بیٹیاں رحمت ، زحمت مت سمجھیں

تحریر: آمنہ عبدالغفور، شارجہ
بیٹی جسے اﷲ نے رحمت بنا کر بھیجا۔ مگر شاید وہ اس دنیا کے لیے زحمت کا نشان بنا دی گئی۔ ایسا کیوں اس بات کا شاید جواب کسی کے پاس ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ آج کی بیٹی کو وہ مقام حاصل نہیں جس مقام کی وہ حقدار ہے۔ بیٹیوں کو نا جانے کیوں پسند نہیں کیا جاتا باوجود اس کے کہ ہم پڑھے لکھے ہیں۔ پھر بھی بیٹی کی پیدائش میں ایسے منہ بن جاتے ہیں کہ جیسے کسی نے وفات کی خبر دے دی ہو۔ کچھ لوگ تو حد ہی کر جاتے ہیں کہ ڈاکٹر کو مارنے لگ جاتے ہیں (نعوذبا اﷲ)

کچھ ایسا ہی رد عمل ساسوں ماں کا بھی ہوتا ہے کہ خود بھی کسی کی بیٹی ہوتی ہے مگر پھر بھی پوتی کے پیدا ہوتے ہی ایسے رونا ڈالتی ہے جیسے کسی نے اتنا بڑا گناہ کر لیا ہو ، یہ جاہلیت ہے۔ اسلام سے پہلے یعنی زمانہ جاہلیت میں لوگ لڑکی کی پیدائش کے بجائے لڑکی کی وفات پر مبارکباد دیتے تھے۔ وہ لڑکیوں کو اس قدر نیچ سمجھتے تھے کہ کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی تو وہ مارے شرم کے منہ چھپائے پھرتا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے، اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ظالم تھے کہ بیٹی کا باپ کہلوانے کے خوف سے اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ قرآن پاک نے ایسے لوگوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے ’’اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے، لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کسی کو کیا منہ دکھائیے گا۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رکھے یا مٹی میں دبا دے (سورہ النحل 58تا59)

لیکن یہ تو زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا حال ہے۔۔۔ بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہیں۔ ہمارے نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے ’’جو شخص 3بیٹیوں یا 3بہنوں کی کفالت کرتا ہے اس پر جنت واجب ہے ‘‘۔ ضروری نہیں ہے کہ 3ہی ہو ں اس سے زیادہ یہ کم بھی ہو تو جنت واجب ہے ۔ نبی کریم ﷺ کے فرمان سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ بیٹیاں والدین کے لیے جنت میں جانے کا ذریعہ ہیں۔۔

بیٹیاں آخرت میں والدین کی بخشش کا سبب بھی ہوں گی ۔ پھر بھی اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ بعض والدین اپنی ہی بیٹیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کرتے ہیں؟ کیوں ان کی پیدائش پر سوگ مناتے ہیں؟ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے ’’تمہاری اولاد میں سب سے بہتر گھر میں رہنے والی لڑکیاں ہیں‘‘۔ مگر اس کے باوجود ہم میں سے اکثر لڑکیوں کو رحمت کے بجائے زحمت اور نحوست کی علامت سمجھتے ہیں۔۔ کیا ہم مسلمان ہیں؟ اگر مسلمان ہیں تو پھر بچیوں کے معاملے میں ہمارا رویہ قرآن و حدیث کے منافی کیوں ہے؟

آج جب ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ،ہم سے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو بیٹی کی آمد کو خوش گوار نہیں سمجھتے بلکہ اس پر رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ تو باقاعدہ آنسو بہاتے ہیں اور مبارک باد کہنے کے بجائے با قاعدہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ لوگ بیٹی کو رحمت کے بجائے زحمت سمجھتے ہیں۔ اسے بوجھ گردانتے ہیں۔ بیٹیوں کو ہر معاملے میں بیٹوں سے کم تر سمجھا جاتا ہے۔ یہ کہ کر کہ انہوں نے پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے۔ آخر کو گھر کے کام کاج ہی کرنے ہیں ، ان کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اچھی خوراک، اچھا لباس اور دیگر ضروریات زندگی میں لڑکیوں کے بجائے لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور بیٹے کی رائے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ آج کا مسلمان زمانہ جاہلیت کے لوگوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں حالانکہ جس گھر میں بیٹی نہ ہو اس گھر میں رحمت نہیں ہوتی۔یعنی بیٹی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رحمت ہے۔ حضورکریم ﷺ کا ارشاد ہے’’جب کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے پاس فرشتے بھجتے ہیں جو کہتے ہیں، اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو پھر اس بچی کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر ہیں اور کہتے ہیں۔ ضعیف ہو۔ ضعیف سے پیدا ہوئی ہو۔ قیامت تک اس کے کفیل کی مدد کی جائے گی۔

ہمیں اپنے اولاد میں بیٹیوں پر چہرے مرجھانے کے بجائے خوش ہونا چاہیے کہ اﷲ نے ہمیں رحمت سے نوازا ہے۔ یاد رکھیں ! کل قیامت کے روز بیٹی پر منہ بنانے اور نا انصافی کا جواب دینا ہوگا اور یہی بچی کا گریبان پکڑے گی اور اﷲ سے اپنے ساتھ رکھے گئے رویہ کا حساب کروائے گی۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1031018 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.