تحریر: فائزہ خالد، ڈسکہ
اعتبار لکھنے میں محض ایک لفظ ہے لیکن اس کی اصل بہت گہری ہے۔ یہ لفظ جتنا
گہرا ہے اتنا ہی خوبصورت اور حسین بھی ہے ۔اس لفظ کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی
ذات تک منسلک نہیں بلکہ اس کا تعلق ذات غیر سے ہے۔ یہاں ذات غیر سے مراد
کوئی اجنبی نہیں بلکہ کوئی دوسرا وجود مراد ہے، اپنے وجود سے ہٹ کر کوئی
دوسرا وجود یا ذات جو کوئی اپنا بہت اپنا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی
خوبصورت ڈور ہے جس کا ایک ریشہ بھی کھوکھلا ہو جائے تو پوری ڈور کھوکھلی
اور کمزور ہو جاتی ہے۔ بہرحال یہ جتنا خوبصورت تعلق ہوتا ہے اتنا ہی نازک
بھی ہوتا ہے، خوبصورتی پر جب داغ لگتا ہے تو وہ ماند پڑ جاتی ہے بالکل اسی
طرح اعتبار پر جب دراڑ پڑ جائے تو اس کی اہمیت اور خوبصورتی ماند پڑ جاتی
ہے۔
اعتبار کی ایک اور قسم بھی ہوتی ہے مگر یہ ایسی قسم ہے جس کا تعلق بندہ سے
نہیں ہوتا۔ یہ بشر کے بس کی بات ہی نہیں۔ اس اعتبار کا تعلق اﷲ عز و جل کی
ذات سے ہے۔ اﷲ کا اپنے بندے پر کیا جانے والا اعتبار۔ انسان جب دنیاوی
رشتوں کا اعتبار توڑتا ہے تو لاکھ کوشش کے باوجود وہ اعتبار واپس حاصل نہیں
کر پاتا۔ اس کے برعکس جب کوئی مسلمان اپنے اﷲ کی نافرمانی کرتا ہے تو ایک
ہی دفعہ کی گئی سچی توبہ پھر سے اس اعتبار کو پہلے کی مانند مظبوط کر دیتی
ہے۔ اگر انسان اپنی کی گئی توبہ پر قائم رہے تو پھر بندے کی اپنے اﷲ سے کچھ
اس طرح کی نسبت بندھ جاتی ہے کہ وہ اپنے رب کی معارفت کو پہچان لیتا ہے۔ وہ
اپنے مالک کی حقیقت کو جان لیتا ہے یہیں اﷲ کی ذات نے انسان کے لیے رکھا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ پہلے تو کسی انسان کا اعتبار نہیں توڑیں۔ کیوں انسان کا
اعتبار ٹوٹتا ہی نہیں اور بھی بہت کچھ بکھر جاتا ہے۔ اس کے بعد اپنے رب کے
دیے گئے احکامات پر عمل پیرا ہوکر مالک کے ساتھ اپنا تعلق اور مظبوط بنائیں۔
یہیں وہ تو مالک الملک ہم سے چاہتا ہے۔
|