چناب نگر(سابقہ ربوہ)کیا ہے

چناب نگر (ربوہ) کا قیام: 14اگست1947کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا ،قادیانیوں نے سب سے پہلے اپنی جماعت کا مرکزی خزانہ بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان منتقل کردیا ۔پھر مستورات کو بسوں کے ذریعے لاہور بھجوایا ۔یہاں تک کہ اگست 1947 میں مرزا بشیرالدین محمود بھی قادیان چھوڑ کر لاہور چلے آئے ۔

چناب نگر (سابقہ ربوہ) جس جگہ آباد ہے اس جگہ کا پرانا نام ’’چک ڈھگیاں‘‘ تھا، تقسیم ہند کے وقت اس وقت کا قادیانی خلیفہ جب اس ’’قادیان‘‘ سے سکھوں کے ڈر سے بھاگ کر پاکستان آگیا جسے یہ ’’قادیانی دارالامان کہتے تھے تو سر ظفر اﷲ خان کی کوششوں سے اس جگہ کو قادیانی جماعت کے لئے لیز پر دیا گیا،بعد ازاں اس جگہ کا نام ’’ربوہ‘‘ رکھا گیا، یہاں باقاعدہ قادیانی آباد کاری کا افتتاح مورخہ 20 ستمبر 1948 کو ہوا، اس موقع پر پانچ بکرے بھی ذبح کیے گئے، اور پھر ہر کونے کھدرے سے قادیانیوں کو لاکر یہاں آباد کیا گیا اور کسی بھی مسلمان کے لیے یہاں زمین حاصل کرکے گھر بنانا ممنوع قرار دیا گیا، یوں یہاں ریاست کے اندر ایک ریاست بنائی گئی،اس وقت چناب نگر شہر(سابقہ ربوہ) کا آباد رقبہ تقریباً 24 مربع کلومیٹر ہے ، اس زمین کی لیز 2047ء میں ختم ہو جائے گی، قادیانیوں کے نام دی گئی یہ لیز 99 سال کے لئے تھی۔

