فقیہ بے بدل،عالم متورع،عابد شب زندہ دار،صاحب علم
وفضل،ذوالمحاسن الکثیرہ سیدی ،سندی ،استاذی،مرشدی حضور شیرنیپال مفتی جیش
محمد صدیقی برکاتی دام ظلہم العالی کی شخصیت اتنی پر کشش ہے کہ وقت کے جلیل
القدر ،اعاظم علمائے اہل سنت ،عالم گیر شہرت یافتہ مشائخ اہل سنت نے
قدرومنزلت سے نوازا،دعاؤں کے خوب صورت پھولوں کی مہک سے آپ کے غنچہ قلب
وجگر کو معطر فرمایا،آپ کی جبیں کی لمعہ وتابانی اور دینی ،ملی خدمات
وکارناموں کو سراہتے ہوئے گراں قدر القاب واعزازات وتمغہ جات سے نوازا۔آپ
کو حوصلہ عطاکرنے والوں ،دعاؤں اورقلبی تأثرات نوازنے والوں میں سادات
مارہرہ واجمیر،مشائخ بریلی ،شیوخ حرمین شریفین ،فضلاء مصر وعمان،ہم عصر
علماء اور مشفق اساتذہ بھی ہیںجنہوں نے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آپ کی
تحسین فرمائی اور آپ کے کارناموں کو قابل تقلید،لائق تبریک وتہدیہ تسلیم
کیا۔
لشکر اسلام
یہ وہ عظیم خطاب ودعاء ہے جس سے آپ کو استاذ افخم ومفخم حضور حافظ ملت
علیہ الرحمہ محدث مبارکپوری بانی جامعہ اشرفیہ نے نوازا اور یاد فرمایا۔جب
آپ جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے تعلیمی سال مکمل کرنے اور دستار و سند فضیلت
کے بعد اپنے وطن نیپال کے لئے پا برکاب ہوئے تو اس وقت خدمت دین کی ذمہ
داری سونپتے ہوئے یہ جملہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی زبان فیض ترجمان سے
بے ساختہ نکلا اور ایسا مقبول ہواکہ تن تنہا وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے
جو کارنامے بہت سے لوگ مل کر بھی اب تک نہیں کرسکے اور آج بھی آپ کی سطوت
علمی اور دینی تصلب کی ہیبت و جلال سے باطل پرستوں کا کلیجہ دھک دھک کرنے
لگتا ہے۔
شیرنیپال
اس لقب سے ہند و نیپال کے بڑے بڑے اکابر علماء و مشائخ اور فقہا ء عظام نے
یاد فرمایا ہے،جن میں سرفہرست حضور نظمی میاں ،علامہ سید عارف صاحب ، علامہ
ارشد القادری ،شیر بہار ،شمس الاولیا وغیرہم ہیں۔اور ایک تاریخ یہ بھی ہے
کہ ۱۹۷۳ ء میں باسوپٹی مدھوبنی ضلع میں میلاد کے موضوع پر سنی اورغیر
مقلدین کے مابین مناظرہ ہونا طے پایا، جس میں ہندو ستان ونیپال کے جید
علمائے اہل سنت شریک تھے۔ اس مناظرہ میں اہل سنت کی طرف سے علماء ومشائخِ
اہل سنت نے آپ کو اور حضور شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق علیہ الرحمہ کو
مناظرمنتخب فرمایا۔ آپ علمائے دیوبند کو للکارتے رہے ،انہیں عار دلاتے رہے
اور پوری رات سامنا کرنے کی دعوت دیتے رہے اور دلائل وبراہین کی روشنی میں
جشن میلاد نبوی کے انعقاد کو ثابت کرتے رہے مگر بزدل علمائے دیوبند اپنے
اند ر تاب مقابلہ پیدانہ کر سکے اور رات ہی رات فرار ہوگئے،اس طرح اہل سنت
کو کامیابی ملی اور اہل باطل کو شکست وہزیمت اور تمام حاضرین عوام پر اہل
سنت کی حقانیت واضح ہوگئی اور بہت سے ایسے لوگ سنی ہوگئے جو وہابیوں اور بد
مذہبوں کے دا م فریب میں آگئے تھے۔اس مناظرہ میں اہل سنت کی طرف سے حضور
شارح بخاری ،حضور بحرالعلوم ، امین شریعت سلطان المناظرین مفتی رفاقت حسین
