’’جمہوریت ‘‘نے شریعت کا کلمہ بہت دیر سے پڑھا،آخرکار
جماعت الدعوۃنے پاکستان کی سیاست میں قدم رکھ ہی دیا ۔کاش یہ قد م پہلے قدم
پر ہی رکھ لیا جاتا تو آج پاکستان کے حالات یہ نہ ہوتے جس طرح پاکستان ایک
نظریہ اور خالص کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا اس پر اقتدار
کا حق بھی صرف علماء حق کو ہی ہونا چاہیے تھا۔ مگر افسوس کہ ان علماء نے
خود کو نکاح،جنازہ ،حلوہ اورسویوں تک محدود کرلیا۔جس منبر ومسند سے حق کی
آواز گونجی تھی وہاں شریعت کا کاروبار شروع ہوگیا اور اس طرح یہ مملکت
خدادادپاکستان پیشہ قزاقوں کے ہاتھ آگیا جنہوں نے 71سالوں سے اس وطن عزیز
کو اپنا زرخرید غلام بناکر رکھا ہوا ہے ۔اس بات سے انکار بھی نہیں کہ’’
جمہوریت ‘‘مسلمانوں کی طرز حکومت نہیں مگر’’ جمہوریت ‘‘کے سائے میں رہنا
اور’’ جمہوریت‘‘کے قتل پر خاموش رہنا بھی دانشمندی نہیں ۔مجھے حافظ محمد
سعید صاحب کی مذہبی اورسیاسی بصیرت پر کوئی شک نہیں ،بے شک آپ قائد اعظم
محمدعلی جناح ؒکے بعد دوسری بڑی شخصیت ہیں جنہوں نے ہمیشہ پاکستان کے لیے
سوچا ہے ،آپ اسلاف کی نشانی ہیں ۔آپکی عالمگیر شہرت پرکئی سالوں سے
سیاسی،درباری ،سرکاری مفتیان ِآتش چنار کی طرح حسد میں جلتے اورسلگتے رہتے
ہیں ۔مگر ایک شکوہ ضرور ہے ،کہ جس وقت آپ نے کشمیر سمیت دنیا بھر میں بسنے
والے مظلوں مسلمانوں کے حقوق اور انکی آزادی کا علّم اٹھایا تھا،کاش آپ اسی
وقت پاکستان کی سیاست میں بھی قدم رکھ دیتے تو آج یہ صدیوں سے قائم ظالمانہ
نظام حکومت کا جڑ سے خاتمہ ہو جانا تھا ۔بہرحال دیر آئے درست آئے، وقت کا
تقاضا بھی یہی ہے کہ اب پاکستان کی سیاست میں شریف اور امین لوگوں کو شامل
ہونا ہوگا ۔کیونکہ پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ ملک کو دیوالیہ کی حد تک لے
آئی ہے ۔ایک بات جو سب سے اہم اور منفرد ہے کہ جماعت الدعوۃ نے کسی سیاسی
جماعت کا آشرباد حاصل نہیں کیا ،اقتدار کی خاطر ملکی مفادات کا سودا نہیں
کیا ۔معذرت کے ساتھ پاکستان کے اندر وہ بھی مذہبی جماعتیں موجود ہیں جنہوں
نے ’’اقتدار ‘‘کی خاطر اپنے دین ،دھرم تک کا سودا بھی کر لیا اپنے قائدین
کے خون تک کو فروخت کر دیا ۔قصاص لینے کی بجائے ’’اقتدار غلامی‘‘کو قبول
کرلیا ۔پاکستان کے اندر سینکڑوں مذہبی جماعتیں موجود ہیں جو مذہب کے نام پر
جان تو دے سکتیں ہیں مگر مذہبی احکامات پر چل نہیں سکتیں ۔جو اﷲ تعالیٰ کی
حاکمیت اور نظام مصطفیؐ کے لیے ایک اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام نہیں سکتیں
،جن کا کبھی اتحاد ممکن نہیں ۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ بقول مذہبی قائدین
