الیکشن کیا آتا ہے غریبوں کے گھر میں چراغاں کا سماں
ہوجاتا ہے ۔امیرزادے دن رات غریبوں ، لاچاروں ، ناداروں اور مزدوروں کے
دروازوں پر نظر آتے ہیں ۔جو اپنے ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے وہ کیچڑزدہ
نالیوں ،گلیوں اور چوکوں چوراہوں میں سے جوتے بچاتے ووٹ مانگتے نظر آتے ہیں
۔غریبوں کے مسائل پردن رات ایک کرکے مہارت حاصل کی جاتی ہے اور جوشیلے
انداز سے جذبات کو بھڑکا کر اپنے حق میں استعمال کیا جاتا ہے ۔چونکہ
جمہوریت پھل پھول رہی ہے لہذٰا اس کے ثمرات بھی دیکھنے کو اب ملتے رہیں گے
۔ہر 5سال بعد اب امیدواران کا چہرہ کم از کم ووٹربغیر کسی پردے کے اپنے
سامنے بیٹھے دیکھ سکتے ہیں ۔وہ جن کی گردنوں میں سریا تھا اب انتخابی مہم
میں وہ بھی جھکتے نظر آتے ہیں اور مختلف حیلوں بہانوں سے ووٹر کے دل میں
اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔عوام بھی بپھری ہوئی ہے اور مختلف جگہوں
پر انتخابی مہم میں امیدواران سے سوالات کرکے ناطقہ بند کررہے ہیں ۔کئی
جگہوں پر تو امیدوار کو بھاگنے میں عافیت نظر آئی ۔
اپنے پچھلے کالم میں امیدوار کی جماعت اور اس کے اپنی سوچ کے حوالے سے بات
کی تھی کہ وہ قوم کے لیے کیا سوچتا ہے؟ ۔آج ذرا امیدوار کے ذاتی کردار پر
بات ہوجائے ۔میری بات سے اگرچہ بعض اختلاف کریں گے لیکن عام شخص اپنی ذاتی
زندگی میں جو مرضی کرے لیکن جب بندہ ایک علاقے یا حلقے کا نمائندہ ہوگا اس
کی زندگی اک کھلی کتاب کی شکل ہونی چاہیے ۔’’کتاب سے مراد یہاں ایم ایم اے
والوں کی کمپیئن نہ سمجھی جائے‘‘۔پہلے نمبر پر تو اپنے حلقے کے امیدواران
کی ایک فہرست بنائیں جن میں ساری جماعتوں اور آزاد امیدوار کے نام موجود
ہوں ۔ان کا شجرہ نسب نکالیے اور پُرکھوں سے کام شروع کیجیے ۔اگر پچھلی نسل
غریب تھی تو دیکھیے یہ بندہ کیسے امیر بنا،اگر امیر تھے تو دیکھیے کہ غریب
کن وجوہات پر ہوئے ۔اس کے بعد اخلاقیات پر نظر دوڑائیں اور ان کا کردار
دیکھیں کہ امراء و غربا کے ساتھ ان کا ملنے کا انداز کیا ہے ۔بچوں کی حالات
زندگی نکالیے اور ان کا رویہ دیکھیں کہ اہل علاقہ کے ساتھ ان کے بچوں کا
سلوک کیسا ہے۔
بدمعاش ،کرپٹ ،راشی ، شرابی و زانی امیدوار کو پہلی فرصت میں ہی فارغ کردیں
کہ جو بندہ اس طرح کی معاشرتی و اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہو وہ کیسے آپ
کے معاشرے کو سدھار سکتا ہے ۔کوشش کریں کہ امیدواران کی تعلیمی قابلیت کے
متعلق معلومات فراہم ہوجائیں۔تعلیم یافتہ امیدوار کو اپنی فہرست میں پہلے
نمبر پر رکھ کر اس کی باقی خصوصیات چیک کریں ۔اگر امیدوار پچھلی بار منتخب
ہوچکا ہے اور وائے قسمت کہ وہ حکومتی اراکین میں بھی تھا تو اس پر ذرا سخت
نظر رکھ کر ماضی کھنگالیں اور جب ملاقات ہو تو حلقہ کے مسائل پر سیرحاصل
گفتگو لازمی کریں ۔آزاد امیدوار پر میری سوچ کے مطابق نظر رکھنے کی اک خاص
وجہ یہ بھی ہے کہ اپنی جماعت کو چھوڑ کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابی
عمل میں حصہ لینے والے جیت کر پھر سے اپنی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں ۔مثلاََ
مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو اس بار ختم نبوت ﷺ اور دیگر مسائل کی وجہ سے
کافی مشکلات کا سامنا ہے تو اس کے بعض امیدواروں نے آزاد حیثیت سے میدان
میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے ۔مثال کے طور پر میرے حلقے میں میاں
عبدالمنان،فیض اﷲ کموکا،شیخ فیاض احمد ،حاجی محمد افضال اور دیگر امیدوار
موجود ہیں تو میں ان کی اپنی پہلی تحریر کے حوالے سے جماعتوں کی نظریاتی
اساس سامنے رکھوں گا ، ان کے نظریات جانوں گا اور پھر ان کی زندگی پر
نظرپھیر کر کوئی فیصلہ کروں گا ۔میاں عبدالمنان مسلم لیگ ن سے ہیں ،فیض اﷲ
کموکا تحریک انصاف سے ہیں ، حاجی محمد افضال پیپلز پارٹی سے ہیں اور شیخ
فیاض احمد کا تعلق اﷲ اکبر تحریک سے ہے جو کہ ملی مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل
بھی ہیں اور حمایت یافتہ بھی ۔میری پسند شیخ فیاض احمد ہیں کہ میں انہیں
ذاتی طور پر اس سے قبل بھی جانتا ہوں اور ان کو پسند کرنے کی وجہ بغیر کسی
سرکاری مدد کے عوام کی خدمت میں مصروف نظرآتے رہے ہیں ۔
عوام کا حق بنتا ہے کہ وہ عوامی نمائندگان سے ان کے فیصلوں بارے بازپرس
کریں۔اور ایک بات کا خیال رکھیے کہ انتخاب والے دن لازمی طور پر اپنا حق
استعمال کرنے کے لیے نکلیں ۔آپ کا ووٹ ہی آپ کی طاقت ہے اس بات کو سمجھتے
ہوئے اپنا ووٹ بہترین امیدوار کو جیت اور ہار سے قطع نظر دیجیے ۔ایک بات
یادرکھیے کہ آپ صرف اور صرف اپنے اور اپنے زیرکفالت لوگوں کے ووٹ کے ذمہ
دار ہیں ۔ہم یہی سوچ کر ہر بار اپنا ووٹ بغیر سوچے سمجھے دوسروں کا کہہ سن
کر دے دیتے ہیں کہ میرے ووٹ سے کون سا معاشرہ سدھر جانا ہے یا شریف و نیک
امیدوار جیت جائے گا۔آپ کا اک ووٹ فیصلہ کن نہ بھی ہو کم از کم آپ کا ضمیر
مطمئن ہوگا ۔اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں
قربان کردیتے ہیں لیکن معیار زندگی کو بہترکرتے وقت ہم تھوڑے سے لالچ کو لے
کرملک و قوم کا ستیاناس کردیتے ہیں ۔خدارا!اس بار اپنے ووٹ کا استعمال
پاکستان کے لیے کرلیجیے تاکہ ہمارے دیرینہ مسائل کا کوئی نہ کوئی حل نکل
سکے ۔
|