹی کا نام ہے جس کی بنیاد Adam weishauptنے یکم مئی 1776ء میں جرمنی کے شہر ingolstadtمیں رکھی ۔یہ لوگ اعلانیہ لوسیفر( شیطان) کی پوجا کرتے ہیں اور اسے خدا مانتے ہیں ۔مغرب اور امریکہ میں یہ تنظیم اور اس کے اہداف اور مقاصد اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے ۔مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ ہمارے ذرائع ابلاغ میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ سابق امریکی صدورجمی کارٹر، بش جونیئر اور سینئر سمیت بڑے بڑے سیاستدان ، راک فیلر اور روتھ چائلڈ جیسے دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ دار اور بینکر ز الو میناتی کے ممبرز رہے اور ہیں۔ دنیا میں یہ بات مانی جارہی ہے کہ الومیناتی اور فری میسنز دنیا میں دجال کی عالمی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہیں ۔ اس خیال کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ الومیناتی اور فری میسن تنظیموں کا سمبل دجال کی ایک آنکھ والا اہرام ہے جس کا عکس امریکی ڈالر پر بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔

اسلام جو تعلیمات ہمیں دیتا ہے ان میں قرب قیامت میں دجال کی آمد کا ذکر موجود ہے ۔وہ شیطان کا ہی دوسرا روپ ہوگا جو خود کو خدا کہلوائے گا ۔ جو لوگ اسے خدا مانیں گے انہیں دنیا میں عزت ، دولت ، شہرت اور سب کچھ ملے گا لیکن جو لوگ اس کا انکار کریں گے ان کے لیے یہ دھرتی تنگ ہو جائے گی ۔ آج بین الاقوامی میڈیا کے تھرو یہ بات سامنے آرہی کہ دنیا میں کئی لوگ دولت ، شہرت اور کامیابی کے لیے الومیناتی کے ممبربنتے ہیں ۔ ان میں اداکار ، گلوکار ، صحافی بھی شامل ہیں اور کئی ایسے سیاستدان بھی جو الیکشن جیت کر میدان سیاست میں نام کمانا چاہتے ہیں ۔اسلام کی تعلیمات کے مطابق دجال کا فتنہ اتنا بڑا فتنہ ہے کہ اس سے ہر پیغمبر اور رسول نے پناہ مانگی ہے اور اپنے پیروکاروں کو ڈرایا ہے ۔شاید اس لیے کہ شیطان اس فتنے کو اس قدر فریب ، دجل اور مکر کی مختلف چالوں کے ذریعے پھیلائے گا کہ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہو پائے گا کہ وہ دجال کے فتنے کا شکار ہو گئے ہیں ۔مثال کے طور پر :