کانپوری،شیربہار حضرت علامہ مفتی محمد اسلم رضوی مقصود پوروغیرہم جیسے اجلہ
سرخیل علما ء شریک تھے ۔ انہیں علماء کرام نے آپ کو اسی موقعہ پر شیرنیپال
کا خطاب عطا کیااور یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ آج حضور شیر نیپال نام سے
کم اور اس خطاب سے زیادہ عوام وخواص میں متعارف ہیں۔
قاضی نیپال
ربیع الاول ۱۳۹۴ ھ میں آپ نے نیپال میں سب سے بڑی اور تاریخ ساز کا نفرنس
کروایا جس میں کثیر تعداد میں علمائے اہل سنت نے شرکت کی ۔ ان شرکت کرنے
والے مشائخ و علماء میں حضور سید العلماء سید شاہ آل مصطفیٰ علیہ الرحمہ
بھی تھے اور سب نے آپ کی کار کردگی کو خوب سراہا اور لائق تحسین اور قابل
تقلید کارنامہ بتایا ۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ بھی تشریف فرماتھے آپ نے
اپنے ہونہار شاگرد کے کارناموں پر بے انتہا خوشی کا اظہار فرمایا اور خوب
دعاؤں سے بھی نوازا۔
اس کامیاب اور تاریخ ساز کانفرنس کے بعد پھر مسلمانوں میں اسلامی روح،
ایمانی جذبہ پیدا کرنے کے لئے اور حضور رحمت عالم ﷺ کی محبت و عظمت کا چراغ
روشن کرنے کے لئے ۱۴۰۸ ھ میں شہر جنکپور میں ہی ایک دوسرا تاریخ ساز
کانفرنس کر وایا جس میں ہندو نیپال کثیر علمائے اہلسنت اور اعاظم مشائخ ملت
نے تشریف ارزانی فرمائی۔اس عظیم الشان جلسہ میں شریک فرما تمام علماء و
مشائخ نے اپنے ماتھوں کی آنکھوں سے آپ کی دینی خدمات اور کارافتاء وعہدئہ
قضا کو بحسن و خوبی انجام دہی کا مشاہدہ فرمایا اور پورے ملک نیپال میں اس
فن میں انفرادی اہلیت کا حامل آپ ہی کو پایا تو اس خطاب سے یاد فرمایا اور
عہدئہ قضاآپ کے سپرد کیااور اب تک آپ پور ی ذمہ داری اور جواب دہی کے
ساتھ کار افتاء و قضاء انجام دے رہے ہیں ۔ آپ کے استاذ مکرم حضرت علامہ
مولانا سید محمدعارف حسین رضوی نانپاروی سابق شیخ الحدیث جامعہ منظر اسلام
بریلی شریف اس کانفرنس اور آپ کی فقہی بصیرت اور عہدئہ قضا کی اہلیت و
قابلیت پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
’’یوں تو میں ذاتی طور پر قاضی نیپال سے واقف ہی نہیں بلکہ ان کے علم و حلم
اور ان کی بالغ النظری کا بہت ہی قریب سے عارف ہوں، تاہم فتاویٰ برکات میں
آپ کے جس تبحر علمی کا ثبوت ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اب سے چند سال قبل جب
علمائے اہل سنت کے ایک عظیم اجتماع میں بالاتفاق مولانا کو قاضی نیپال اور
و ہاں کے سب سے بڑے اور شریعت مطہرہ کے ذمہ دار مفتی کے منصب رفیع پر فائز
المرامی کا اعلان کیا گیا تھا وہ آپ کی جزوی صلاحیتوں اور آپ کے زہد و
اتباع شریعت اور انتظامی امور کی بہترین انجام دہی پر منصب درس حدیث میں
آپ کی اعلیٰ کارکردگی جیسی بہت سی خوبیوں کو دیکھا گیا تھا۔ مگر فتاویٰ
برکات نے جنکپور دھام کی اس عظیم کانفرنس میں شریک جملہ علمائے کرام جن میں
یہ گدائے رضوی بھی موجود تھا، سب کے دل باغ باغ کردیئے اور یہ ثابت کردیا
کہ حضرت قاضی نیپال صرف منصب قضاء ہی کے اہل نہیں ہیں بلکہ سرزمین نیپال و
ہند میں امیر شریعت و امیر کاروان اہل سنت ہیں۔آپ نے بہت سے شرعی مسائل پر
اپنی کوششیں صرف فرمائی ہیں جنہیں آپ نے اچھوتے طرز استدلال سے اس قدر صاف
