تحریر: عائشہ عارف، گجرانوالا
’’کوئی بات تب کرتا ہے جب ہم کسی کو بات کرنے کا موقع دیتے ہیں اور ظاہر ہے
جب ایک ہی بات بار بار دہرائی جا رہی ہے تو ہمیں خود پر بھی نظر ڈالنی
چاہیے کہ کہیں وہ کام ہم خود تو نہیں کررہے جو کسی دوسرے کے کرنے سے ہم آگ
بغولہ ہوجاتے ہیں‘‘۔ ’’آپ کہنے کا مطلب ہے کہ ان ماڈلز کو ہم خود یہ دعوت
دیتے ہیں کہ وہ ہمارے کلمے کی توہین کریں۔ اسے اپنے لباس پر بڑی خوبصورتی
سے پرنٹ کروا کر پہنیں‘‘۔ عبداﷲ نے اپنے دوست عارف کی بات پر غصے سے لال
ہوتے ہوئے کہا۔ ’’اور تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ ہمارے پیارے نبی پاک صلی اﷲ
علیہ و الہ و سلم کی شان میں جو گستاخی یہ نان مسلم بار بار کر رہے ہیں اس
کے ہم خود ذمہ دار ہیں‘‘، اس نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عارف کو گھورا۔
’’ہاں بالکل ہم خود ذمہ دار ہیں‘‘۔ عارف نے تصدیق کی۔ ’’بلکہ میں تو کہوں
گا باقی مسلمانوں کو چھوڑیں آپ جو خود توہین رسالت پر ایک بات بھی برداشت
نہیں کر تے، جب اﷲ کے نام کی توہین ہو رہی ہوتی ہے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ
لیتے ہیں‘‘، عارف نے جوابا کہا۔
’’کیا میں؟ آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے کیا بول رہے ہیں۔۔۔؟ میں بھلا ایسا سوچ
بھی کہا سکتا ہوں۔ یار فضول کی بات نہ کیا کریں۔۔۔ میں کبھی توہین اﷲ کا
مرتکب ہوسکتا ہوں ہرگز نہیں۔۔۔‘‘ عبداﷲ نے غصے کے انداز میں وضاحت دی۔
’’میں نے کچھ غلط نہیں کہا۔۔ میں تو آپ کے گھر، محلے اس شہر میں برسوں سے
یہ توہین ہوتے دیکھ رہا ہوں مگر کسی کو احساس ہی نہیں ہے‘‘۔ عارف نے پھر سے
کہا۔ ’’لگتا ہے بھائی تمہاری آج طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب ہے، عجیب بہکی
بہکی باتیں کر رہے ہو، اب ایسا کرو یہاں سے چلے جاؤ‘‘۔ عبداﷲ نے اپنے غصے
پر کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔
’’چلوں گا تو میں ضرور مگر تمہارے ساتھ تمہارے گھر‘‘۔ عارف نے مسکراہتے
ہوئے کہا۔ میرے گھر کیوں؟ میرے گھر میں کوئی اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی توہین
نہیں ہو رہی۔ عبد اﷲ نے حیرت سے جواب دیا۔ ’’ارے ! ویسے چل رہا ہوں۔ کھانا
نہیں کھیلاؤ گے، چائے ہی پلا دو۔۔۔ ‘‘ عارف نے زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا
ٹھیک ہے چلو‘‘۔عبداﷲ کا لہجہ نرم پڑ گیا۔
راستے میں جاتے ہوئے عارف نے کہا ’’بھائی تمہاری تصویر تو بہت خوبصورت آتی
ہے۔ پچھلی بار جب الیکشن میں تم نے بینرز پر تصویر لگائی تھی کیا خوب جچ
رہے تھے‘‘۔ ’’ہاں یار سب ہی تعریف کر رہے تھے‘‘، عبداﷲ نے سینہ چوڑا کرتے
ہوئے کہا۔ اور بینرز بھی تو اتنے بنوائے تھے میں نے ہر ہر گلی محلے میں کئی
کئی بینرز لگے تھے۔
’’خاصی شہرت مل گئی تھی۔ ہر کوئی رک کے دیکھتا تھا بلکہ دوسرے محلوں اور
گاؤں میں بھی لوگ بات کرتے تھے‘‘۔ عارف نے بات کو آگے بڑھایا۔ ’’ہاں یار
جہاں جہاں تک بینرز لگے جان پہچان بھی کوئی خاص نہیں ہوتی مگر پھر بھی لوگ
سلام کرتے ہیں‘‘۔ ’’واہ کیا بات ہے آپ کی تو جناب‘‘۔ ’’یہ شہرت یوں ہی تو
نہیں نہ مل جاتی،ٹھیک ٹھاک پیسہ لگتا ہے میرے بھائی‘‘۔عبداﷲ نے عارف کی
جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آہاں! تو اس بار بھی الیکشن میں بینرز بنوانے کا ارادہ ہے؟ ’’جی بالکل
بنوائیں گے، ہم نے اپنی ٹیم کوٹاسک سونپ دیا ہے‘‘۔۔ ’’اچھا چلو گھر آگیا۔
تم بیٹھو میں کھانے کا کہتا ہوں‘‘۔ ’’رکو جو پچھلی بار الیکشن میں بینرز تم