بحیثیت مسلمان ہم اپنے دل میں الومیناتی اور فری میسنز سے شدید نفرت اور کراہیت اس لیے محسوس کرتے ہیں کہ وہ شیطان کے پیروکار ہیں اور دنیا پر شیطانی تہذیب اور عالمی دجالی حکومت کا راستہ ہموار کر رہے ہیں ۔لیکن دوسری طرف وہی کام ہم ذرادوسرے ڈھنگ سے کر رہے ہیں ۔ الومیناتی شیطان کی پوجا کرتے ہیں اور اس سے مدد حاصل کرتے ہیں تو وہی کام ہمارے ہاں گلی کوچوں میں بیٹھے ہوئے پیر، جادوگر اور عامل کر رہے ہیں اور ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ شیطان کے پیروکار ہیں اور شیطانی ذریات سے کام لیتے ہیں اپنی مرادیں لے کر ان کے پاس جاتے ہیں ۔یہ عامل اور جادوگر پکڑے جائیں تو’’ جعلی پیر ‘‘قرار پاتے ہیں لیکن جب تک پکڑے نہ جائیں تو اصلی پیر اور مُرشد ہی رہتے ہیں ۔ عام عوام تو ان کے آستانوں پر ماتھا ٹیکتی ہی ہے لیکن بڑے بڑے سیاستدان بھی وہاں سجدہ ریز نظر آتے ہیں ۔ان آستانوں پر عام دنو ں میں بھی عوام کا جمعہ بازار لگا ہی رہتا ہے لیکن خاص طور پر الیکشن سے ذرا پہلے وہاں چاند رات کا سا سماں ہوتا ہے ۔ کئی MPA، MNA الیکشن کے بعدبھی سب سے پہلے ان آستانوں پر حاضری دیتے ہیں ۔جیسے ان کی جیت میں اصل کردار عوام کے ووٹ کا نہیں بلکہ ان آستانوں کا ہو ۔ظاہر ہے ایم پی ایز اور ایم این ایز اس پر ایمان رکھ کر ہی وہاں جاتے ہیں تو پھر سوچئے ! بننے والی حکومت عوام کی ہوگی یا پھر ۔۔۔؟اسی طرح قبضہ مافیا ، ڈرگ مافیا اور ٹمبر مافیا کا ان آستانوں سے ایک خاص تعلق جڑارہتا ہے ، بیوروکریسی کے کئی لوگ اپنی ترقی اور تنزلی کو ان آستانوں سے جوڑتے ہیں،فلم انڈسٹری ، ٹی وی اور میڈیا کے کئی کردار ان آستانوں سے دولت ، شہرت اور کامیابی کی اُمید رکھتے ہیں ۔ یہی کام اگر مغربی دنیا میں الومیناتی کر رہے ہیں تو ہم اسے شیطانیت اور دجالیت کا نام دیتے ہیں لیکن وہی شیطانی دھندا اگر یہاں پیر ،عامل، جادوگر کریں تو ہم اسے روحانیت کہتے ہیں ۔ اب یہ کونسی روحانیت ہے ؟ ایک اور اینگل سے دیکھتے ہیں :

سکھ اپنے گرو کی قبر پر سجدہ کرتے ہیں اور ہندودیوی دیوتاؤں کے بت بنا کر ان کی پوجا کرتے ہیں ۔وہ بھی اس کو روحانیت ہی کہتے ہیں ۔ بلکہ انڈیا تو خود کو روحانیت کا سب سے بڑا گڑھ سمجھتا ہے ۔حتیٰ کہ انڈیا کے پرچم میں موجود ’’ چکر‘‘ روحانیت ہی کا سمبل ہے ۔ یہی چکر بھارتی کھلاڑیوں کی وردیوں پر بھی سینے پر سجا نظر آتا ہے ۔سکھوں کے نزدیک رب ان کی روحانی ہستی یعنی گروہ کی شکل میں موجود ہے جبکہ ہندوؤں کے نزدیک دیوی دیوتا ایسی شکتیاں ( روحانی قوتیں ) ہیں جو ایشور (خدا) ہی کا روپ ہیں ۔ جبکہ خود اﷲ کہتا ہے :
﴿اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰــثًاج وَاِنْ یَّدْعُوْنَ اِلاَّ شَیْطٰنًا مَّرِیْدًاM﴾ ’’نہیں پکار تے یہ لوگ اﷲ کے سوامگر دیویوں کو‘ اور وہ نہیں پکارتے کسی کو سوائے سرکش شیطان کے۔‘‘(النساء:117)

شیطان نے قسم کھائی تھی کہ جس آدم (کو سجدہ نہ کرنے )کی وجہ سے وہ ذلیل ہواہے اُسے بھی وہ ذلیل و رسوا کر کے چھوڑے گا ۔(یعنی اپنے در پر سجدہ کروا کے چھوڑے گا) چنانچہ شیطان نے بنی آدم کے لیے اپنا جال مختلف عنوانوں سے پھیلا رکھا ہے اورحقیقت میں اصل دجل تو ہے بھی یہی کہ لوگ جسے روحانیت سمجھ کر اپنا ئیں وہ اصل میں شیطانیت ہو ۔انسانوں کی کثیر تعداد آج اس فتنہ ٔ دجال میں پھنس کر شیطان کی اس قسم کو پورا کر رہی ہے مگر انہیں اس کا احساس ہی نہیں۔کیونکہ دجل کا کمال یہی ہے کہ لوگ اسے روحانیت ہی سمجھ رہے ہیں ۔ حالانکہ روح ایک پاکیزہ شے ہے جو انسان کا تعلق غیر اﷲ سے توڑ کر اﷲ سے جوڑتی ہے کیونکہ انسان کے اندر روح ہی ایک ایسی چیز ہے جو اﷲ کو جانتی بھی ہے اور پہچانتی بھی ہے کیونکہ ہر انسان کی روح اس عہد کی گواہ ہے جو اس نے ازل میں اپنے رب سے کیا ہے :
﴿ اور جب آپ (ﷺ ) کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا او ر ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بناکر اقرار لیا کہ کیا میں تمہار ا ر ب نہیں ہوں؟ تو سب نے جواب دیا کیوں نہیں ! ہم سب گواہ ہیں۔ ( یہ عہد اس لیے تھا )تاکہ تم لوگ قیامت کے دن یوں نہ کہو کہ ہم تو محض اس سے بے خبر تھے ۔ یا یوں کہوکہ پہلے پہل شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں پیدا ہوئے سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہمیں ہلاکت میں ڈال دے گا ﴾ (الاعراف ۔ ۱۷۲، ۱۷۳)