مرز ابشیر الدین نے قادیان سے پاکستان روانہ ہوتے وقت نہایت اہم عہد کیا جو مختصراً درج ذیل ہے :’’قادیان چھوٹ جانے کا صدمہ لازماًطبیعتوں پر ہوا ہے ،میری طبیعت پر بھی اسی صدمہ کا اثر ہے …… ہم اپنے آنسوؤں کو روکیں گے ،یہاں تک کہ ہم قادیان کو واپس لے لیں‘‘(تاریخ احمدیت ج11ص5) مرزا بشیرالدین کے لاہور پہنچنے سے پہلے قادیانیوں نے ہندوؤں کی متروکہ رہائش گاہوں میں سے چار بڑی بڑی عمارات پر قبضہ کرلیا۔ ان کوٹھیوں کے نام یہ تھے :(1)رتن باغ(2)جودھامل بلڈنگ(3) جسونت بلڈنگ (4)سیمنٹ بلڈنگ ۔مرزا محمود اوراس کے خاندان کی رہائش کیلئے رتن باغ تجویز کیا گیا ۔دفاتر کے قیام اورکارکنوں کو ٹھہرانے کیلئے جودھامل بلڈنگ اوردیگرافراد کی سکونت کیلئے موخر الذکر کوٹھیوں کو موزوں سمجھا گیا ۔ پاکستان آنے کے بعد قادیانیوں کی پہلی میٹنگ یکم ستمبر 1947جو دھامل بلڈنگ کے صحن میں ہوئی ،پھر روزانہ رتن باغ میں مشاورتی مجلس کا سلسلہ باقاعدہ شروع ہوگیا ۔ان دنوں ان کوٹھیوں میں 152خاندانوں کے 801افراد رہتے تھے ،اسی دوران رتن باغ کی ’’مجلس مشاورت ‘‘میں قادیانی مرکز (پاکستان )کیلئے موزوں جگہ کی تلاش کے سلسلے میں چوہدری عزیز احمد باجوہ قادیانی (سیشن جج سرگودھا )کو مشورہ طلب کرنے کیلئے بذریعہ تار لاہور بلوایا گیا ۔عزیز احمدباجوہ نے 25ستمبر کو ایک یادداشت لکھی جس میں مرکز کیلئے دس جگہوں کی نشاندہی کی گئی ۔اسی یاداشت میں انہوں نے نویں جگہ کے بارے میں لکھا :’’9۔چنیوٹ کے بالمقابل دریائے چناب کے پاراس جگہ خیال ہے کہ کافی رقبہ گورنمنٹ سے مل سکے گا جگہ ہر طرح سے موزوں ہے ،سوائے اس کے کہ احمدی اردگرد کم ہیں ‘‘(تاریخ احمدیت ج11ص 284) یہ یادداشت اس مشاورتی مجلس میں سنائی گئی ،چونکہ چوھدری عزیز احمد باجوہ تحصیل چنیوٹ کے تحصیلدار بندوبست رہے تھے اوریہ علاقہ ان کی نظر سے کئی دفعہ گزرا تھا لہٰذاانہوں نے اپنی رائے دی کہ قادیانی مرکز یہاں بننا چاہیے ۔ چنانچہ اس رپورٹ کے سننے کے بعد آنجہانی مرزا بشیرالدین نے 18اکتوبر1947کو مجوزہ زمین ملاحظہ کرنے کیلئے اس علاقے کا سفر کیا ۔اس علاقہ کو پسند (کیونکہ اس کے تین اطراف پہاڑیاں اورایک طرف دریا تھا اس طرح سے یہ علاقہ ایک قلعہ کی مانند ہوگیا تھا ۔ناقل )کرنے کے بعد ڈپٹی کمشنر ضلع جھنگ کو اس اراضی کے خرید کرنے کیلئے د رخواست دی گئی ۔اس درخواست میں ڈپٹی کمشنر سے یہ استدعا کی گئی کہ 1034 ایکڑ قطعہ اراضی انجمن احمدیہ پاکستان کو دے دیا جائے ،بقول قادیانیوں کے ایک طویل کشمکش (کشمکش کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ناقل )کے بعد 11جون 1948کو حکومت پنجاب نے حسب ذیل الفاظ میں زمین کی منظوری دے دی ۔’’دس روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے مجوزہ فروخت اصولی طور پر منظور کی گئی ‘‘(تاریخ احمدیت ج 11 ص292)جبکہ زمین کی قیمت اس قیمت سے دس ہزار روپے فی کنال تک پہنچ گئی تھی ‘‘(تاریخ احمدیت ج11ص293)اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ نے لکھاتھا :’’قیام پاکستان کے وقت وہ اپنے روحانی مرکز کو چھوڑ کر پاکستان چلے آئے اوریہاں آکر انہوں نے طے کیا کہ :(الف)پاکستان میں ایک عارضی مرکز قائم کیا جائے ،چنانچہ ایک مستقل علاقہ پنجاب میں ’’کوڑیوں کے مول ‘‘لیا گیا اوروہاں ربوہ کے نام سے خالص مرزائی شہر آباد کیا گیا ‘‘(فتنہ قادیانیت ص11)

حکومت پنجاب کی طرف سے درخواست منظور ہونے کے بعد قادیانیوں نے جلدی ہی اس کی حقیر قیمت ادا کرکے رجسٹری مکمل کرائی ۔مورخِ قادیانیت لکھتا ہے :’’اراضی کی خرید کے بارے میں تمام مراحل طے ہونے کے بعد 22جون 1948کو زمین کی قیمت اوراخراجات رجسٹری وغیرہ کیلئے فوری طور پر بارہ ہزار روپے داخلِ خزانہ سرکارکرائے …… اس طرح سے رجسٹری مکمل ہوئی ۔(تاریخ احمدیت ج11ص 294 ) پہلے یہ زمین پنجاب کے آخری انگریز گورنر سے لیز پر لی گئی لیکن بعد میں ریکارڈ خرد برد کرکے اور بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز مرزائیوں نے ہیرا پھیری کر کے اس لیز کو مالکانہ حقوق میں بدل دیا ،اب حالت یہ ہے کہ ملبہ مکان والے کا ہے اور زمین انجمن تحریک جدید کی ملکیت ہے۔جس شخص کے متعلق ذرا شبہ یا شکایت ملتی ہے اس سے زبر دستی مکان خالی کرا لیا جاتا ہے یا اس کا سوشل بائیکاٹ کر کے اس پر ربوہ کی زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔آج حکومت ربوہ کے مکینوں کو ان کے مکانوں کے مالکانہ حقوق دے دے تو رائل فیملی کے شہزادوں کے ستائے اور دکھیا ربوہ کے آدھے لوگ مرزائیت چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔

