صبا عرف تارا نے آنکھیں کھولیں تو وہ اسی بیڈ روم میں
تھی۔ بی بی جان اس کے سرہانے بیٹھی تھیں اس کو ہوش میں آتے دیکھ کر وہ بڑی
بے تابی سے اس کو چومنے لگیں ۔وہ بار بار جہانزیب نامی شخص کا نام لے لے کر
روتیں۔ صبا کو اس جذباتیت کے طوفان سے گزر کر پتا چلا کہ وہ تارا تھی اور
ان خاتون کی بہو تھی ۔اس نے اپنا میاں جہانزیب ایک ٹریفک کے حادثے میں کھو
دیا تھا۔ اب وہ ان کے خاندان کے چشم و چراغ کی ماں بننے والی تھی ۔صبا بھی
بہت پھوٹ پھوٹ کر روئی ۔اس کو بی بی جان کے گلے لگ کر ماں کا احساس ہوا۔ بی
بی جان نے بتایا کہ ان کا دوسرا بیٹا خاور ایک مشہور و معروف ماہر نفسیات
ہے۔ صبا کے روز وشب بڑے آرام سے گزر رہے تھے ۔خاور بڑے دنوں سے اس کو نظر
نہیں آیا تھا اس لئے وہ بڑے آرام میں تھی ۔آج نماز فجر کے بعد وہ لان میں
چہل قدمی میں مصروف تھی ۔اچانک اس کے ذہن میں مونا شہزاد کی لکھی ہوئی ایک
نظم آئی ۔وہ بے اختیار گنگنانے لگی۔
چارہ گر ! آج تو کوئی نیا خواب دکھاؤ
عجب قال پڑا ہے زمین دل پر
مہیب سا اسناٹا گونجتا ہے
چاروں اور
ایک خلا سا ہے شہر ذات میں
اس لئے میرے مسیحا
جوہر مسیحائی دکھاؤ
کوئی نیا خواب
کوئی نئی امنگ
کوئی نیا ساز
کوئی نئی جہت۔
کچھ تو راہ سجاؤ
ہے عجب سی وقت کی بے نیازی
ہر رشتے،ہر محبت میں ہےخودفریبی
مجھے بھی کچھ خودپسندی سکھاؤ
میرے چارہ گر! کوئی راہ سجاؤ
یہ نیلام کس کی ذات کا ہے؟
لگ رہی ہے بڑھتی ہوئی یہ بولی کس کی؟
ارے! مجھے ان سوداگروں سے بچاؤ
میرے راہبر! کوئی نئی راہ دکھاؤ
اتر جائے روح کی ساری تھکن
میرے پیامبر! کوئی ایسا پیغام سناؤ
کھل جائے مجھ پر بھی عشق کی حقیقت
نعرہ تم بھی منصور جیسا لگاؤ
نظم ختم کرکے بے اختیار وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ اچانک پیچھے سے خاور کی
اکتائی ہوئی آواز آئی ۔کیا صبح صبح نحوست پھیلائی ہوئی ہے؟
تارا ( صبا) ایک دم چونک گئی ۔اس نے اپنے آنسو صاف کئے اور اندر بھاگ گئی۔
اگلے روز اس کا الٹرا ساؤنڈ تھا۔ صبح جب وہ تیار ہوکر نیچے پہنچی تو اسے
پتا چلا کہ بی بی جان کی طبیعت خراب تھی اور آج اسے خاور ڈاکٹر پر لے کر
جائے گا۔ وہ مرے مرے قدموں سے باہر کی طرف گئی ۔ لیڈی ڈاکٹر نے اس کا پہلے
معائنہ کیا پھر الٹرا ساؤنڈ کیا۔ باہر آکر اس نے خاور کو مبارک باد دی اور
کہا کہ اللہ تعالی اسے جڑواں بچوں سے نواز رہا ہے۔ تارا(صبا) ایک دم سے کچی
ہوگئی اور بے اختیار بولی :
ڈاکٹر صاحبہ! یہ میرے دیور ہیں ۔"
ڈاکٹر صاحبہ ان سے معذرت کرکے چلی گئیں اور وہ خجل سی گاڑی میں بیٹھ گئی
۔گھر جاکر بی بی جان کو جب یہ خوشخبری ملی تو وہ خوشی سے جھوم اٹھیں ۔انھوں
نے بڑے پیمانے پر ایک دعوت کی تیاری شروع کردی تاکہ وہ پورے شہر کے آگے
تارا کو بطور بہو کے پیش کرنا چاہتی تھیں۔
دعوت کی رات انہوں نے تارا(صبا) کو بیش قیمت کپڑوں اور زیورات سے آراستہ
کیا ۔تارا ان کی بے لوث محبت کے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت شکرگزار تھی ۔محفل
میں سجے دھجے لوگوں نے اس کی شان بڑھا دی تھی ۔تارا(صبا) کا رنگ روپ آف
وہائٹ کپڑوں اور بیش قیمت زیورات میں دمک رہا تھا ۔پھر ماں بننے کا ایک
اپنا حسن اس کے چہرے پر رقصاں تھا ۔اچانک سامنے سے خاور کے ساتھ آتے ایک
اجنبی کو دیکھ کر اس کے دل کی دھڑکن بے تال ہونے لگی ۔اجنبی بھی اس کو دیکھ
کر ٹھٹھک گیا ۔خاور نے اس کا تعارف اپنی بیوہ بھابھی کے طور پر کروایا اور
اس اجنبی کو ڈاکٹر عمران کہہ کر تعارف کروایا ۔تارا( صبا) کا دل بہت زور
زور سے دھڑک رہا تھا۔ ایسے میں بی بی جان کی آواز گونجی :
میں اپنی بیوہ بہو تارا کو خوش آباد دیکھنا چاہتی ہوں۔ اس لئے جہانزیب کی
زندگی میں میں جسے بطور بہو کے اپنا نہ سکی اس غلطی کو سدھارنے کے لئے اس
کو میں اپنے چھوٹے بیٹے خاور سے منسوب کرنے کا اعلان کرتی ہوں۔"
پوری محفل تالیوں سے گونج اٹھی اس محفل میں صرف تین لوگ ششدر کھڑے تھے۔
خاور ، ڈا کٹر عمران اور تارا( صبا)۔
(باقی آئندہ )۔ |