ناموں کی تبدیلی کے پیچھے متعصبانہ ذہنیت کار فرما ہے!

احساس نایاب ( شیموگہ،کرناٹک )

2019 کے عام انتخابات سے پہلے پہلے تک موجودہ سرکار اپنی متعصبانہ وفرقہ پرستانہ ذہنیت کی وجہ سے ہندوستان کی قدیم تاریخ اوراس کی تہذیب وتمدن کے نام ونشان کو مٹانے کی ناپاک سازش میں آئے دن کوئی نہ کوئی الٹے سیدھے قانون لاگو کرکے عوام میں انتشار پیدا کرنے کا ایک بھی موقعہ نہیں جانے دے رہی ہے ۔ 2014 سے لیکر 2018 تک کا منصفانہ جائزہ لیا جائے تو بی جے پی سرکار اپنے تمام وعدوں کوپوراکرنے میں ناکام رہی ہے ، جس سے ہندوستان اور ہندوستان کی 125 کروڑ آبادی خسارے میں ہے ، بنا سوچے سمجھے نوٹ بندی جیسے سیاہ قانون کو راتوں رات لاگو کردیا گیا جس کو ٹھیک طریقے سے نہ عوام سمجھ سکی ، نہ ہی آج تک اس قانون سے ہوئے نقصانات کی بھرپائی ہوپائی ہے، نوٹ بندی کا کالاقانون، کالے دھن پرقابو پانے کے لئے لایاگیاتھا،لیکن وہ پوری فلاپ فلم کی طرح نکلا جس کی وجہ سے کالا دھن ضبط ہونے کی بجائے راتوں رات سفید ہوگیا اور وہیں دوسری طرف وقت پہ پیسہ نہ ملنے کی وجہ سے غریب گھروں کے کئی چراغ بجھ گئے ، کسی کی شادی رک گئی تو کسی نے بنا علاج کے دم توڑ دیا اور ہندوستان کی مالی حالت کچھ ہی دنوں میں چرمراگئی اور عزت مآب مودی سے پہلے دنیا بھر کے کسی بھی ملک کے حکمراں نے شاید ہی اس طرح کا جاہلانہ اور بیوقوفی والا فیصلہ لیا ہوگا اور وہ فیصلہ تو تاناشاہی کی جیتی جاگتی مثال تھا، جو تاریخ کے اوراق میں ملک پہ لگے سیاہ دھبے کی طرح ہمیشہ کے لئے درج ہوچکا ہے ۔ اس غلطی کے باوجود ابھی ابھی کچھ اور دیکھنے سننے میں آرہا ہے کہ مودی حکومت 2019 کے شروع ہونے تک ایک اور بدلاؤ لانے کے لئے بے چین ہے اور اس مرتبہ نشانے پر ملک کا مستقبل ، یعنی ہندوستان کے لاکھوں طالب علم ہیں۔ کیونکہ اس مرتبہ پورے اعلیٰ تعلیمی نظام بنیادی ڈھانچے کو ہی بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دراصل اس فسطائی حکومت کامقصوداس کو بدلنا نہیںبلکہ اس تعلیمی نظام پرشب خون مارناہےاوریہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ اس کوبدلنے کی وجہ صرف اورصرف تعلیمی نظام کابھگواکرن کرناہے۔ کیونکہ جہاں تک موجودہ سرکارکامعاملہ ہے توان کی جمبوجیٹ وزارت میں اتنے بڑے بڑے ودھوان ہیں کہ بڑے سے بڑے پروفیسرس اور اسکالرس کو اپنی جملے بازیوں میں الجھا کے رکھ دیں ، دن میں تارے اور ہتھیلی میں چاند دکھا دے،زمین میں دھنسا کر آسمان کی سیر کروادے، اور اب اسی کے چلتے ہماری آج کی پڑھی لکھی سرکار تعلیمی نظام کو بگاڑنے یابزعم خود بہتر بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے ، یو جی سی کو بدل کر ایچ ای سی کانام دیکرپورے تعلیمی نظام کوبدلنے کی تیاری کی جارہی ہے ،اسی طرح آزادی کی خاطر جان نثار کرنے والے مجاہدینِ آزادی کی یادگاروں اوران کے کارناموں کے نام ونشان کو مٹانے کی گہری سازش ہے ، ساتھ ہی 2019 کے انتخابات تک پانچ سالہ دورحکومت کاجھوٹارپورٹ کارڈ تیارکرکےایک بارپھرسے عوام کواپنی جملہ بازیوں میں الجھاکراپنے سنہرے جال میں پھنسانے کی چال چلی جارہی ہے ،ظاہرہے اوریہ سبھی لوگ جانتے ہیں کہ بی جے پی نے ان پانچ سالوں میں کیاکارنامے انجام دیئے ہیں اورنام نہادترقی اوروکاس کے نام پرکیاکیاگل کھلائے ہیں،توجب کچھ نہیں ملا تواداروں،اسٹیشنوں اورمختلف منصوبوں کانام بدلنے کی احمقانہ کارروائی شروع کردی گئی تاکہ ان بے تکے کاموں کواپنے رپورٹ کارڈ میں شامل کرکے بھولی بھالی عوام کواپنے خوابوں کے جال میں پھنساسکے، اوراس کے لئے کانگریس کی حکومت میں جو ادارے اورمنصوبہ سازی کے ڈھانچے بنائے گئے تھے ان کے ناموں میں پھیر بدل کر اپنے سرجھوٹی کریڈیٹ حاصل کرنا چاہتےہیں،جیسے پلاننگ کمیشن کا نام بدل کر نیتی آیوگ کردیا ،ریلوے بجٹ جوکہ ملک کابہت اہم بجٹ ہوا کرتا تھا اسے ختم کرکے عام بجٹ میں ضم کردیا،بہت ساری وزارتوں کوختم کرکے دوسری بڑی وزارتوں میں شامل کردیااوراب یوجی سی جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے کانام بدل کرایچ ای سی کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے۔یہاں پریہ بھی یادرکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کے تعلیمی نظام کومعیاری اوربامقصدبنانے کے لئے مجاہدآزادی اورپہلے وزیرتعلیم مولاناآزادرحمۃ اللہ علیہ کے دوروزارت میں مولاناکے مشورہ پریوجی سی کاقیام عمل میں آیاتھا ۔