چناب نگر(ربوہ) کا اندرونی نظام ربوہ ایک منی سٹیٹ کی حیثیت رکھتا ہے، قادیانیوں نے اس قسم کی متوازی نظام حکومت قائم کر رکھی ہے۔یہ اپنے سربراہ کوخلیفہ کہتے ہیں اس کے علاوہ ایک حکومتی نظام کی طرح الگ الگ شعبے اور نظارتیں (وزارتیں )موجود ہیں ۔اس وقت ربوہ میں صدر انجمن احمدیہ کی جو نظارتیں قائم ہیں ،ان کا اجمالی خاکہ درج ذیل ہے

(1)ناظر اعلیٰ۔اس سے مراد ناظر ہے جس کے ذمے تمام محکمہ جات کے کاموں کی نگرانی ہووہ خلیفہ اور دیگر ناظروں کے درمیان واسطہ ہوتا ہے ۔(2)ناظر امورعامہ (ہوم سیکرٹری )اس کے سپرد مقدمات فوجداری کی سماعت ،سزاؤں کی تنفیذ،پولیس اورحکومت سے رابطہ کاکام ہے ۔ (3)ناظرامور خارجہ (وزیرخارجہ)اس کے ذمہ سیاسی گٹھ جوڑ کرنا ،اندرونِ ملک وبیرون ملک کی کارروائیوں پر کڑی نگاہ رکھنا ہے ۔(4)ناظر ضیافت (5)ناظر تجارت (6)ناظر حفاظتِ مرکز (وزیر دفاع )(7)ناظر صنعت (8)ناظر تعلیم (9)ناظر اصلاح وارشاد (وزیر پروپیگنڈہ ومواصلات )(10)ناظر بیت المال (وزیر خزانہ )(11)نظارتِ قانون (12)ناظر زراعت وغیرہ
’’اس شہر میں مندرجہ ذیل وکالتوں کے دفتر اورمحکمے قائم ہوچکے ہیں ۔،وکالت علیا ،وکالت مال،وکالت تجارت وصنعت ،وکالت تبشیر ،وکالت قانون اوروکالت تعلیم‘‘(الفضل 28 ستمبر 1951)

یہ یادرہے کہ ان ناظر ان کے اختیارات وفرائض خلیفہ ربوہ کی طرف سے تفویض ہوتے ہیں اور ان کا تقرراوران کی تعداد بھی خلیفہ ربوہ مقرر کرتا ہے ۔بجٹ خلیفہ قادیانی کی منظوری سے بنایا اوران کی منظوری سے ہی جاری ہوتا ہے ۔ صدر انجمن احمدیہ کے تمام فیصلہ جات قادیانی خلیفہ کے دستخطوں کے بغیر نافذ نہیں ہوسکتے ۔ صدر انجمن احمدیہ کے اپنے خلیفہ کے تجویز کردہ قواعدہ وضوابط میں تبدیلی نہیں کرسکتا ۔

