چچا محترم مولانامحمد ابراہیم ندوی نہیں رہے، ایک سایہ
دار درخت تھا جوچھن گیا، دنیا اندھیری ہو گئی ۔ مجھ پر چچا جان کے بے شمار
احسانات تھے۔ بچپن سے لے کر اب تک جن شخصیتوں نے مجھے اپنی بے پناہ محبتوں
سے نوازا ،انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، ان میں سے ایک چچا جان بھی تھے۔ آج وہ
اس دنیا میں نہیں رہے، توایسا لگا ،جیسے سچ مچ آج میں یتیم ہو گیا ، موت کا
ایک دن معین ہے اور کسی کو بھی اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا ہے؛لیکن کچھ
لوگ ایسے ہوتے ہیں ،جو دیر تلک دل و دماغ میں محفوظ رہتے ہیں،ان کی محبت،
سر زنش، ڈانٹ ڈپٹ ہماری زندگی کا حصہ ہوتی ہیں ، وہ اچانک نظروں سے اوجھل
ہو جائیں ،تو دماغ کام نہیں کرتا، زبان گنگ ہو جاتی ہے، ہم چاہ کر بھی کچھ
بیان نہیں کرپاتے۔
میرے لیے چچا جان کا انتقال بھی ویسے ہی ہے ، دکھ، تکلیف تو صبر آزما ہوتے
ہی ہیں ، مگر اس حادثے نے ذاتی طور پر میرا بڑا نقصان کیا ،اس جاں کاہ خبر
کی اطلاع ملی ،تو یقین ہی نہیں آیا،آنکھیں خود ہی اشکبار ہوتی چلی گئیں،
میں بشریٰ،طہ، حمیرہ، سلمان، فاطحہ اور دیگر بھائی بہنوں اور متعلقین کو
کیا تسلی دیتا میری حالت تو خود ہی غیر تھی، یقین ہی نہیں آتا کہ چچا جان
ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں، ایسا لگ رہا ہے، جیسے میں ابھی بھی فون پر
ان سے بات کر رہا ہوں اور وہ مجھے کئی مشورے دے رہے ہیں، پڑھائی لکھائی اور
کیرئیر کے بارے میں کچھ بتا رہے ہیں ، بہت سے مسائل ،جو میں کسی سے شیئر
نہیں کرتا، چچا جان سے بلا جھجھک بیان کر دیتا تھا، کئی باتیں میں ابا سے
نہیں کہہ پاتا ،تو پیغام رساں چچا جان ہی بنتے۔
ابھی رمضان سے قبل بھائی جان کی شادی میں گھر گیا تھا، تو چچا جان سے بھی
ملاقات رہی ، کمزور ،ہو گئے تھے؛ لیکن طبیعت بشاش نظر آ رہی تھی ، کینسر نے
حملہ کر دیا تھا، دوا جاری تھی، ہم سب خدا سے پر امید تھے کہ سب کچھ جلد
ٹھیک ہو جائے گا؛ لیکن ہونی کو کون ٹال سکا ہے ،وہی ہوا ،جس کا اندیشہ تھا،
چچا جان نے9 جو لائی 2018 کو ہمیشہ ہمیش کے لیے آنکھیں موند لیں اور اپنے
پیچھے ہم سب کوروتا بلکتا چھوڑ گئے۔
میرے ساتھ چچا جان کابہت گہراکا رشتہ تھا،ایک چچا کا اپنے بھتیجوں اور
بھانجوں کے لیے خاندانی تعلق تو ہوتا ہی ہے؛ لیکن ایسے کم ہی لوگ ہوتے ہیں،
جنھیں باضابطہ کسی کی سرپرستی ملتی ہے اور وہ اسے نبھاتے بھی ہیں،جوائنٹ
فیملی کی اس خصوصیت سے بہر حال انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں بچے کی