و واضح انداز میں علماء کے سامنے رکھا کہ بالآخر علماء کو نہ صرف یہ کہ
آپ کی تحقیق اور فقہی و کلامی استدلال کو ماننا ہی پڑا بلکہ یہ اعتراف بھی
کرنا پڑا کہ ہماری صف میں الحمد ﷲ اب بھی ایسے حق گو، حق نگر، حق پسند، با
شعور متبحر علماء میں ایک مفتی جیش محمد صاحب صدیقی برکاتی ثم رضوی بھی
ہیں‘‘۔
مفتی نیپال
ملک نیپال میں جو شخصیت مسلک اعلیٰ حضرت کا پرچم لیے کر اور حق و صداقت کا
آفتا ب و ماہتا بن کر چمکی ، جس کی محنت و مشقت اور تگ و دو سے پورے نیپال
میں مسلک اعلیٰ حضرت کا مشن پھیلا اور اعلیٰ حضرت سرکا ر کے فتوں کو تحریر
و تقریر کے ذریعہ عوام و خواص کے بیچ عام کیا اس شخصیت اور باوقار ہستی کا
نام شیر نیپال مفتی جیش محمد صدیقی ہیںاور ملک کے ہر کونے میں آپ کے قلم
حق رقم سے نکلا ہوا فتویٰ پہنچنے لگا اور لوگ مسائل شرعیہ اور حلال و حرام
، نکاح و طلاق اور عقائد و معمولات میں آپ کے دارالافتا کی طرف متوجہ ہوئے
اور آپ نے بڑی خوش اسلوبی سے اس کام کو انجام دینے لگے تو علماء و مفتیا ن
ہند آپ کو مفتی نیپال کے خطاب و لقب اور اعزا ز نے نوازنے اور یا د کرنے
لگے اور اس امر کی شہادت دی کہ اگر نیپال میں کوئی ناشر افکا ر ابو حنیفہ
اور مفتی کہے جانے کا اہل و مصداق ہے تو شیرنیپا ل کی ذات با برکات ہے ، جس
نے حضو رمفتی اعظم ہند کا فیض پا یا ہے، بحرالعلوم مفتی افضل حسین ، حافظ
ملت ، علامہ عبد الرؤف بلیاوی اور بحرالعلوم مفتی عبد المنان جیسے ناز ش
فقہ و افتا اور کہنہ مشق اور مفتی گر نفوس قدسیہ کی خدمت میں رہ کر کار
افتا انجام دینے کا ہنر اور فن حاصل کیا ہے۔ اور تمام علماء و مفتیان ذوی
الاحترام نے آپ کو مفتی نیپال مانا ۔اور نیپال میں آپ کے اثرو رسوخ کا
اعتراف بھی کیا ۔شیر بہار حضرت علامہ مفتی محمد اسلم رضوی ایک مکتوب میں
تحریر فرماتے ہیں جس میں آپ نے حضور شیر نیپال کو مفتی نیپال سے یاد
فرمایا اور آپ کی مقبولیت کو تسلیم بھی کیا۔ملاحظہ ہو مکتوب شیر بہا ر
بنام شیر نیپال:
۷۸۶؍۹۲
حضرت علامہ مفتی نیپال زید لطفہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔عرصہ سے خیریت نہیں معلوم ہو سکی ضرورت
شدیدہ کے باعث عریضہ حاضر خدمت ہے ۔معلوم ہوا ہے کہ کشمیری مسجد کاٹھمنڈو
میں امامت کی جگہ خالی ہے۔اور نظم آپ کے سپر دہے ، اس کے لئے اپنے بڑے ابا
حضرت شیر گجرات مدظلہ کو پیش کر رہا ہوں۔ویسے حضرت شیر گجرات دامودر صادق
علی صاحب کے مدرسہ میں علاوہ طعام و راہ ڈیڑھ سو روپے تنخواہ پارہے ہیں
۔لیکن ان کی دلی خواہش ہے کہ وہ جگہ حاصل ہوجائے۔غالبا آپ کے پاس خط لکھ
چکے ہیں ملا ہوگا۔ہماری بھی گزارش ہے کہ اولیں فرصت میں حضرت شیر گجرات کے
لئے منتخب فرمادیں۔امید کہ جواب سے جلد نوازیں گے، نواز ش ہوگی۔اساتذہ کرام
و احباب اہل سنت و طلباء کرام کی خدمت عالیہ میں ہدیہ سلام مسنون و دعا ئے
مسنون۔فقط والسلام
محمد اسلم رضوی غفر لہ
جامعہ قادریہ مقصود پور اورئی مظفر پور (محررہ ۵؍صفر ۱۳۹۴ھ)
مفتی اعظم نیپال
اسی کانفرنس منعقدہ ۱۴۰۸ ھ میں آپ کو مفتی نیپال کا بھی عہدہ سونپا گیا