کہ وہ’’سارے اس ملک میں اسلامی نظام کے نفوذ کے خواہش مند ہیں سب یہی چاہتے
ہیں کہ اس ملک میں اﷲ کا قانون اور جناب مصطفیؐ کا نظام ہو‘‘مگر ایک جھنڈے
تلے جمع ہونے کی بجائے سب نے اپنے اپنے ٹینٹ لگائے ہوئے ہیں ۔کیا اگر
پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں کسی ایک شخص کو اپنا امیر مانتے ہوئے ایک ہی
جھنڈے تلے ایک ہی مشن کے لیے جمع ہوجائیں توکیا اس ملک میں نظام اسلامی
نافذ نہیں ہوسکتا؟ملی مسلم لیگ سے دوسری مذہبی سیاسی جماعتیں کیونکر اتحاد
نہیں کر سکتیں؟کیونکہ ملی مسلم لیگ کی سیاست حصول اقتدار کی سیاست نہیں،نفع
بخش کاروبار نہیں بلکہ اسکی بنیاد خدمت انسانیت پر رکھی گئی ہے ۔حافظ محمد
سعید ایک مجاہد ہے حق کا راہی ،دین کا داعی اور اﷲ کا سپاہی ہے جس کی آذان
کفر کے ایوانوں میں شورش برپا کرتی ہے ،جو فراعین کفر کی آنکھوں میں کھٹکتا
ہے کانٹے کی طرح ۔حافظ محمد سعید اور انکی سیاسی جماعت کا آخر ایجنڈا کیا
ہے ؟یہ لوگ چہروں پر سنت رسولؐ سجائے طوفانوں ،سیلابوں اور بارشوں میں
بلاامتیاز رنگ ونسل و مذہب اپنی جانوں پر کھیلتے ہوئے انسانیت کو بچاتے ہیں
،جو پاکستان کی ہر مشکل گھڑی میں ہراول دستے کی طرح تیار ہوتے ہیں،جو دنیا
بھر میں بسنے والے مسلمانوں کی مدد کے لیے عملی طور پر میدانوں میں اترتے
ہیں ،جو پیاسوں سے یہ نہیں پوچھتے کہ وہ ہندو ،سکھ یا عیسائی ہے بلکہ بقائے
انسانیت کے لیے فلاح انسانیت کا کام کرتے ہیں ۔بھارت ،امریکہ سمیت دنیائے
کفران کو دہشت گرد کہتی ہے آخر کیوں ؟آئے دن جماعت الدعوۃ اور انکی ذیلی
جماعتوں پر کیونکر پابندیاں لگائی جاتیں ہیں ؟حافظ محمد سعید کو کس بنا پر
نظر بند کیا جاتا ہے ؟وہ کون سے ملکی مفادات ہیں جو عیاں نہیں کیے جاتے ؟سابقہ
سیاسی حکومتی جماعت نے بلاوجہ حافظ محمد سعید کو نظر بند رکھا انکی ذیلی
تنظیم ’’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ‘‘کو واچ لسٹ میں ڈالا ،فنڈنگ روک دی اثاثے
ضبط کرلیے گئے، اکاؤنٹ منجمد کر دئیے حتی ٰ کہ بلا جواز پاکستان الیکشن
کمیشن نے ’’ملی مسلم لیگ ‘‘کو رجسٹرڈ نہیں کیا۔ بھارت حافظ محمد سعید کو
ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈکہتاہے جبکہ آج تک بھارت اس الزام کا کوئی ثبوت
پیش نہیں کر سکا اور نہ ہی کبھی کر پائے ،بھارت کی حافظ محمد سعید سے دشمنی
کی وجہ ،حافظ محمد سعید کشمیر کی آزادی کی بات کرتے ہیں ،دنیا بھر میں بسنے
والے مظلوم مسلمانوں کے حقوق اور آزادی کی بات کرتے ہیں ۔اس بنا پر بھارت ،امریکہ
اور اسرائیل سمیت تمام کفار کی حافظ محمد سعید سے عناد کی وجہ تو سمجھ میں