پرورش و پرداخت میں بہتوں کا رول ہوتا ہے اور گھریلو ماحول پڑھے لکھے اور
سمجھدار لوگوں کا ہو، تو اس کے اثرات بچے کی شخصیت پر بھی پڑتے ہیں، مجھے
گھر میں جو مثبت ماحول ملا ،اس میں چچا جان کا بھی اہم حصہ تھا۔
چچا جان سے مجھے ہمیشہ شفقت و محبت اور خوب لاڈ پیار ملا، آج میں جس مقام
پر بھی کھڑا ہوں اور لکھنے پڑھنے کی جو کچھ بھی تھوڑی بہت شد بد میرے اندر
ہے، اس میں چچا جان کا کرداربہت اہم ہے،عربی کی ابتدائی کتابیں تمرین النحو،
تمرین الصرف، قصص النبیین، القراء ۃ الراشدہ اور معلم الانشاء کی دو جلدیں
میں نے چچا جان کی نگرانی میں ہی ختم کیں،وہ بھی کسی کلاس یا درجہ میں نہیں،
گھر پر ہی انھوں نے ہنستے کھیلتے یہ سب پڑھا دیا،ان دنوں مجھے ان کا یہ
انداز بہت برا لگتا تھا ، گھر میں جدھر سے بھی آتے کتاب لیکر بیٹھو ، میں
اِس کمرے سے اُس کمرے بھاگا پھرتا ، کبھی دروازے کے پیچھے چھپ جاتا ؛لیکن
کوئی نہ کوئی انھیں بتا ہی دیتا اور مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی کتاب لے کر ان
کے ساتھ بیٹھنا ہی پڑتا ۔
چچا جان لکھنؤیونیورسٹی اور دارالعلوم ندوۃ العلما کے پر وردہ تھے، توان کی
سوچ اور فکر بھی قدیم اور جدید کا سنگم تھی، میری بہت سی باتوں سے گھرمیں
بہتوں کو اختلاف ہوتا،کچھ برگشتہ ہو جاتے اورکئی شکوہ کناں رہتے؛ لیکن چچا
ہی تھے ،جو میری ہمیشہ حما یت کرتے اورسب کے سامنے ڈٹ جاتے،اپنے بڑے بھائی
یعنی ابا جان سے انھوں نے کئی مرتبہ میرے لیے ڈانٹ بھی کھائی کہ تم ہی اسے
شہ دے دے کر بگاڑ رہے ہو،چچا جان مسکراتے اور کہتے آپ ایسا سمجھتے ہیں،مگر
ایسا ہے نہیں، آپ دیکھئے گا یہ سب سے اچھا کرے گا ۔
پتہ نہیں چچا جان کو کیا عجلت تھی اتنی جلد جانے کی،ان کے جانے کے بعد اس
بات کاشدت سے احساس ہوا کہ یہ دنیا واقعی ایک مایا جال ہے، جس کے پیچھے ہم
دوڑتے چلے جا رہے ہیں، دنیا جہان کی بے ایمانیاں کر رہے ہیں، کینہ کپٹ بغض
و انا پال رہے ہیں، لڑائی، جھگڑا شکوہ شکایت جانے کیا کیا کر رہے ہیں ،اس
بات سے بے خبر کہ ایک دن مرنا ہے اور بالکل خالی ہاتھ جانا ہے، چھوٹے ابو
کو ان چیزوں سے کبھی کوئی مطلب ہی نہ تھا، وہ کبھی بھی ایسی باتوں کو اہمیت
نہیں دیتے تھے؛ اس لیے انھوں نے زندگی بھی درویشانہ گذاری۔
سادہ سپاٹ زندگی، نہ کوئی تام جھام، نہ ٹیپ ٹاپ، معمولی کھان پان، نہ کوئی
آن بان،نہ گاڑی گھوڑا، وہی پرانی ٹوٹی سائیکل، جہاں جانا ہوا نکالی اور چرر
مررکرتے چل دیے،زیادہ مسافت تو پیدل ہی طے کرتے،چچا جان کی یہی سب سے بڑی
خصوصیت تھی ، کبھی ان سے کسی کی لڑائی بھڑائی ہوئی ہو نہیں سنا ، بہت بھولے