جس میں علماء و سادات کرام رونق اسٹیج تھے ۔ملک وبیرون ملک سے آئے ہوئے
تمام سوالات و استفتاء کا جواب بڑی محنت و عرق ریزی اور تحقیق کے ساتھ دیتے
ہیں اور پورے ملک نیپال کے مفتی اعظم ہونے کا سہرا آپ ہی کے سر پر
سجاہواہے اور یہ آپ ہی کو زیب بھی دیتا ہے ۔ کانفرنس میں علماء وسادات نے
مفتی نیپال کا کا تاج آپ کے سر سجایا اوراسی کانفرنس میں آپ کی پہلی کتاب
مجموعہ فتاوی ’’ فتاوی برکات ا ول‘‘ کا اجرا ہوا۔ پھر جب ۱۴۲۸ ھ مطابق
۲۰۰۷ء میں آپ مصر کے سیمینار میں شریک ہوئے تو آپ کی جلالت علمی اور شان
تفقہ کو دیکھ کر علمائے مصر نے آپ کو’’ مفتی اعظم نیپال ‘‘ کے خطاب سے یاد
فرمایا جس کے آپ کے یقینا اہل تھے۔اس خطاب سے نوازنے والی علمی شخصیتوں
میں نبیرئہ اعلیٰ حضرت حضور جمال ملت حضرت علامہ الشاہ محمد جمال رضا صاحب
قبلہ بریلی شریف اور شمس الاولیاء حضرت علامہ مفتی شمس الحق رضوی خلیفہ
حضور مفتی اعظم ہندرحمۃ اللہ تعالی علیھما بھی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے
کہ حضور مفتی اعظم ہندکے پاس ایک مکتوب حضور شمس الاولیاء رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ نے ارسال فرمایا تو حضور شیرنیپال کا تعارف اسی خطاب کے ساتھ کرایا
،چنانچہ اس مکتوب کے اخیر میں حضور شمس الاولیا تحریر فرماتے ہیں:
نیز حضرت علامہ مفتی اعظم نیپال کے بارے میں جو لوگ کہتے ہیں کہ سنی عالم
پر کفر کا فتویٰ دیتے ہیں یہ الزام بے بنیاد ہے۔ مسلک اعلیٰ حضرت پر چلنے
والا اس علاقہ میں ان سے بڑھ کر نہیں دیکھ رہا ہوں‘‘ ۔غور کیجئے جب حضور
مفتی اعظم ہند نے اس مکتوب کو پڑھا ہوگا اور آپ کی خدمات سے آگاہ ہوئے
ہوں گے تو کس قدر خوش ہوئے ہوںگے اور کتنی دعائیں دی ہوںگی کہ ملک نیپال
میں کوئی عاشق اعلیٰ حضرت ہے جو اس مسلک پر پختگی کے ساتھ قائم ہے اور
اعلیٰ حضرت کے مشن کی اشاعت میں شب وروز مصروف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
اس وقت آپ مفتیِ نیپال نہیں بلکہ مفتیِ اعظم نیپال بھی ہیں،جس پر حضور
مفتی اعظم ہند کی رضا بھی شاہد ہے۔
مفتیِ عظیم نیپال
یہ وہ خطا ب ہے جس سے اکثر اہل علم و فن نے یاد فرمایا اور تحریر وخطاب میں
باربار آپ اس سے نوازے جاتے رہے مگر خاص طور پر اس خطاب سے آپ کے استاذ
جلیل حضرت علامہ مولانا سید محمد عارف رضوی شیخ الحدیث جامعہ منظر اسلام نے
نوازااور بارہا اس کے ذریعہ یا د بھی فرمایا۔
محدث نیپال
حضور شیرنیپال کی حدیث دانی وحدیث بیانی اور علم حدیث میں کمال مہارت
وحذاقت کا اعتراف تقریبا تمام اہل سنت کے علماء ومشائخ کو ہے خاص طور پر وہ
اساتذ ہ جنہوں نے حدیث اور اصول حدیث کی کتابیں پڑھائیں انہیں آپ کے تبحر
فی الحدیث کا کافی علم وتجربہ تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ استاذ اپنے شاگرد کے
کمال علم و ہنرسے جس طرح آشنا ہوگا اتنا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پھر
اساتذہ بھی اس کا اعتراف و اظہار کریں تو اس شاگر د کے تبحر فی العلم میں
کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا ۔یہ خطاب وتمغہ بھی آپ کے استاذ حضرت علامہ