آتی ہے مگر پاکستان کے اندر مسلمان حکمرانوں کی حافظ محمد سعید سے دشمنی
قابل تشویش ہے مانتا ہوں کہ ان حکمرانوں کے مفادات سانجھے ہیں ۔ملی مسلم
لیگ نے پاکستانی سیاست میں ہلچل برپا کردی ہے ۔بڑے بڑے سیاسی شعبدہ باز
اضطراب کا شکار ہوچکے ہیں ۔کیونکہ ملی مسلم لیگ کی حمایت یافتہ جماعت تحریک
اﷲ اکبر اپنی جماعت کا نہیں بلکہ پاکستان کا الیکشن لڑ کر دشمن قوتوں کی
مداخلت کے راستے بند کررہی ہے حافظ محمد سعید صاحب کا کہنا ہے ۔کہ وہ
پاکستان کو غلامی سے نجات دلا کر خود مختار بنائیں گے ،اس ملک میں بیرونی
فیصلے مسلط نہیں ہونے دینگے کیونکہ داخلہ وخارجہ پالیسی آزاد اور وسائل پر
اعتماد سے ہی ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے ۔الیکشن ہوتے رہے ہیں اسمبلیاں بنتی
رہیں ،حکومتیں بنتی رہیں لیکن عوام کے مسائل حل نہیں ہوئے ،بلکہ بڑھے ہیں
اور بڑھتے ہی جارہے ہیں ،پاکستان کے دشمن اپنے ایجنڈے پورے کر رہے ہیں ۔پاکستان
عدم استحکام سے دوچار ہوچکا ہے ۔ہر جیتنے والی پارٹی امریکہ کی غلامی کا دم
بھرتی ہے اور پاکستان کو مزید غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیتی ہے قر ضے اپنے
لیے لیتی ہے جو ملک پر استعمال نہیں ہوتے ،سود کی قسطیں عوام کا خون
ٹیکسزکی صورت میں نچوڑکر دیا جاتا ہے ۔اپنی تجوریاں بھری جاتی ہیں ۔ہم
پاکستان کو امریکہ کی غلامی سے آزاد کروانے کے لیے نکلے ہیں ۔ہم مزدور کے
حقوق کے لیے نکلے ہیں ۔ٹیکسوں کے نظام کے خاتمے کے لیے سیاست میں آئے ہیں ۔تاکہ
’’میرے ایک بھی ہم وطن کے لیے حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو‘‘ہم اپنے
کسانوں ،تاجروں ،صنعتکاروں کو بہتر مستقبل کے لیے ماحول مہیاکریں گے ۔ہم
پاکستان کی تکمیل اور نا قابل تسخیر بنانے کے لیے میدان سیاست میں اترے ہیں
۔ہمارا الیکشن پاکستان سے نہیں بلکہ ہندوستان سے مہم چل رہی ہے اور ہماری
کامیابی کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ بھارت چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ملی
مسلم لیگ چھاجانے والی جماعت ہے اور یہ واحد جماعت ہے جس کو رجسٹرڈ ہونے سے
پہلے امریکہ نے پابندی لگادی ہے ۔آخر میں ملی مسلم لیگ 2018کے الیکشن میں ،ملی
مسلم لیگ کے امیدوار بہت زیادہ سیٹیں جیتیں گے یا نہیں یہ الگ بات ہے ،مگر
ملی مسلم لیگ نے پاکستان کی 71سالہ سیاسی تاریخ میں بھونچال پیداکرکے ،عوام
کا شعور بیدار کردیا ہے ۔ملی مسلم لیگ کا مستقبل تابناک ہے۔
نکلے جو مجاہد کے لب سے وہ چیز ہی دیگر ہوتی ہے ۔ کہنے کوتو ہم بھی کہتے
ہیں ہر مسجد میں تقریر بہت
|