ناظروں کی تقرری اوربرطرفی مکمل طور پر خلیفہ قادیانی کے اختیار میں ہے ،تمام مرزائی بدرجہ اول اپنے ’’نام نہاد خلیفہ ‘‘ اوراپنے نظام حکومت کے تابع ہوتے ہیں اورملکی نظام حکومت کے کاموں میں اسی کے حکم اور اجازت سے حصہ لیتے ہیں جب ان میں سے کوئی ملکی یا کسی بڑے عہدے پر فائز کیا جاتا ہے ،فوج میں بھرتی ہوتا ہے یا کوئی ملازمت اختیار کرتا ہے تووہ ایسا کرتا ہے کہ سب سے پہلے اپنے قادیانی نام نہاد خلیفہ کا تابع فرمان ہے ۔ یہ بات کہ مرزائی جماعت کے لوگ بدرجہ اول اپنے مرزائی خلیفہ کے نظام حکومت کے تابع فرمان ہیں اس امر سے ظاہر ہے کہ مرزائیوں کی حکومت اس شخص کو اپنی تنظیم سے خارج کردیتی ہے جو خلیفہ کی اجازت کے بغیر یا اس کے حکم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان کی کوئی ملازمت اختیار کرلیتا ہے اس حقیقت کے شواہد مرزائیوں کے سرکاری گزٹ الفضل کی ورق گردانی سے بہت مل سکتے ہیں ۔ مرزائیوں کے اس معہود ذہنی کا ثبوت حضرت علامہ اقبالؒ کے اس بیان سے بھی ملتا ہے جو انہوں نے 1933میں کشمیر کمیٹی کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد دیا ۔اس بیان میں حضرت علامہؒ اپنے استعفیٰ کے وجوہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’بدقسمتی سے کمیٹی میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جواپنے مذہبی فرقہ کے امیر کے سوا کسی دوسرے کی اتباع کرنا سرے سے گناہ سمجھتے ہیں ۔چنانچہ قادیانی ۔ناقل وکلاء میں سے ایک صاحب نے جو میر پور کے مقدمات کی پیروی کررہے تھے ،حال ہی میں اپنے ایک بیان میں واضح طور پر اس خیال کا اظہار کردیا ۔انہوں نے صاف طور پر کہا کہ وہ کسی کشمیر کمیٹی کو نہیں مانتے اورجو کچھ انہوں نے یا ان کے ساتھیوں نے اس ضمن میں کہا وہ ان کے امیر کے حکم کی تعمیل تھی ۔مجھے اعتراف ہے کہ میں نے ان کے اس بیان سے اندازہ لگایا کہ تمام احمدی (قادیانی ۔ناقل)حضرات کا یہی خیال ہوگا اوراس طرح میرے نزدیک کشمیر کمیٹی کا مستقبل مشکوک ہوگیا ‘‘ (پاکستان میں مرزائیت ص 36-37مولانا مرتضیٰ احمد خان میکش)

1974سے قبل کے حالات: ’’7ستمبر1974سے پہلے اس شہر ربوہ میں کسی مسلمان کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی ، اگر کوئی بھولا بھٹکا مسافر مسلمان یہاں داخل ہوجاتا تو اس کوکئی دن حبس بے جا میں رکھا جاتا تھا ،یہاں کا ایک نام نہاد سکیورٹی افسر اس کو دردناک اذیتیں پہنچا کر انٹروگیٹ کرتا یہاں تک کہ کئی نوجوان بعض جاسوسی کے الزام میں قتل کردیئے گئے ۔مثال کے طور پر مولوی غلام رسول جنڈیالوی ایڈیٹر روزنامہ ایام کا جواں سال لڑکا اوراس کا ایک نوجوان ساتھی ربوہ دیکھنے کے شوق میں وہاں اتر گئے ۔