کانگریس کو جمبوجیٹ وزارت والی پارٹی کہہ کربدنام کرنے والی بی جے پی نے خوداپنی حکومت میں جمبوجیٹ وزرا ء رکھےہوئی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بی جے پی نے جن جن مدعوں پرکانگریس کوگھیراتھا،جن جن مدعوں پرکانگریس کی مخالفت کی تھی ،آج بی جے پی خود ان ہی کاموں کافائدہ شمارکراکرانہی کاموں کوآگے بڑھارہی ہے ۔کانگریس حکومت کے دور میں ایف ڈی آئی کی پرزورمخالفت کرنے والی بی جے پی نے ایف ڈی آئی بل کوپاس کردیاہے۔آدھارکارڈ کی مخالفت میں سب سے پیش پیش رہنے والے مودی جی نے آج آدھارکارڈ کوتمام چیزوں سے لنک کراکرعام لوگوں کومصیبت میں ڈال دیاہے ۔حدتویہ ہے کہ اگرکسی غریب کے پاس آدھارکارڈ نہیں ہے تواسے حکومت کاکوئی فائدہ نہیں مل سکتاہے۔حقیقت تویہ ہے کہ بی جے پی حکومت کے پاس اپناکرنے کے لئے کچھ توہے نہیں اسی لئے وہ کانگریس کے نقش قدم پرچل کرانہی کے ان کاموں کوآگے بڑھاتے ہوئے اپنی واہ واہی لوٹنے میں مصروف ہے۔حیرت ہے کہ جوچیزیں کانگریس کے دورحکومت میں نقصان دہ تھی،ملک مخالف تھی،آج وہی چیزیں مفیدکیسے ہوگئیں؟ ہائے رے یوٹرن سرکار؟؟؟