بھالے انسان تھے ، ان کے بھولے پن پر کبھی کبھی ہم بچے ان کا مذاق بھی
بناتے ؛لیکن چچا جان صرف مسکراتے اور کہتے ہاں بھئی! اب ہم لوگوں کا زمانہ
گیا، اب تم لوگوں کا ہی زمانہ ہے ، ہنس لو! ایک دن روؤگے اورآج ہم سچ مچ رو
رہے ہیں ۔
چچا جان نے اپنی عملی زندگی کا آغاز مدرسہ میں مدرس کی حیثیت سے کیا، کئی
جگہوں پر تعلیمی خدمات انجام دیں اور علم و عرفان کے موتی بکھیرے۔ ہندوستان
بھر میں ہزاروں کی تعداد میں ان کے شاگرد علوم دین کی اشاعت اور تعلیم و
تعلم میں مشغول ہیں ، چچا جان موڈی قسم کے انسان تھے،جو کچھ بھی کرتے ،اپنی
مرضی سے کرتے اور کوئی کچھ بھی بولے ،اس کا ان کی شخصیت پر اثر نہیں پڑتا
تھا، پتہ نہیں کیا ہوا یا اپنے وطن کی یاد انھیں ستانے لگی ، اچانک ایک دن
انھوں نے تدریس کا پیشہ بھی ترک کر دیااور سب چھوڑ چھاڑ تنگن گنڈی بھٹکل سے
وطن واپس لوٹ آئے اور معمولی تجارت ،جس میں چھوٹے موٹے الیکڑانک سامان اور
کھلونے وغیرہ ہوتے بیچنے لگے،ان سے جو آمدنی ہوتی ،روزی روٹی اور گذر اوقات
کا ذریعہ بنتی ۔
تدریسی خدمات انجام دینے سے قبل گھڑی ساز کے طور پر بھی چچا جان نے کام
کیا، روزی روٹی اور رزق حلال کے لیے چھوٹے موٹے کام کو وہ معیوب نہیں
سمجھتے تھے، کئی مرتبہ میں سوچتا !آخر اس قدر قابل انسان خود کو اتنے پست
مقام پر کیسے لا سکتا ہے؛ لیکن چچا جان کی وہ مجبوری تھی، کسی کے آگے ہاتھ
پھیلانا یا ضمیر کا سودا کرنا انھوں نے سیکھا ہی نہ تھا، اپنی بساط بھر
بچوں کا اچھے اسکولوں میں داخلہ کرایا، دو بچوں طہ (بڑا بیٹا)اور بشریٰ
(بڑی بٹیا) کو اپنی نگرانی میں حفظ قرآن مکمل کرایا، بشریٰ دسیوں سال سے
گھر کی خواتین کو تراویح پڑھاتی ہے، اکثر کہا کرتے رزق کا مالک اللہ ہے ؛
اس لیے کوئی بھی غلط کام کبھی نہیں کرنا اور نہ کبھی مایوس ہونا،کئی مرتبہ
میں جاب وغیرہ نہ لگنے کا دکھڑا سناتا ،تو یہی کہتے اور ہمت دلاتے ۔
جس چیز کو خوشحالی کہتے ہیں ،چچا جان کو کبھی نصیب نہ ہوئی، طالب علمی کی
زندگی بھی عسرت میں گذری اور بعد کی زندگی بھی اسی طرح مشکلوں اور جد و جہد
میں گذرگئی، بچپن ہی میں والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، بڑے بھائی
،یعنی ابا جی کی سرپرستی حاصل ہوئی، جن کی مالی حالت ابتدائی دنوں میں خود
ہی پست تھی، وہ تو بعد میں ابو کی جب نوکری لگی ،تو گھر میں بہت خوشحالی
آئی اور ہم بہن بھائیوں نے شاہزادوں کی سی زندگی گذاری؛ لیکن ابو اور
چچاؤوں کا بچپن تو بہت دکھ میں گذرا،چچا کبھی اپنے بچپن کے قصے سناتے، تو
جذباتی ہو جاتے، زیادہ تر وہ ایسی باتیں بتانے سے کتراتے ،ہم ایسی باتیں ان