نے اپنے گھر کی دیواروں پر لگائے تھے اور اسٹیکرز وہ لانا‘‘۔ کیوں ان کا
کیا کرنا ہے وہ تو اب پاس نہیں ہیں‘‘۔ ’’کیوں کہاں گئے۔۔۔ پتا نہیں 2 سال
تک تو یہی لٹکے رہے۔ پھر گندے ہو گئے تو اتار کر پھینک دیے ہوں گے اور
چھوٹے اسٹیکر بھی بہت سے تھے لیکن اب وہ بھی نہیں ہیں‘‘۔
عارف کو دراوزے پر لگا ایک اسٹیکر نظر آگیا۔ ادھر آو عبداﷲ میں بتاؤں ہم
کیسے توہین کرتے ہیں۔ عبداﷲ حیران سا دروازے کی طرف چل پڑا۔ یہ دیکھو اس
اسٹیکر پر تمہاری تصویر کے ساتھ تمہارا نام بھی لکھا ہے۔ تم نے کیسے کیسے
اﷲ نام کی توہین کی ہے۔ یہ دیکھو یہاں ان شاء اﷲ لکھا ہے اور ہر سپورٹر کی
تصویر جو اس ان بینرز پر لگی اس کے ساتھ محمد لفظ لکھا ہے۔ ابھی تم نے خود
کہا کہ تمہارے اپنے گھر میں جو بینرز لگے تھے تم ان کی خبر نہیں کہ وہ کہاں
ہیں۔ گندے ہونے پر پھینک دیے گئے تو (نعوذ باﷲ) تم نے خود اپنے منہ سے کہا
کہ ان پر لکھا اﷲ کا نام بھی گندہ ہو گیا اور وہ بینرز اسٹیکرز اب کسی کچرے
کی زینت ہوں گے۔ کتنے گاؤں اور محلوں میں تم بینرز لگائے وہ سب کہاں گئے۔
ان پر لکھا اﷲ کا نام کہاں گیا؟ کیا یہ توہین نہیں ہے؟
مجھے بس اتنا بتاؤ جب اﷲ پوچھے گا ’’کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟
اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجود اس کے کہ تم کتاب پڑھتے ہو‘‘ ، کیا
اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟ بتاؤ کیا جواب دو گے ۔
عبداﷲ کو خود پہ افسوس ہو رہا تھا کہ جو کام کسی دوسرے کے کرنے پہ وہ حرمت
رسولﷺ پر اپنی جان قربان کرنے کو تیار تھا۔ کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر
نہیں دیکھا کہ سالوں سے تو وہ خود انجانے میں کررہا تھا۔ وہ کچھ نہیں بولا
اور فوراموبائل نکال کر نمبر ملایا اور بینرز بنانے کا جو آرڈر دیا تھا وہ
کینسل کیا۔عارف کے گویا اندر تک سکون اتر گیا کہ اس کی ذرا سی یہ کوشش
رائیگاں نہیں گئی تھی۔
’’عبداﷲ بھائی! ہمیں توہین رسالت کے معاملے میں سخت ہونا چاہیے مگر ایک بات
جو بہت اہم ہے کہ کیا کوئی ہمارے والدین کی تذلیل کرے تو ہم اس تذلیل کو
چھپانا پسند کریں گے یا اچھالنا۔ ظاہر سی بات ہے جگہ جگہ ہمارے والدین کی
توہین ہو یہ ہم پسند نہیں کریں گے۔ لیکن کوئی بھی ایرا غیرا ہمارے نبیﷺ کی
حرمت پر اٹھ کے بات کر دے تو ہم خود اسے شیئر کرتے ہیں۔ وہ غلیظ حرکت جو
غیر مسلم پھیلانا چاہتے ہیں۔ وہ کام ہم خود کرنے لگ جاتے ہیں۔ بجائے اس کے
کہ ہم اپنے دین کی اپنے نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم (نعوذ باﷲ) کی
توہین آمیز تصاویر شیئر کریں اس سے کہیں بہتر ہے اپنے نبی کے اپنے دین کے
اخلاق کردار اوصاف کو نمایاں کریں انھیں اپنے عمل اور زبان سے بھی اتنا
اجاگر کریں۔ ان کفر کے سر گنوں کے منہ خود بہ خود بند ہو جائیں۔ ہمارا
ایمان اتنا مضبوط تو ہونا چاہیے کہ ہم یہ تصاویر دیکھ ہی نہ سکیں کجا اس کے
کہ ہم لوگوں میں پھیلائیں‘‘۔
ہاں یار تمہاری بات بالکل ٹھیک ہے۔ میں نے بھی محسوس کیا ہے کہ حرمت رسول ﷺ
کے نام پر جو احتجاج ہم کرتے ہیں اس سے نقصان تو اپنے ہی ملک کا کرتے ہیں
اور واقعی ہم دشمنان اسلام کے پروپیگنڈے میں آجاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہی یہیں
کہ ہم آپس میں دست و گریباں ۔ میں اس بات کا تہہ کر رہا ہوں کہ اب کے بعد
کبھی بھی کسی ایسی پوسٹ ہرگز شیئر نہیں کروں گا کہ جس میں نبی کریم ﷺ یا
کسی بھی اسلامی شعائر کی توہین کی گئی ہو گئی۔ اﷲ مجھے معاف کرے۔ دونوں نے
یک زبان کہا آمین۔۔
|