بد معاش

 بنیادی طور پر یہ لفظ معاشرے سے متعلق انسانی رویئے پر مبنی ہے۔ معاشرہ کی جو بھی تعریف یا حد بندی کی جائے آخر کار انسانوں کے مل جل کر رہنے کا نام معاشرہ ہے۔ ہر معاشرہ کچھ مشترک اور کچھ مختلف قواعد و ضوابط طے کرتا ہے جس پر صد ہا برس تک لوگ عمل پیرا رہتے ہیں اور اس رسم و رواج اور اخلاق و انضباط کو اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کرتا چلا جاتا ہے۔ ہر معاشرہ اپنی علیحدہ سے پہچان بنانے کی کوشش بھی کرتا ہے جو اس کے لباس، زبان، رسم و رواج وغیرہ سے آشکار ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر معاشرہ کچھ چیزوں کو اچھا اور کچھ چیزوں کو برا قرار بھی دے دیتا ہے۔ معاشرہ ان اصول وضوابط کی روشنی میں کسی انسان کے اچھا اور کسی کے برا ہونے کا فیصلہ صادر کرتا ہے۔ پھر اچھے انسانوں کو نوازنا اور بروں کو نشانِ عبرت بنانا اس معاشرے کا وطیرہ بن جاتا ہے۔ پھر ان باتوں کو زبان کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کیا جاتا ہے اور تحریروں میں لا کر آنے والے وقت کے لئے محفوظ اور مستحکم کر لیا جاتا ہے۔ کچھ سابقے اور لاحقے ہر زبان استعمال کرتی ہے جواس زبان کے الفاظ کی سمجھ اور بلاغت میں معاون ہوتے ہیں ۔ انہی سابقوں میں سے اردو اور فارسی اور پنجابی زبانوں کا ایک سابقہ ’ بَد‘ کا بھی ہے جسے برے ، گھٹیا اور منفی کاموں ، رویوں یا اشخاص کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔

’بد معاش‘ کا لفظ اپنی مارفولوجی میں دو الفاظ ’ بد‘ اور ’ معاش‘ کا مرکب ہے۔ ان دو الفاظ کے اپنے اپنے معنی ہیں اور ان کے اتصال سے بننے والے لفظ کا بھی اپنا معنی وجود میں آتا ہے یعنی ناجائز طور پر روزی کمانے والا، یا معاشرے کی حدود تجاوز کرنے والا وغیرہ۔ عام طور پر ’بد معاش‘ کا لفظ ڈاکو، غنڈے، راہزن، لٹیرے وغیرہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ چور بھی ویسے تو بدمعاش ہی ہے لیکن اس میں حوصلہ اور دلیری نہیں ہوتی وہ بھاگ جاتا ہے۔ ڈاکو میں دلیری اور غنڈے میں بے باکی ہوتی ہے۔ لوگ ان سے خائف ہوتے ہیں اور ان کی شکایت بھی نہیں کرتے لیکن کچھ بہادر لوگ ان سے مقابلہ بھی کرتے ہیں۔ پرانے دور میں ڈاکو ، بد معاش وغیرہ جنگلوں میں بسیرا کیا کرتے تھے اور ضرورت کے مطابق کسی امیر کے ہاں ڈاکہ ڈال لیا کرتے تھے۔ عام لوگوں کو وہ تنگ نہیں کیا کرتے تھے۔ بعض بدمعاشوں کے متعلق تو یہ بھی ہے کہ وہ غریبوں کی مدد بھی کر دیا کرتے تھے۔ لیکن یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں ، حقیقت تو اﷲ ہی بہترجانتا ہے ۔

