جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ عام انتخابات 25جولائی کو ہونے جا
رہے ہیں پولنگ کا روز قریب آتے ہیں اچانک پرامن انتخابی مہم بے گناہ اور
نہتے شہریوں کے سرخ خون سے رنگین ہو گئی ہے دہشت گرد عناصر نے اپنے مذموم
مقاصد کے حصول کے لئے وطن عزیز میں دہشت گردی کی نئی لہر سے خوف و ہراس
پیدا کر دیا نگران حکومت کی یقین دہانیوں سے امید کی کرن پیدا ہوئی تھی کہ
عام انتخابات کا مرحلہ پر امن اور بخیر و عافیت سے اختتام پذیر ہوگا لیکن
ساری خوش فہمیاں دھری کی دھری رہ گئیں سماج دشمن عناصر نے انتخابات سے محض
دس روز قبل پشاور میں دہشت گردی کی فضا بنا کر ثابت کردیا کہ وہ جب چاہیں
جہاں چاہیں بے گناہ شہریوں کے خون سے ندیاں بہا سکتے ہیں دس جولائی کو دہشت
گردوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام ایک کارنر میٹنگ میں پشاور کے
علاقے یکہ توت میں خود کش بم دھماکہ کردیا جس کے نتیجہ میں عوامی نیشنل
پارٹی کے امیدوار ہارون بلور سمیت 22 افراد شہید جبکہ 75 سے زائد زخمی
ہوگئے کارنر میٹنگ کے دوران ہارون بلور کارکنوں سے خطاب کرنے کیلئے سٹیج کی
جانب جارہے تھے کہ اس موقع پر ایک 24سالہ لڑکے نے ان کے قریب خود کو دھماکے
سے اڑادیاخو د کش حملہ آور کارنر میٹنگ میں پہلے سے موجود تھا اور جونہی
خطاب کیلئے ہارون بلو ر کا نام پکارا گیا اس نے ہارون بلور کے قریب آکر خود
کو دھماکے سے اڑا دیا خود کش حملہ اس وقت ہوا جب ہارون بلور کی آمد ہر آتش
بازی ہو رہی تھی واضح رہے ہارون بلور خیبر پختونخوا پی کے 78 سے عوامی
نیشنل پارٹی کے امیدوار تھے، ہارون بلور کے والد بشیر بلور کو بھی 2012کی
انتخابی مہم میں نشانہ بناتے ہوئے ان کو قصہ خوانی بازار میں خودکش حملے
میں شہید کیا گیاتھا ابھی عوامی نیشنل پارٹی کے شہداء کا کفن میلا بھی نہ
ہوا تھا دہشت گردوں نے بنوں میں جمیعت علماء اسلام کے امیدوار برائے قومی
اسمبلی اور سابق وزیراعلیٰ اکرم درانی کے قافلے پر بم حملہ ہوا جس کے نتیجہ
میں پانچ کارکن شہید اور متعدد زخمی ہوئے تاہم متحدہ مجلس عمل کے امیدار
اکرم درانی اس حملے میں محفوظ رہے ہیں ان پہ پہلے بھی چار حملے ہوچکے ہیں
ان پر یہ پانچواں حملہ ہوا ہے جبکہ پولیس اور اداروں نے انہیں سیکیورٹی
خطرات سے آگاہ کر رکھا تھا۔اکرم خان درانی کا تعلق جمیعت علمائے اسلام(ف)
سے ہے جب کہ وہ 2018 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی
کے حلقہ این اے 35 سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے مد مقابل الیکشن
لڑ رہے ہیں سماج دشمن عناصر اور دہشت گردملک عزیز میں انتشار کی فضا بنا کر
اپنے مذموم مقاصد کی جانب بڑھ رہے ہیں ہمارے حکمرانوں انتظامی امور میں
شاہد کوئی کمی یا کوتاہی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی کی وارداتوں میں
مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے 13 جولائی کو بنوں میں دھماکے کے بعد دہشت
گردوں نے بلوچستان کے شہرمستونگ میں بھی بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار
کے قافلے پر خود کش حملے میں پی بی 35 کے امیدوار سراج رئیسانی
سمیت128افراد شہید اور150سے زائد افراد زخمی ہوئے سراج رئیسانی سابق وزیر
اعلیٰ اسلم رئیسانی اور لشکری رئیسانی کے بھائی تھے ،بم ڈسپوزل سکواڈ نے
بھی مستونگ دھماکا خود کش قرار دیا سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی
کے چھوٹے بھائی اور بی اے پی کے انتخابی امیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی
اپنی انتخابی مہم کے دوران قافلہ کے ساتھ درینگڑھ کے علاقے سے گزر رہے تھے
کہ قریب ہی زور دار دھماکا ہوا جس سے ہر طرف بھگدڑ مچ گئی دھماکے میں 16 سے
20 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا24 گھنٹوں میں انتخابی جلسوں پر یہ
تیسرا حملہ تھا،اس سے ایک روز قبل خضدار میں بھی بی اے پی کے دفتر کے قریب
دھماکہ ہوا تھا جس میں دو افراد زخمی ہوئے تھے۔
حالیہ دہشت گردی کی لہر سے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے شر پسند عناصر الیکشن
کے عمل کو متاثر کرنا چاہتے ہیں الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کو ناکام
بنانے کیلئے ممکنہ اقدامات کئے جائیں دہشت گردوں کی بزدلانہ کاروائیاں محب
وطن پاکستانیوں کے حوصلوں کو پست نہیں کرسکتیں، شرپسند عناصر اپنے مذموم
مقاصد میں کسی صورت کامیاب نہیں ہوسکتے،دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے ہر
آنکھ اشکبار اور ملک کی فضا سوگوار ہے پاکستانی قوم ہمیشہ سے صدمات کو
مردانہ وار اور ہمت سے برداشت کرتی آئی ہے یہ واقعات بھی برداشت کر لے گی
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے سیکیورٹی اداروں اور حکومت کو بھی چاہئے کہ
ایسی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا عملی مظاہرہ کریں جس سے ملک میں دہشت
گردی کے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے اس میں بھی کوئی شک و شبہ والی بات
نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ملک اور
قوم کے مستقبل کو روشن کرنے کے درپے ہیں ۔ |