مولانا سید محمد عارف رضوی شیخ الحدیث جامعہ منظر اسلام نے ہی عطاکیا۔اور
اس وقت علم حدیث میں آپ کا کوئی مثیل وجوڑنہیں اسی وجہ سے محدث اعظم نیپال
ہونے کا تاج بھی آپ ہی کے مبارک سر پر سجاہواہے جس کی تابانی وچمک دمک سے
ایک جہاں روشن ومنورہے۔
شیر رضا
ملک نیپال میں واحد شخصیت حضور شیرنیپال دام ظلہ العالی والنورانی کی ہے جس
نے مسلک حق مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج واشاعت میں بے مثال قربانیاں پیش کی
ہیں اور اس مسلک پر مخالفین ومعاندین کی طرف سے لگائے جانے والے تمام بے
بنیاد الزامات وپیروپیگنڈوں کا نہایت محققانہ جواب دیتے رہے۔ تحریرو
تقریراور مناظرہ کے ذریعہ یہ بات واضح کرتے رہے کہ یہ کوئی نیا مسلک نہیں
بلکہ مسلک اسلاف کرام اور افکاراسلام کے صحیح ترجمان کا نام ہے ۔ نہایت بے
باکی ، جرأت و شجاعت اور بہادری و بے خوفی کے ساتھ اس مسلک حق کی اشاعت
اور صحیح تصویر پیش کرنے کے اعتراف میں سیدملت ،شہزادئہ حضور سید العلماء
حضرت علامہ مولانا سید آل رسول حسنین نظمی میاں علیہ الرحمہ مارہرہ شریف
نے ’’جلسئہ برکات النبی‘‘ لہنہ شریف منعقدہ ۱۵؍،۱۶؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ ھ
مطابق ۲۰؍،۲۱؍ اپریل ۲۰۱۱ ء میں’’ شیررضا ‘‘ کا عظیم خطاب عطافرمایا۔ اور
اسی جلسہ میں حضور نظمی میاں علیہ الرحمہ نے فرمایا ’’مفتی صاحب آپ اپنا
مشن آگے بڑھاتے رہئے پورا خاندان برکات آپ کی پشت پرہے،آپ کا پسینہ جہاں
گرے گا میرا خون وہاں گرے گا‘‘
مناظر اسلام
یہ عظیم تمغہ صدرالعلماء ،وقار اہلسنت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد تحسین
رضا خاں علیہ الرحمہ بریلی شریف نے ۲۹؍رجب المرجب ۱۴۱۲ ھ میں عطافرمایا
اور آپ کے قلم حق وزبان فیض ترجمان سے نوازا گیایہ لقب اتنا مقبول ہواکہ
تقریبا تمام اکابر و مشائخ نے اس لقب و خطاب سے آپ کو یاد فرمایاہے اور
مناظر اسلام ہونے کا اعتراف کیاہے ۔ دراصل کئی ایک مناظرے میں آپ کو
کامیابی ملنے کے بعد فن مناظرہ میں اپنا لوہامنوانے کے بعد علماء و مشائخ
کو آپ کی تہ دارشخصیت اور وسعت فکر کا اندازہ ہوگیا اور آپ کی شہرت ہرسو
پھیل گئی تو علماء نے کئی ایک القاب وآداب سے نوازنے او ریاد کرنے لگے جن
میں سے ایک خطاب یہ بھی ہے ۔
مجاہد اہل سنت
یہ بات سب پر عیاں ہے کہ حدیث میں ہے کہ جابر و ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ
حق کہناجہادہے۔متمر د و سرکش کی سرکشی ، باغیان مصطفی کی سرتابی کے لئے اگر
کوئی زبان و قلم کا سہارا لیتا ہے اور حق کی تلوار بن کر مخالفین و معاندین
نبی کی بدعقیدگی و گستاخی کی گردن اڑائے تو وہ سب سے بڑا مجاہد اور بطل
اعظم کہلائے گا۔دینی ملی خدمات میں رات و دن کوشاں رہے تو اسے جہاد فی سبیل
اللہ کا درجہ ضرور عطا کی جائے گا ۔ہر کس و نا کس ، عام و خاص ، اور علماء
و مشائخ جانتے ہیں کہ نیپال کی سرزمین پر یہ کارنامہ شیر نیپال نے حضرت
خالد بن ولید کی جرأت و استقلال کا مظہر بن کر بخوبی انجام دیا ہے۔اور یہی
وجہ ہے رئیس القلم ،قائد اہل سنت ، مناظر اعظم حضرت علامہ ارشد القادری