آج کے دور میں ’بد معاش‘ کا لفظ ’بد عنوان ‘ اور ’کرپٹ‘ میں ڈھل گیا ہے۔ اب روزی روٹی، مال و دولت وغیرہ کی بے ایمانی، بد دیانتی ، ہیرا پھیری وغیرہ کے لئے ’بد معاش‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا جب کہ اس کا اصل معنی ایسے کاموں یا ایسے کام کرنے والوں کے لئے ہی تھا ۔ اب ایسے کاموں کے لئے ’کرپٹ‘ کا لفظ اردو کے کسی بھی لفظ سے زیادہ ’اِن‘ ہو گیا ہے۔ لوگ اسے مال ودولت کی ہیرا پھیری کرنے والے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ ڈاکہ زنی، راہزنی، وغیرہ کے لئے بد معاش، ڈکیٹ وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو ہر وہ شخص ، چاہے اس کا پیشہ یا کام کچھ بھی ہو ، جو اپنا کام درست طریقے سے نہیں کرتا یا جو اپنے کام کا حق ادا نہیں کرتا ، وہ ’بدمعاش‘ ہے۔ اس صورت میں تو اپنے فرض سے کوتاہی برتنے والا یا اس کا ناجائز استعمال کرنے والا ہر شخص’ بد معاش‘ کہا جا سکتا ہے۔ بچوں کو لوگ پیار سے’ بدمعاش‘ کہہ لیتے ہیں لیکن وہ صرف محبت کا بلواسطہ اظہار ہوتا ہے۔

دنیا بدمعاشوں سے کبھی خالی نہیں رہی۔ ہر علاقے، ہر زمانے اور ہر قوم میں کوئی نہ کوئی’ بد معاش‘ ضرور جنم لیتا ہے اور جہاں بد معاشی ہو وہاں کوئی نہ کوئی حق کا مجاہد بھی آ جاتا ہے ۔ دنیا میں ہمیشہ اچھے لوگ بھی رہے ہیں اور برے لوگ بھی رہے ہیں۔ یا دوسرے الفاظ میں اچھائی بھی رہی ہے اور برائی بھی رہی ہے۔ مغرب کی دنیا میں بھی ایسا ہی ہے اگرچہ ان کی سماجی اور ذاتی برائیوں کا اپنا اپنا معیار ہے اور ایک زمانے تک انہوں نے دنیا بھر میں ’بد معاشی‘ بھی کی ہے اور کسی حد تک آج بھی کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اگرچہ دنیا میں بہت سے اچھے کام بھی کرتی ہے لیکن جہاں اس کے کردار کی اصل میں ضرورت ہوتی ہے وہاں اس کے معیار دوہرے اور تہرے ہو جاتے ہیں۔ اسرائیل کا کردار ایک ’عالمی بدمعاش‘ سے کم نہیں ہے اور وہ واقعی ایک’ بد معاش‘ ہے جوکسی بد عنوانی پے نہیں بلکہ اپنی غنڈہ گردی اور قتل و خون ریزی کی بنا پر بدمعاش ہے جو وہ نہتے بے یا رو مددگار فلسطینیوں پر روا رکھے ہوئے ہے۔ ادھر ہر روز انڈین آرمی کے ظلم و بربریت کا نشانہ بننے والے کشمیریوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کا کوئی والی وارث بننے پر تیا ر نہیں ہے۔ اس طرح مسلمانوں کے ساتھ دنیا میں پرلے درجے کی ’بد معاشی ‘کی جا رہی ہے اور دنیا اس کو ایک تماشا سمجھ کر بس دیکھے جا رہی ہے۔اور تو اور خود مسلمانوں کو یورپی اور ہندوستانی اداکاروں کو اپنے ہیرو ماننے اور ان کی فلموں کو دیکھے جانے میں سرے سے کوئی عار نہیں۔ اکثر پڑھے لکھے بھی ان فلموں سے دانائی اخذ کرتے ہیں اور اپنے آگے ٹرانسفر بھی کرتے ہیں۔ اگر ہم نے یہی کچھ ہی کرنا ہے یا کرنا تھا تو اتنا خون کیوں بہایا گیا یا بہایا جا رہا ہے یا ہمیں اس خون پر ترس کیوں نہیں آتا جو بہایا جا رہا ہے۔ یا ہم اس خون کے عادی ہو گئے ہیں اور دشمن کی بد معاشی کو اپنی مجبوری سمجھ بیٹھے ہیں یا یہ انہی کا مقدر ہے جو اسے بگھت رہے ہیں ہمیں کوئی فکر نہیں ہے۔

