اکثر محبت کا نام سنتے ہی سب کے دل اور ذہن میں ایک لفظ
گھومتا ہےجو کہ درد ہے،افسردگی ہے اور پھر بے چینی ،ناکامی اور مسلسل تکلیف
انسان کا مقدر بن جاتی ہے۔ نہ جانے کیوں آج عرصے بعد یہ احساس دِل میں آیا
کہ ۔جب اندھیرا گھُپ ہو جاۓ تو بجاۓ اس کے کہ انسان روۓ، پیٹے اور واویلا
کرے۔ اسے روشنی ایجاد کر لینی چاہیے۔ مگر اس قندیل کو جلانے کے لیے خوابوں
کا تیل لگتا ہے ، ہمت اور جرأت کی بازی لگتی ہے ، جذبات کا خوں ہوتا ہے اور
بے تحاشا خون بہتا ہے۔ کیونکہ جب دل میں گھُٹن ڈیرا ڈالنے لگے تو احساس کی
کھڑکیوں پر سے محبت کے پھول دار پردے اٹھانے پڑتے ہیں ۔ جیسے بے بسی ،
توقعات اور خوابوں سے اکتایا ہوا شخص صبح انگڑائیاں لیتا ہوا اٹھتا ہے اور
تیزی سے کھڑکی پر سے پردے سرکاتے ہی بستر پر گِرتا ہے۔ اور خواب کے وہ سارے
مناظر اپنے ذہن میں پھر سے دُہراتا ہےجس کی وجہ سے اُسکی زندگی میں ہلچل
ہوئی۔ اسی طرح امید کی ٹھنڈی روشنی دِل کے ایک ایک گوشے کو منور کر دیتی
ہے۔ایسی امید جس سے کسی کی زندگی وابستہ ہو یا پھر ایسی امید جو کسی کے قرب
کے ایک لمحے کو ترسے۔۔یہی امید اس کے دل سے وہ سارے غم مٹا دیتی ہے جن سے
وہ چاہتے ہوۓ بھی نہ بچ پاتا تھا۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی تو ہو جاتا ہے
کہ وہی ادھورے خواب رہ رہ کر اسے اذیت دینے آتے ہیں اور جب انسان جھٹ سے
اذیت زدہ خیالات جھٹک دیتا ہے تووہ سارے خوف اسے پھر سے دیکھنے لگتے ہیں
مگر وہ اب ان پر یقین ہی نہیں رکھتااور اس یقین کا نہ ہونا بھی کسی نہ کسی
مہربان کی دین ہوتی ہے ۔یہ بات بھی درست ہے کہ کسی کی بھی محبت کی شدت صرف
اپنے تجربات کی بنیاد پر نہیں پرکھی جا سکتی بلکہ میرا تو اب یہ ماننا ھے
کہ چاہے محبت جتنی بھی شدت ہو اُس میں تھوڑی گنجائش ضرور ہونی چاہیے کہ اگر
محبت روٹھ جائے تو منا لیا جائے اور اگر دور ہو جائے تو صبر کے ساتھ اُس
محبت کو ہمیشہ دِل میں بسا لیا جائے کیونکہ خاموش محبت بھی رب کی ایک خاص
عطا ہے۔
اقصٰی عزیز
|