علیہ الرحمہ نے آپ کو شیر نیپال جیسے لقب کے ساتھ مجاہد اہل سنت کے خطاب و
لقب سے بھی یاد فرمایا۔آپ کا مکتوب گرامی ملاحظہ کریں:
۷۸۶
۹۲
شیرنیپال ، مجاہد اہل سنت حضرت مولانا مفتی محمد جیش صاحب دامت برکاتہ
تھدیہ سلام و رحمت ، مزاج گرامی
حضرت مولانا عبد الجبار صاحب منظری کے ذریعہ آپ کی دعوت پہنچی ۔انشاء
المولیٰ تعالیٰ آپ کے اجلاس ۱۴؍نومبر کو میںں شریک ہورہا ہوں ۔اس تاریخ می
۹۱۸نمبر اکسپریس سے دس بجے دن کو میں مظفر پور پہنچوں گا۔از راہ کرم اسٹیشن
پر گاڑی کا انتظام رکھئے گا تاکہ مجھے کوئی تکلیف نہ ہو۔مستعد اور متعارف
آدمی گاڑی کے ساتھ بھیجئے گا۔آدمی سیڑھی پر سامنے موجود رہے۔والسلام
آپ کا مخلص ارشد القادری خادم ادارئہ شرعیہ بہار پٹنہ،۳؍۱۱؍۸۷
برکاتی تاج
خانقاہ مارہرہ مطہرہ ولایت وکرامت کا سرچشمہ اور اولیاء کاملین کی آماجگاہ
و خو ا بگا ہ ہے اسی برکاتی قبہ کے نیچے ہفت اقطاب میں سے ایک قطب آرام
فرماہیں۔ اس خا نقا ہ کے بزر و گو ں کا فیض پو ر ے ہندو ستا ن میں جاری ہے
اور نہ جانے کتنوں کے سروں پر اسی درسے ولایت کا تاج سجایاگیا۔ حضور رحمۃ
للعلمیںصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے خونی رشتہ ہونے کی بناپر اس خانقاہ کے
سجادگا ن کو اہل بیت ہونے کا بھی شرف حاصل ہے اور روحانی علاقہ بھی۔ او ر
وہی روحانی فیض و نسبت بصورت اجازت وخلافت ان خوش نصیبوں کو عطاکی جاتی ہے
جن کے بارے میں ان بزروگوں کا اشارہ ہوتاہے ۔اس خانقاہ کی ایک انفرادی شان
وخصوصیت یہ ہے کہ طلب وفرمائش اور کسی دباؤ یا کسی کی سفارش پر یہ تمغہ
خلافت نہیں دیاجاتاہے۔ان خوش نصیبوں اور فیض یافتہ گان مشائخ مارہرہ میں
ایک مبارک نام حضور شیرنیپال کا بھی ہے جنہیں بیک و قت حضور سید العلماء
اور حضور احسن العلماء علیہماالرحمہ دونوں بزرگوں سے شرف اجازت وخلافت حاصل
ہے۔
رضوی تاج
دنیائے سنت کے عظیم محسن ،پیکر عشق ووفا ،مجدد مأۃ ماضیہ سیدی سرکار اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا علمی وروحانی فیض پورے ملک
وبیرون ملک میں پھیلا ۔ آپ کے بعد آپ کا جانشیں شبیہ غوث اعظم حضور مفتی
اعظم ہند مصطفی رضا خان نامزد ہوئے اور اعلیٰ حضرت قدس سرہ کافیض پورے عالم
اسلام میں پھیلایااور یہی جانشینی ونیابت حضور تاج الشریعہ دام ظلہ العالی
کو حاصل ہوئی ۔ اعلیٰ حضرت کوجو خلافت بزرگوں سے ملی تھی وہی خلافت تاج
الشریعہ نے بطور اعزاز حضور شیرنیپال دامت برکاتہم العالیہ کو دو بار عطا
فرمائی۔ اس طرح سے آپ کوخانقاہ مارہرہ اور خانقاہ بریلی شریف دونوں
خانقاہوں کی امانت کے امین ہونے کا شرف حاصل ہے۔
مدنی تاج
اللہ اللہ ! وہ مدینہ جو ہجرت گاہ پیغمبر آخر الزماں ﷺ ہے ، جو مدفن طہ و
یس ہے ، جو عا شقو ں کے قلب و جگر کی قرار گاہ ، جس کی یا د میں ہر دل
دیوانہ و بے تاب رہتاہے ، جہاں مسجد نبوی، ریاض الجنۃ ، جنت البقیع ،
کھجوروں کی قطاریںہیں ،جہاں فرشتے صبح وشام حاضری دیتے ہیں، جس کی خاک کو
عشاق آنکھوں کا سرمہ تصور کریں، جہاں عشق والے تیز سانس لینا بے ادبی
سمجھیں ، جہاں سر کے بل چلا جائے پھر بھی کمال ادب کا حق ادا نہ ہو پائے ؎
