ابو محبت کا سر چشمہ

از قلم: انیلہ افضال
عمر کی دوسری دہائی میں قدم رکھے ابھی چار پانچ سال ہی ہوئے تھے ۔ابھی تو عام لڑکیوں کی طرح لہک لہک کر چلنا سیکھ ہی رہی تھی۔ ابھی تو دوپٹے کو ایک بازو سے اٹھا کر کاندھے پر جمانا شروع ہی کیا تھا۔ صبح اسکول جاتے ہوئے آئینے کو چند منٹوں کے لئے نہارنا اچھا لگنے لگا تھا ۔ نہانے کے بعد دل چاہتا کہ اپنے گھنگھریالے بالوں کو شانوں پر ہی پڑا رہنے دوں۔ آنکھوں میں سرمے کی سلائیاں لگاتے ہوئے چپکے سے تھوڑا س سرمہ آنکھوں کے نیچے بھی صفائی سے جمانا شروع کر دیا کہ اس سے آنکھیں اور بھی حسین لگنے لگتیں۔

ابھی یہ خوب صورت تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہی ہوئیں تھیں کہ امی حضور نے ہمارا مٹک مٹک کر ( جو ہمارے نزدیک لہک لہک کر تھا) چلنا بھانپ لیا اور حکم سنایا کہ سجنے سنورنے کے بجائے گھر داری میں ہاتھ سیدھے کرنے میں ہی ہماری بھلائی تھی۔ اور تو اور والد صاحب نے بھی اس وقت ہمارا ساتھ دینے کے بجائے خاموشی اختیار کرنا زیادہ مناسب سمجھا تھا اور ہم بیچارے جو ابھی نئی نئی ہیروئین بنی ہوئی ہوتیں خود کو ساتویں آسمان پر تصور کرنے لگتی تھیں۔ دھیرے دھیرے زمین کی جانب سرکنے لگے۔

امی نے باورچی خانے کی راہ دکھائی تو ہم نے ابو کے بنکر میں چھلانگ لگائی اور عرضی پیش کی کہ ہم سے روٹیاں ٹیڑھی بنتی ہیں لہٰذا ہمیں اس ظلم سے نجات دلائی جائے مگر یہ کیا ہمیشہ ہماری سائیڈ لینے والے ابو نے بڑی بے رخی سے جواب دیا کہ ’’ میں کھا لوں گا اپنی بیٹی کے ہاتھوں کی ٹیڑھی میڑھی روٹیاں‘‘۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے سرمے سے سجی آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کچھ کہنا چاہا تو ابو نے ہمیں بیچ میں ہی روک دیا ’’بیٹا ٹیڑھی روٹی کھانے سے میرا پیٹ ٹیڑھا نہیں ہوگا۔ تم گھبراؤ نہیں کوشش جاری رکھو‘‘۔

یہ سننا تھا کہ رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔ ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔ ٹی وی پروگرام میں دیکھ کر ہم نے رس گلے بنائے۔ جب ڈونگے میں ڈال کر امی جان کے حضور پیش کئے تو امی جان نے کچھ ایسی باتیں کہیں جن کا ذکر یہاں کرنا مناسب نہیں۔ خیر یہ تو سچ ہے کہ وہ رس گلے اتنے’’ نرم‘‘ تھے کہ اگر کسی کے سر میں مارے جائیں تو اﷲ کی قسم اگر خون نا بھی نکلے تو گومڑ ضرور بن جائے۔

حد تو شام کو ہوئی جب ابو گھر لوٹے تو امی نے رس گلوں کا ڈونگا ابو کے سامنے رکھا اور یوں گویا ہوئیں ’’لیجئے ! آپ کی شیف نے رس گلے خراب کئے ہیں اور اناج کی بربادی ہوئی سو الگ‘‘۔ ابو نے اطمینان سے ایک پتھریلا رس گلہ اٹھایا اور بمشکل اسے چباتے ہوئے بولے ’’ذائقہ تو اچھا ہے بس ذرا سے سخت ہو گئے ہیں۔ اگلی بار بناؤ گی تو ضرور اچھے بن جائیں گے‘‘۔

آج بھی میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ آج بھی جب کچھ اچھا بناتی ہوں آج بھی جب میری کوکنگ کی تعریف ہوتی ہے تو یہ ساری فلم آنکھوں کے سامنے چلنے لگتی ہے۔ تو جناب! یہ ہیں میرا پہلا پیار ، میرے ابو۔ میری زندگی کی ہر اچھائی اور کامیابی کا سہرا میرے اسی ہیرو کے سر جاتا ہے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141522 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.