سے بڑے یعنی اسرائیل چھوٹے ابو سے سنتے، وہ بہت تفصیل سے سب کی کہانیاں
بتاتے، ابھی وہ حیات اور بیمار ہیں، اللہ انھیں صحت و عافیت دے۔
کبھی کبھی ہم بچے کسی اچھی چیز کے لیے گھر میں ضد کرتے یا اودھم مچاتے، تو
چچا جان بڑے پیار سے سمجھاتے اور کئی مرتبہ اپنی زندگی کے مشکل ترین لمحات
کا ذکر کرکے بہلانے کی کوشش کرتے، تب ہمیں محسوس ہوتا کہ واقعی ہم لوگ
شہزاد وں کی سی زندگی گذار رہے ہیں، پھر بھی نا شکری کرتے اورکچھ چیزوں کے
پورا نا ہونے کا رونا روتے ہیں،کبھی ایسی چیزوں کے لیے ہم زیادہ شرارت کرتے
،توکہتے اگر ہم لوگوں کی طرح زندگی گذارنی ہوتی، تو پتہ نہیں کیا کرتے،یہ
چچا جان کا کرب تھا، جو وہ غیر محسوس طریقے سے بیان کر رہے ہوتے ۔
تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد جب بال و پر نکلے اور شادی وغیرہ ہوگئی، تو
چچا جان نے اپنی راہ الگ بنانے کی ٹھانی اور زندگی کے منجھدار میں ہاتھ
پاؤں مارنا شروع کر دیا،ایک بھری پری زندگی کی گاڑی کو کھینچنا آسان نہیں
ہوتا ،وہ بھی بغیر کسی جگاڑ اور سہارے کے ،مگر چچاجان جس چیز کو ٹھان لیتے
کر گذرتے ،اپنی اس گاڑی کو کھینچنے کے لیے انھوں نے گھر سے دور افتاد ہ
گاؤں ندوہ کی شاخ بنا پیڑھی میں واقع دارلعلوم اورپھر کرناٹک مدرسہ عربیہ
تعلیم القران تنگنگنڈی بھٹکل تک کا سفر کیا،مجھے دونوں جگہ ان کے ساتھ کچھ
وقت گذارنے کا موقع ملا، مشکلوں میں جینے اور صبر و شکر کے ساتھ رہنے کا
ہنر چچا جان نے بچپن ہی میں سیکھ لیا تھا، جوبیماری اور بعد کے ایام تک بھی
جاری رہا، بچوں سمیت ہم سب کو بھی اسی کی ترغیب دیتے۔
وہ آس پاس کے دیہاتوں میں کھلونے وغیرہ بیچنے جاتے ،تو کسی رشتہ دار کے
یہاں ٹھہرنا پسند نہیں کرتے تھے ، پوچھنے پر کہتے بلا وجہ میرے جانے کے بعد
لوگ اہتمام کرنے لگتے ہیں ؛مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا ، ابھی گذشتہ سے
پیوستہ سال کی بات ہے ، میں بقرعید کے موقع پر دہلی سے گھر جا رہا تھا ،
ٹرین صبح پانچ بجے رانچی اسٹیشن پہنچی ،صبح کے چھ بجے گاؤں کے لیے مجھے
ٹرین پکڑنی تھی ، میں اپنا سامان اٹھا ئے ٹرین کی اور جانے لگا ، دیکھا تو
ایک بنچ پر چچا جان سو رہے ہیں، مجھے یقین ہی نہیں آیا ، ایسا لگا جیسے میں
گاؤں کی یادوں میں بسا ہو ا ہوں؛اس لیے مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے؛لیکن جب
ذرا قریب گیا، تو معلوم ہوا کہ سچ مچ وہ چچا جان ہی تھے، میں نے ادب سے ان
کے پاس جاکر سلام کیا ،تو وہ ہڑ بڑا گئے، کہنے لگے’ ارے ! علم اللہ ، تم!