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا
آہستہ سانس لے کہ خلاف ادب نہ ہو
نازک ہے آئینے سے طبیعت حضور کی
اسی مقدس سر زمین پر خلیفہ اعلیٰ حضرت ضیاء ملت حضرت علامہ سید پیر ضیاء
الدین مہاجر مدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی زندگی پیارے آقا ﷺ کے
سایہ کرم میں گزاری اور بار بار زیارت روضہ اقدس سے شرف یا ب ہوتے رہے ۔
آپ کے بعد آپ کے سچے جانشین حضور رحمت عالم ﷺ کا فیض و کرم تقسیم کرنے
لگے ۔جب ذ و ا لحجہ ۱۴۱۳ ھ میں حج بیت اللہ سے فارغ ہو نے کے بعد کعبہ کے
کعبہ روضہ اقدس پر حاضری دینے کی غرض سے مدینہ منور ہ حاضر ہوئے اور سرکار
ﷺ کے روضہ انور کی زیارت سے مشرف ہوتے رہے۔ مدینہ منورہ حاضری کے ایام آپ
قطب مدینہ کے شہزادئہ گرامی باوقار حضرت علامہ سید فضل الرحمٰن مدنی کی
مجلس میں بھی حاضرہوئے جہاں انہوںنے حضور شیر نیپال دام ظلہ العالی کے نور
ولایت کو ملاحظہ فرمایا اور خلافت با کرامت سے نوازا۔
چشتی کلس
بندہ پرور ، بندہ نواز ، محب الفقراء ، غریب نواز ، سلطان الہند معین الدین
چشتی سنجری ہند الولی کی شان کیا کہنے ، آپ کی عطا و بخشش اور جودو نوال
کی بلندیوں تک طائر تخیل و تخمینہ پرواز تک نہیں کرسکتا ۔ جہاں شب و ر وز ،
صبح و مسا اور ہر لحظہ و آن فیض و سخاوت کا دریا رواں رہتا ہے ۔ عشاق و
دیوانگان کشکول عقیدت لئے حاضر در ہوتے ہیں اور شاہ وگدا کاسئہ گدائی
ہاتھوں میں لیکر نظر کرم کے ملتجی رہتے ہیں۔ اور خواجہ ہند بھی بلا تفریق
ہر ایک کی مرادیں پوری کرتے ہیں ۔ آج بھی آپ کی چوکھٹ پر دستک دینے والا
اپنے دامن کو گوہر مراد سے بھرا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور جبین
عقیدت آپ کی سرکار میں جھکاتا ہے ۔ مانگنے کا جو سلیقہ ہے اس کے مطابق جو
سوال کرتا ہے وہ کبھی محروم نہیں رہتا اور رہ بھی کیسے سکتا کہ ؎
خواجہ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
کبھی محروم نہیں مانگنے والاتیرا
ظاہری و باطنی ہر اعتبارسے فیض یافتگان در خواجہ میں حضور شیر نیپال بھی
ہیں ، جنہیں حضور غریب نواز کی دعاؤں اور کرم نوازیوں نے آج اس رفعت و
بلندی سے نوازا ہے کہ ملک کے طول و عرض میں مکار م اخلاق ، علوم ظاہر ی و
باطنی ، بلند ہمتی اور زریں کارناموں میں آپ کی ذات ضرب المثل کی حیثیت سے
جانی پہچانی جاتی ہے ۔ سرکا ر غریب نواز کی بارگاہ میں غلامانہ حاضری دینے
کے لئے جب حضور شیر نیپال دام ظلہم العالی اجمیر معلی پہنچے توسرکا ر غریب
نوازنے کرم فرمایا، اپنی روحانی نسبت سے نوازا اور صاحب سجادہ خادم آستانہ
غریب نواز حضرت مولانا سید محمد علی دام ظلہ العالی نے آپ کو چشتی سلسلے
کی اجازت عطافرمائی۔
نقشبندی شرافت نامہ
مشہور چار سلاسل اربعہ حقہ میں سے ایک سلسلہ نقشبندیہ بھی ہے اور ہند وستاں
میں کثیر تعداد میں اس سلسلہ سے وابستگان بھی ہیں ۔حضور شیر نیپال کو اس
سلسلہ عالیہ کی بھی اجازت و خلافت حاصل ہے اور اس سلسلہ سے نسبت شیخ
المشائخ قاضی اہل سنت دہلی حضرت مفتی محمد میاں ثمر دہلوی دام ظلہ العالی
کے ذریعہ حاصل ہے آپ نے حضرت کو ۲۱؍ربیع الثانی ۱۴۰۶ھ اس تحریر کے ساتھی