اقوامِ متحدہ میں ویٹو دراصل بد معاشی کا لائیسنس ہے اور اس کا استعما ل امریکہ بہادر کرتا ہے اور اکثر وبیشتر مسلمانوں کے خلاف ہی کرتا ہے۔ اور جہاں اس کا اپنا مفاد ہو ، وہاں وہ اقومِ متحدہ کی بھی کوئی پرواہ بھی نہیں کرتا اور جب چاہے اقوامِ متحدہ سے کوئی بھی قراد اد پاس کروا کے یا بن پاس کروائے اس پر عمل درآمد کروا لیتا ہے بلکہ خود ہی کر لیتا ہے۔ ہمارے اپنے ملک سے اسامہ بن لادن کو اٹھا کر لے جانا، بیچاری عافیہ صدیقی کا برا حال کر دینا اور اس طرح کے بیشمار واقعات اس کی بد معاشی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ادھر انڈیا ’بد معاشی ‘سے ہمارے پانیوں پر اپنا قبضہ جمائے جا رہا ہے اور پاکستان کو ایک ویرانے میں بدل دینے کے پلان پر عمل پیرا ہے۔ہمارے اپنے لیڈر اور افسران اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر چلے آ رہے ہیں۔ یہاں توانائی کی شدید قلت پر بھی حکمران بیٹھے بانسری بجاتے رہے۔ پچھلے حکومت نے کسی حد تک توانائی کے مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کی۔ لیکن ابھی اس معاملے میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ہمارے ملک کو انتشار کی دلدل میں دھکیلنے کی عالمی سازش اپنا جال پھیلا چکی ہے ،اﷲ کرے اسے کامیابی نہ ہو۔ ملک میں انتشار پیدا کرنا اس کی ترقی کو رونے کا سب سے مفید حربہ ہے یہ بھی ایک بلواسطہ ’ بدمعاشی ‘ہے۔ جب ان کے بم دھماکوں اور توانائی کا فقدان وغیرہ پر بہت سی رقم خرچ کرنے کے باوجود اس ملک میں سکون اور اطمینان کی ہوئیں چلنے لگیں تو اسے پھر سیاسی انتشار کی دلدل میں دھکیل دیا گیا اور اس دلدل سے اس کے نکلنے میں اب وقت ہی بتائے اور دیکھائے گا کہ کیا کچھ خرچ آتا ہے۔

تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن کروا کر بھی معلق اسمبلی حاصل کرنے میں ملک کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ تمام بڑا انوسٹر ملک سے ویسے ہی نکل جائے گا۔ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا ، معاشی استحکام کی بات احمقانہ ہی رہے گی۔ جیسا کہ بنگلہ دیش میں ہم سے جدا ہونے کے بعد کچھ سال سیاسی انتشار رہا لیکن اب وہاں سیاسی انتشار نہیں، اسی لئے وہاں معاشی استحکام بھی ہم سے زیادہ ہے اور ان کی کرنسی ہماری کرنسی سے زیادہ مستحکم ہے۔ یہ بات ہماری قوم کو سمجھ نہیں آتی کہ یہاں کی سیاست میں دوسرے ادارے دخل اندازی نہ کریں تو سیاسی استحکام میں مضبوطی آئے۔ ادارے تبھی مضبوط ہوں گے جب ان کو اپنی حیثیت میں رہ کر کام کرنے دیا جائے گا۔ جو ادارے غیر سیاسی ہیں وہ اپنا غیر سیاسی کردار ادا کریں اور سیاست ان کے اندر دخل اندازی نہ کرے، لیکن یہاں سب کچھ ہوتا ہے۔ سیاست غیر سیاسی اداروں کو یرغمال بنا لیتی ہے اور جب موقع ملتا ہے تو غیر سیاسی ادارے سیاست میں دخل اندازی کر تے ہیں۔ یہی ہماری قوم کی نادانی اور کم فہمی ہے اور یہی ہمارے ملکی استحکام کی کمزوری اور ملکی ترقی کی دشمن ہے۔