دراصل اگرباریکی سے دیکھاجائے تو یہ سب کچھ مودی سرکار کی ناکامی کی واضح دلیل ہے، جو خود سے تو کچھ کرنہیں پارہی ہے لیکن دوسروں کے اچھے کاموں کے نام بدل کر اپنے سرکریڈٹ لینے کوپرتول رہی ہے تاکہ وہ عوام کو بتاسکے کہ 5 سالوں میں انہوں نے یہ یہ کام کئے ہیں بھلے وہ کسی اورہی کے کیوں نہ ہوں، اسی طرح ملک کے پہلے وزیرتعلیم مولانا آزاد کے دور میں قائم کردہ یوجی سی کو بدل کر ایچ ای سی کرنے کی تیاری ہے اور ان موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ایسالگتاہے کہ وہ وقت بھی دور نہیں جب ہندوستان کے دستور کو بدلنے کی کوشش کی جائیگی،کیونکہ جس ملک کا حکمراں اوراس کی پوری جماعت فسطائی ذہنیت اورسنگھی سوچ کی مالک ہو، جس نے بابائے قوم کہلانے والے ہمارے باپو مہاتما گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کواپناہیرومانتے ہوئے اس کی نفرت آمیزسوچ کوفروغ دینے کی کوشش کی ہو ،وہاں پر ان سب کا ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ، ویسے موجودہ سرکار کا مقصد ہی یہی ہے کہ تاریخ کے صفحات سے ہندوستان کے تمام مجاہدینِ آزادی اور ان سے ان کے ناموں سے جڑی تمام نشانیوں ،ان سے منسوب تمام یادگاروں کے نام و نشان مٹاکر انکی جگہ اپنی سنگھی چھاپ چھوڑنا چاہتے ہیں ، جس کے لئے یہ کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرینگے۔ حالات حاضرہ پرنگاہ رکھنے والے واقف ہوں گےکہ چند ماہ قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لگی محمد علی جناح کی تصویر کو ایشوبناکر ہنگامہ مچایا گیا تھا ، اُس سے چند ماہ قبل ریاست کرناٹک میں ملک کی آزادی کے خاطر انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہادت حاصل کرنے والےشہید ٹیپوسلطان کی تصویر کو ہٹانے کی بات کی گئی تھی،کئی شہروں میں مجاہدینِ آزادی کے ناموں کو ہٹاکر سنگھی نام دینے کی کوشش کی گئی ،ابھی حالیہ دنوں میں مسلم اور دلت کو آپس میں لڑوانے کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دلتوں کوریزرویشن دینے کاشوشہ چھوڑدیاجبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ علی گڑھ اور جامعہ ملیہ جیسے قدیم اور نامور ادارے خالص اقلیتی ہیں، پھر بھی یہ بھاجپا کی متعصبانہ ذہنیت کانتیجہ ہے کہ وہ صرف ووٹ بینک کی خاطر ایک دوسرے کو لڑواکر اپنی سیاست کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جے این یو یونیورسٹی کا ماحول بگاڑنے اور مسلمانوں کے خلاف طالب علم کے ذہنوں میں تعصب اورنفرت کا زہر گھولنے کی بہت کوشش کی ،اسلام اورمسلمانوں کے خلاف نفرت کوہوادینے کے لئے جےاین یویونیورسٹی کی انتظامیہ نے اسلامی دہشت گردی کورس قائم کرنے کی بات کی، لیکن بھلاہوسیکولرذہنیت رکھنے والے لوگوں کااورعلماء برادری کاکہ جن کی شدیدمخالفت کی وجہ سے جے این یوانتظامیہ کواپنایہ ارادہ ترک کرناپڑا ،اب جب کہ بی جے پی حکومت ان چیزوں میں کامیاب نہیں ہوسکی تواب انکا رخ یو جی سی کی طرف مڑا ہے، کیونکہ یو جی سی اعلیٰ تعلیمی نظام کو کنٹرول کرنے والا ادارہ ہے جسے مولانا آزاد نے اپنے دور وزارت تعلیم میں قائم کیا تھا اور اسکو ایک طرح سے دیکھیں تو یہ ادارہ اعلیٰ تعلیمی نظام کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے ، جو ابھی تاناشاہی سرکار کے نشانے پر ہے ، دراصل موجودہ حکومت کی ذہنیت انہیں اداروں کو ٹارگیٹ کررہی ہے جسے مجاہدین آزادی اورملک کے معماروں نے اپنے خون پسینے سے پروان چڑھایا۔

ابھی آگے چل کر حکومت کے اس فیصلے سے ہندوستان اور ہندوستان کی نئی نسل فائدہ اٹھائے گی یانقصان؟یہ تو آنے والا وقت بتائےگا لیکن فی الحال دیکھنا یہ ہے کہ تاناشاہ سرکار کی تاناشاہی آخرکس حد تک جائیگی۔
 

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50649 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More