‘میں نے کہا ’ہاں چھوٹے ابو ! مگر آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ؟‘ تو انھوں نے
بتایا کچھ کام سے رانچی آیا تھا ،دیر رات ہو جانے کی وجہ سے گاڑی نہیں ملی
،تو اسٹیشن پر ہی رک گیا ، میں نے کہا ،اسرائیل چھوٹے ابو کے یہاں چلے جاتے
(رانچی میں ایک اور چچا کا گھر ہے) وہاں تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی ،تو پھر
انھوں نے وہی بات دہرائی’ مگر وہ لوگ پریشان ہو جاتے نا !‘ چچا جان کی یہی
سادگی انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھی ۔
بڑوں کا احترام ہم نے چچا جان سے ہی سیکھا ، اتنے بڑے اور بال بچے داروالے
ہو جانے کے باوجود ہم نے چچا جان کو کبھی اپنے بڑے بھائیوں ،جن میں اسرائیل
چھوٹے ابو اور میرے ابا جی شامل ہیں سے اونچی آواز میں بات کرتے ہوئے نہیں
دیکھا ، ابا جی کا وہ بڑا احترام کرتے تھے ، کہیں دور سے بھی ابا جی کو آتے
دیکھتے، تواحتراما کھڑے ہو جاتے ، ابو لاکھ کہتے بیٹھ جاؤ ! زیادہ تکلف نہ
کیا کرو ؛ لیکن جب تک دوسری کرسی نا آجاتی یا ابا جی بیٹھ نہیں جاتے، مجال
ہے چچا جان بیٹھ جائیں، یہ ان کانرالاانداز تھا اور عمر بھر اس کو نبھایا
اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ بڑے بھائی کا احترام کیسے کیا جاتا ہے ۔
گھر کے اجتماعی فیصلوں میں ان کے خلاف بھی فیصلہ ہو جاتا ،تو بلا چون چرا
اس کو تسلیم کر لیتے ، ایک دن مجھ سے کہنے لگے پیسے کی سخت ضرورت ہے ، زمین
بیچنا چاہتا ہوں ، تمہارے چچا اور تمہارے ابو منع کرتے ہیں ، ذریعۂ آمدنی
کچھ ہے نہیں تو میں کیا کروں؟میں کیا کہتا ! میں نے جان بخشی کے لیے کہہ
دیا، آپ جانیں اور آپ کے بھائی ،میں بھلا اس میں کیا کر سکتا ہوں ۔ کہنے
لگے ؛تم ٹھیک ہی کہتے ہو، کوئی کچھ نہیں کر سکتا ، میں بھی کچھ نہیں کر
سکتا ۔ اس وقت چچا کی بے چینی واقعی دیدنی تھی اور چچا جان ہمدردی کے مستحق
تھے؛ لیکن میرے ہاتھ بھی تنگ اور بندھے ہوئے تھے ،میں ان کی کوئی مدد نہیں
کر سکا ۔
آج میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، تو ان کی ایک ایک باتیں یاد آ رہی ہیں، چچا
جان سے میں نے زندگی کے چھوٹے بڑے بہت سے اصول اور سبق سیکھے، ان سب کا
یہاں احاطہ بھی کرنا نا ممکن ہے،بس دعا گو ہوں کہ اللہ ان کو جنت میں اعلی
مقام دے ، اور ہم سب کو صبر کی توفیق بخشے ۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ وتغمدہ
بواسع رحمتہ واسکنہ فی فسیح جناتہ، آمین۔ |