خلافت عطا کی’’ خلافت و اجازت اشاعتِ سلسلہ عالیہ متبرکہ نقشبندیہ مجددیہ
ہنگام شام جمعہ دادہ شدہ۔فھو المستعان۔
دعا جو : محمد ثمر دہلوی۔
شیرنیپال حضرت جیش محمد باصفا
رہبر شرع و طریقت بو ضیا کے واسطے
تائید نظمی
حضور سیدالعلماء سید آل مصطفی برکاتی مارہروی نے آپ کو اس وقت خلافت
عطافرمائی جب آپ نیپال کے دورے پر تھے۔حضور شیرنیپال نے ایک عظیم الشان
کانفرنس کا انعقاد کیا اسی میں شرکت کی غرض سے تشریف لائے ہوئے تھے اسی
موقعہ پر خلافت بھی عطافرمائی۔ واپسی کے بعد خلافت نامہ تحریری شکل میں
بھیجنے ہی والے تھے کہ آپ کا وصال ہوگیا۔آپ کے بعد آپ کے جانشیں حضرت
نظمی میاں ہوئے اور آپ نے وہ خلافت نامہ تحریری طور پر عطاکیا اور ان تمام
اوراد ووظائف کی اجازت بھی عطا فرمائی جن کی اجازت حضور سیدالعلماء نے آپ
کو دی تھی۔ اس طرح اصل ونائب دونوں بزروگوں نے آپ کو اپنی خلافت سے نوازا۔
آبروئے نیپال
یہ عظیم اور خوبصورت خطاب آپ کو حضور جمال ملت ، نبیرئہ اعلیٰ حضرت علامہ
جمال رضا خاں بریلی شریف نے عطافرمایا ۔اور اس خطاب سے نوازتے وقت عوام اہل
سنت اور علماء اہل سنت نیپال سے مخاطب ہو کر فرمایا مسلمانو!ایک عالم دین
طریقت میں بھی تمہارا رہبر ہے اور شریعت میں بھی تمہارا رہبر ہے۔ نیز آپ
نے فرمایا کہ شیرنیپال کا دامن پکڑوگے تو مصطفی کی بارگاہ میں غوث اعظم کے
وسیلے سے پہنچوگے ،غریب نواز کے وسیلے سے پہنچوگے اور صرف پانچ واسطوں سے
سلسلہ معمریہ میں حاضر ہوجاؤگے۔
فخر سنیت اور قاضی شریعت
صوفی باصفا ،خلیفہ حضور تاج الشریعہ ، حنیف ملت حضرت علامہ مولانا الشاہ
محمد حنیف قادری علیہ الرحمہ کٹیا وی جن کے قدوم میمنت لزوم کی برکتوں کے
سبب اس قریہ سعیدہ کو مدینۃ العلماء ہونے کا شرف حاصل ہے اور آج سینکڑوں
کی تعداد میں علماء ، حفاظ، خطبائ، شعراء ، ادباء اور مفتیان کرام و مصنفین
عظام موجود ہیں۔ اور ہرسال غالبا پندرہ شعبان کو عرس لگتا ہے جس میں ہزاروں
عقیدت مند کی حاضری ہوتی ہے۔ اسی مقتدر اور عظیم شخصیت نے حضور شیرنیپال کو
فخر اہل سنت اور قاضی شریعت کے خطاب سے یادفرمایا۔ اور اس میں کوئی شبہ
نہیں یقینا آپ جماعت اہل سنت کے لئے ایک عظیم سرمایہ افتخار ہیں ،آپ کی
ذات پر جتنا بھی ناز کیا جائے کم ہے۔اللہ تعالیٰ ملک نیپال کے سنی خوش عقید
ہ مسلمانوں کے سرپر ایسے عظیم قائد کا سایہ دراز فرمائے۔اس خطاب سے حنیف
ملت نے آپ ۲۱؍ ربیع الاول ۱۴۱۱ھ میں یادفرمایا تھا، جب ایک نزاعی مسئلہ
کی نزاکتوں سے نیپال کے علماء و عوام کو آگاہ فرماکر وہاں کے مسلمانوں کے
ایمان کی حفاظت فرمائی ۔چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
فخر سنیت ،قاضی شریعت حضرت علامہ مفتی محمد جیش صاحب قبلہ مدفیضہ الباری نے
اس نازک راہ میں اپنی بالغ نظری ، دینی فراست سے جس ہمت اور حوصلہ کے ساتھ
مسلمانان ہند و نیپال کی قیادت فرمائی ہم ان کے ممنون و مشکور ہیں‘‘
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
العبد العاجز محمد حنیف حنفی قادری
صدر المدرسین مدرسہ مظہر العلوم مقام سسواکٹیا ، ضلع مہوتری (ترائی نیپال)
تاریخ :۲۱؍ربیع الاول ۱۴۱۱ھ
|