اس عہد ( میثاق ازل ) کی بنیاد پر ہی انسان کی اس دنیا میں آزمائش ہو رہی ہے کہ آیا وہ اﷲ کو ہی رب مانتا ہے یا کسی اور کو رب کا درجہ دے رہا ہے ۔تما م آسمانی کتابیں اسی عہد کی تجدید کی لیے نازل ہوئیں اور تمام پیغمبراسی دعوت کی تجدید کے لیے بھیجے گئے کہ صرف اﷲ ہی کو اپنا رب مانو ، وہ ایک ہے ، اس کا کوئی ثانی ہے اور نہ اس کا کوئی اور روپ ہے ۔چنانچہ جس انسان تک پیغمبر وں اور آسمانی کتابوں کی ہدایت نہ بھی پہنچی ہو وہ بھی اگر اپنی روح کی آواز کو سنے گا تو وہ حقیقی رب کو چھوڑ کر کسی دوسرے در پر نہیں جائے گا ۔کیونکہ یہ عہد ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ اسی لیے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’’ ہر بچہ دین فطرت(اسلام) پر پیدا ہوتاہے ، پس اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں‘‘۔ اگر ایسا سلیم الفطرت انسان قرآن کا مطالعہ کرے اور صرف اﷲ کی عبادت کرے تو اس کا تعلق اس کائنات کے حقیقی رب سے اور مضبوط ہو جائے گا، وہ گناہوں سے بچے گا اور نتیجہ میں اس دنیا کی آزمائش میں کامیاب ٹھہرے گا ۔ یہی حقیقی روحانیت ہے اور یہی اس کا اصل مقصد ہے ۔ جبکہ شیطان نے اپنے دجل سے جس چیز کو روحانیت مشہور کر دیا ہے اس کا واحد مقصدبندے اور اﷲ کے درمیان اس عہدکو توڑنا ہے جس میں اس نے اﷲ کو ہی رب مانا تھا ۔