ان کے دفاتر ان کی نام نہادعبادت گاہ ،نام نہاد قصر خلافت اوردوسرے بازاروں میں چند گھنٹے پھرتے رہے ،جب وہ وہاں سے سرگودھا جانے کیلئے بس کے اڈے کی طرف روانہ ہوئے تو قادیانیوں کی سی آئی ڈی نے انہیں پکڑ لیا ،پہلے اذیتیں پہنچاتے رہے پھر ان کے باری باری ہاتھ پاؤں کاٹ کر انہیں موت کے گھاٹ اتاردیا۔ آج تک کوئی رپٹ ،رپورٹ، پرچہ ،گرفتاری اورکوئی کارروائی نہ ہو سکی ،بالآخر حکومت نے ربوہ میں ایک پولیس چوکی قائم کی ،وہاں پولیس کی نفری اورانچارج بٹھائے گئے ،تین سال بعد جسٹس ہمدانی جب 29مئی 1974کے واقعات کی انکوائری کیلئے ربوہ آئے تو انہوں نے چوکی پولیس کے انچارج سے دریافت کیا کہ تین سال میں یہاں کتنے مقدمے درج ہوئے ؟چوکی پولیس کے انچارج نے اپنے کورے رجسٹر جسٹس صاحب کو دکھاتے ہوئے نفی میں جواب دیا اورکہاکہ تین سال میں یہاں جتنے واقعات اوروقوعے ہوئے ان کی کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی گئی بلکہ قادیانیوں کا اپنا ایک نظام ہے جو ان کی رپورٹیں درج کرتا اور ان پر کارروائیاں کرتا ہے ۔

قادیانیوں کے نزدیک ’’ربوہ‘‘کی مذہبی حیثیت مکہ اور مدینہ سے مشابہت :مرزا بشیر الدین محمودنے 30ستمبر 1949کو خطبہ جمعہ میں اعلان کیا کہ ’’یہ نئی بستی جہاں ایک طرف مدینہ سے مشابہت رکھتی ہے ،اس لحاظ سے کہ ہم قادیان سے ہجرت کرنے کے بعد یہاں آئے ،وہاں دوسری طرف یہ مکہ سے بھی مشابہت رکھتی ہے کیونکہ یہ نئے سرے سے بنائی جارہی ہے ‘‘(تاریخ احمدیت ج14ص34 الفضل 6اکتوبر 1949ص3بحوالہ کتاب ربوہ ص86مطبوعہ ربوہ) ربوہ کے بارے میں قادیانی شاعر قیس مینائی نے ’’تاثرات ربوہ ‘‘نامی کتابچہ لکھا جس میں اس نے مکہ اور مدینہ کی توہین کی ہے اس کا ایک شعر ملاحظہ ہو ۔ ہم نے ربوہ حق تعالیٰ کو چشم بیناں برملا دیکھا

قادیانیوں کی تنظیم: قادیانی مردوں کی تین تنظیمیں ملک و بیرون ملک کام کررہی ہیں جبکہ عورتوں کی دو تنظیمیں اسی طرح سے سرگرم عمل ہیں ۔

مردوں کی تین تنظیمیں یہ ہیں:(1)……انصاراﷲ ۔40سال سے اوپر کے مردوں کیلئے ۔(2)……خدام الاحمدیہ :16سال سے 40سال تک کے مردوں کیلئے ۔(3)…… اطفال الاحمدیہ :15سال تک کے بچوں کیلئے ۔
عورتوں کی ذیلی تنظیمیں(1)……لجنہ اماء اﷲ :15سال سے اوپر تک کی مستورات کیلئے ۔(2)……ناصرات الاحمدیہ :15سال تک کی بچیوں کیلئے ہے۔ مجلس خدام الاحمدیہ 1938میں قائم کی گئی ۔لجنہ اماء اﷲ کی تنظیم 15ستمبر1922 کو اور مجلس انصاراﷲ 26جولائی 1940کو قائم کی گئی ۔

چناب نگر(ربوہ) سے کافی کچھ قادیانیوں کے متعدد رسائل وجرائد نکلتے ہیں ۔الفضل (روزنامہ )کے علاوہ ماہنامہ خالد (خدام الاحمدیہ )ماہنامہ تشہید الاذہان (اطفال الاحمدیہ )انصاراﷲ (مجلس ماہ نامہ انصار اﷲ ) مصباح (لجنہ اماء اﷲ )البشریٰ (عربی)ریویو آف ریلیجنز (انگریزی)تحریک جدید (اردو ،انگریزی )اورایک ہفت روزہ بدر قادیان سے نکلتا ہے ۔

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 155653 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.