ہماری سیاست کی’ بدمعاشی‘ ملکی سلامتی کے لئے از خود ایک خطرہ بن جاتی ہے۔ موجودہ الیکشن فوج کے بغیر ہو ہی نہیں سکتے۔ اتنی زیادہ ’بد معاشی ‘ اور خون ریزی کا خطرہ ہے کہ جسے سوچ کے انسان سیاست سے دور بھاگتا ہے۔ ہماری سیاست ، سیاست نہیں بلکہ باہمی دشمنی کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔ سیاست میں دلچسپی رکھنے والے مخالف پارٹیوں کے لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے تک آ جاتے ہیں ۔ سماجی میڈیا ایسی پوسٹوں سے اٹا پڑا ہے اور کسی سیاسی لیڈر کو قومی اخلاق اور استحکام کے پیشِ نظر یہ توفیق نہیں ہو رہی کہ وہ اپنے پارٹی ورکروں کو سمجھا ئے کہ سیاست میں جذباتی ہونے کی بجائے اخلاقی ہونا زیادہ مفید ہوتا ہے۔ ایسے لگتا ہے ملک میں الیکشن نہیں کوئی خوف ناک ایونٹ ہونے جا رہا ہے جس سے ملک کے درو دیوار کانپ رہے ہیں اور دعا مانگ رہے ہیں کہ یا اﷲ خیر کرنا۔

کئی لوگ رمضان جیسے مقدس مہینے بھی میں’ بد معاش‘ ہو جاتے ہیں اور یہ لوگ اس لفط ’بد معاش‘ کے صحیح حقدار ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس ان کو بھی ’بدمعاش‘ کہا نہیں جاتا جب کہ اصل ’ بد معاش‘ یہی لوگ ہوتے ہیں جو رمضان میں پھلوں، سبزیوں، کپڑوں اور تقریباً ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کر دیتے ہیں اس سے خریداروں کے ثواب میں تو بلا شبہ اضافہ ہوتا ہی ہے، ان معزز کاروباری، تجارت پیشہ لوگوں کی تجوریاں بھی بھاری ہو جاتی ہیں اور پھر اکثر اس رقم سے عمرے اور حج بھی ادا کرتے ہیں تا کہ دھل کر پاک صاف بھی ہو جائیں اﷲ کے معاملے اﷲ ہی جانتا ہے لیکن اس مہنگائی کو ’بد معاشی ‘ ضرور کہا جا سکتا ہے۔

بڑی عید پر دیہاتیوں کی بد معاشی دیکھنے میں آتی ہے جب وہ اپنے جانوروں کے ریٹ عیدِ قربان کے تناظر میں بڑھا دیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ عید پر جانور سارے سال کی نسبت سستے ہو ں لیکن بد معاشی یہ ہے کہ انہیں مذید مہنگا کر دیا جاتا ہے تا کہ قربانی کرنے والوں کے ثواب میں اضافہ ہو۔اضافی قیمت کا ثواب تو یقیناً ملتا ہو گا لیکن اس ’بد معاشی ‘پر جو غصہ اور پریشانی آتی ہے وہ عید کا لطف بھی کم کرتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ قصابوں کی مزدوری جو کہ کسی طرح سے بھی ’بد معاشی‘ کے زمرے میں آنے سے نہیں رہ سکتی۔

اوپر پیش کئے گئے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں ہر طرف ’بد معاشی ‘کا دور دورہ ہے۔ جس کو جب اور جتنا موقع ملتا ہے اپنا آپ ضرور دیکھاتا ہے۔ کتنا ہی اچھا ہو کہ ہم اچھے انسان، اچھے مسلمان اور اچھے پاکستانی بن جائیں اور دنیا کے سامنے ہماری
بھی کچھ عزت بن جائے۔
 

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 284338 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More