ذرا سوچئے!وہ روح جس نے اﷲ کے روبرواﷲ کے رب ہونے کا نہ صرف اقرار کیا ہے بلکہ وہ انسان اور اﷲ کے درمیان اس عہد کی گواہ بھی ہے تو کیا وہی روح انسانوں کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ رب کو چھوڑ کر دیوی دیوتاؤں ،بتوں ، انسانوں اور شیطانوں کی پوجا کریں ؟دوسرے الفاظ میں جس کو رب گواہ بنائے تو کیا وہ اس گواہی سے مکر سکتا ہے اور جس عہد پر گواہ بنایا گیا اسی عہد کو توڑنے کا کہہ سکتاہے ؟اور پھر خود اﷲ اوراس کے پیغمبر بتا رہے ہیں کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں رہتا ، وہ سیدھی عالم بالا پر اپنے رب کی مہمان بن جاتی ہے ۔ اور بالفرض اگر اس کا دنیا کے ساتھ کوئی تعلق ہو بھی تو کیااس سے اس طرح کے ناپاک اور شیطانی اعمال و افعال کی توقع کی جا سکتی ہے جو اس نام نہاد روحانیت میں روحوں سے منسوب کیے جاتے ہیں ؟قرآن کہتا ہے روح اﷲ کا امر ہے ۔کیااﷲ کے کسی امر سے برائی کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ ۔آخر یہ کونسی روحانیت ہے ؟جو بت پرستی ، کفرو شرک کی دعوت دیتی ہے ، جو بُتوں اور دیوی دیوتاؤں کے لیے انسانی خون کا نذرانہ مانگتی ہے ،جس میں میتوں کے سرکاٹنا ، مُردوں کا گوشت کھانا ،معصوم زندگیوں سے کھیلنا ، ہنستے بستے گھروں کو اُجاڑنا سب جائز ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کے ساتھ ابلیس نے اپنا ایک جن ساتھی مقرر کیا ہوا ہے ۔ جو اسی انسان جیسی شکل و صورت اور نام اختیار کر لیتا ہے ۔صحابۂ کرامؓ نے حضور ﷺ سے پوچھا : یار سول اﷲ ﷺ کیا آپؐ کے ساتھ بھی ؟۔ آپؐ نے فرمایا : ہاں میرے ساتھ بھی لیکن اﷲ نے اسے میرا مطیع بنا دیا ہے ، اب وہ مجھے سوائے نیکی کے کوئی اور حکم نہیں دے سکتا ‘‘۔ ( مسلم )۔اسی طرح کئی اور احادیث مبارکہ سے بھی انسان کے ساتھ اس کے ہم شکل ہمزاد جن کے ہونے کی تصدیق ہوتی ہے ۔عامل ، پیر ، پنڈت ، پروہت ،سادھو ، جوگی اور اس قبیل کے سب لوگ اس سچائی سے واقف ہوتے ہیں لیکن وہ عوام کو سچ نہیں بتا تے کیونکہ اس طرح ان کی ’’روحانیت ‘‘کا بھرم جاتے رہنے کا خدشہ ہو تاہے ۔ہندو پنڈت اور پروہت ان کو روحانی شکتیاں باور کراتے ہیں اورعام ہندو دیوتا مان کر انہی کی پوجا کرتے ہیں ۔ انہی ’’ شکتیوں ‘‘ کو ہمارے عامل ، پیراور جادوگر موکلات یار وحانی قوتیں بتاتے ہیں اور سادہ لوح مسلمان اسے روحانیت مان کر بالواسطہ شیطان کے ہی جال میں پھنس رہے ہیں۔ CIA، را، موساد ، MI5، MI6سمیت دنیا بھر کی ایجنسیاں خفیہ معلومات کے حصول اور دیگر مقاصد کے لیے انہی شیطانی ذرائع کو استعمال کر رہی ہیں ۔illuminati اورفری میسن تنظیمیں برائے راست انہی شیطانی قوتوں سے راہنمائی لیتی ہیں اور دنیا بھر سے لوگ محض دولت ، شہرت اور اقتدار کے لیے ان کے چنگل میں پھنس کر دجال کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ IMFاور ورلڈ بینک سمیت تمام عالمی مالیاتی اداروں پر انہی کا قبضہ ہے ۔ دنیا بھر کے حکمران انہی کی ڈکٹیشن پر پالیسیاں بنا کردجال کے ایجنڈے کوآگے بڑھا رہے ہیں۔گویا اگر یہودی مسیح الدجال (جو کہ شیطان ہے)کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور اسی کی عالمی حکومت کا راستہ ہموار کر رہے ہیں تو وہی کام ہم سب کسی نہ کسی صورت میں بالواسطہ یا بلا واسطہ کررہے ہیں ۔ گویا ہر طرف دجال کا غلبہ بڑھ رہا ہے ۔ اگر کوئی کسر رہ گئی ہے تو وہ صرف دجال کے ظاہر ہونے کی ہے ۔ ان حالات میں بحیثیت مسلمان ہمیں اپنا گہرا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ہم کون سے کیمپ میں کھڑے ہیں ؟ دجال کے کیمپ میں یا پھر اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے کیمپ میں ! اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس دجالی فتنہ کو سمجھنے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !

Rafiq Chohdury
About the Author: Rafiq Chohdury Read More Articles by Rafiq Chohdury: 3 Articles with 3815 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.