ایک حدیث میں تفسیر بالرائے کی مذمت کی گئی ہے۔ لیکن
تفسیر بالرائے میں لفظ 'رائے' کا مطلب سمجھنے میں بعض لوگوں کو غلط فہمی
ہوئی ہے۔ اس لیے ہم اس پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔جامع ترمذی میں حضرت
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
«... ومن قال في القرآن برأیه فلیتبوأ مقعده من النار»
امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
''... اور جس نے قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ
دوزخ میں بنا لے۔''
لیکن اس حدیث سے پہلے امام ترمذی نے یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ عبداللہ بن
عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«من قال في القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعده من النار» امام ترمذی نے اس حدیث
کو حسن صحیح کہا ہے۔
''جس نے علم کے بغیر قرآن کے بارے میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ
میں بنا لے۔''
اس دوسری زیادہ مضبوط حدیث نے پہلی حدیث کے لفظ «برأیه»(اپنی رائے سے) کا
مطلب واضح کردیا ہے کہ اس سے مراد «بغیر علم» (علم کے بغیر) ہے۔ گویا تفسیر
بالرائے ایسی تفسیر کو کہا جائے گا جو علم کے بغیر کی جائے۔
خود امام ترمذی نے «برأیه» والی حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ
''اس سے مراد علم کے بغیر اپنے جی سے قرآن کی تفسیر کرنا ہے جوکہ قابل مذمت
ہے۔ رہا علم کی رُو سے تفسیر کرنا تو یہ بالکل درست اور جائز ہے کیونکہ اس
طرح کی تفسیر مشہو رتابعین مجاہد ، قتادہ اور دوسرے اہل علم نے بھی کی ہے
اوران لوگوں کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں ہوسکتی کہ خدانخواستہ وہ لوگ علم
کے بغیر محض اپنے جی سے قرآنِ مجید کی تفسیر کرتے تھے۔''
اس سے معلوم ہوا کہ حدیث میں 'رائے' کا لفظ اپنے لغوی معنوں میں نہیں ہے
بلکہ ایک اصطلاح کے طور پر آیا ہے جس کا مطلب ہے : ''علم کے بغیر قرآن کی
من مانی تفسیر کرنا۔'' گویا ایسی تفسیر کرنا جس میں کوئی شخص یہ نہ دیکھے
کہ قرآن کیا کہتا ہے بلکہ یہ دیکھے کہ اُس کی اپنی خواہش یا پہلے سے قائم
کی ہوئی کوئی رائے کیا چاہتی ہے او رکسی طرح قرآن کو کھینچ تان کر اس کے
مطابق کرلیا جائے۔ گویا یہ حالت ہو کہ
؏ خود بدلتے نہیں، قرآن کوبدل دیتے ہیں
اس سے واضح ہوا کہ تفسیر بالراے کا یہ مطلب لینا صحیح نہیں ہے کہ قرآن مجید
کو سمجھنے کے لیے عقل و بصیرت سے کام نہ لیا جائے۔ اگریہی مطلب ہوتا تو پھر
قرآن کا سمجھنا سمجھانا ہی فضول او ربے کار ہوتا۔ حالانکہ خود قرآن ہمیں
بار بار غوروفکر کرنے اور عقل و بصیرت سے کام لینے کی دعوت و ترغیب دیتا
ہے:
﴿ أَفَلا يَتَدَبَّرونَ القُرءانَ أَم عَلىٰ قُلوبٍ أَقفالُها ٢٤﴾...
سورة محمد
''کیا پھر یہ لوگ قرآن پر تدّبر نہیں کرتے، یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے
ہیں۔''
حقیقت یہ ہے کہ صحابہ و تابعین بھی اپنے علم او راپنی عقل و بصیرت سے کام
لے کر قرآن کی تفسیر بھی کرتے تھے او راس سے مختلف احکام و مسائل نکالنے کے
لئے اجتہاد بھی کرتے تھے۔ بعد کے مفسرین کرام نے تفسیر بالرائے کی دو قسمیں
قرار دیں:
ایک ،تفسیر بالرائے محمود اور دوسری، تفسیر بالرائے مذموم
تفسیر بالرائے محمود یہ ہے کہ قرآن کو سمجھنے میں عقل و بصیرت او راجتہاد و
استنباط سے بھی کام لیا جائے او ریہ پسندیدہ طریقہ ہے۔ اگرچہ ایسی صورت میں
تفسیری اختلاف بھی پیدا ہوسکتا ہے جو ایک فطری امر ہے او ربالکل جائز ہے
کیونکہ اس سے شریعت میں تنوع اور وسعت پیدا ہوتی ہے۔
تفسیر بالرائے مذموم یہ ہے کہ یہ نہ دیکھا جائے کہ قرآن کا منشا کیا ہے اور
وہ کیا چاہتا ہے بلکہ صرف یہ دیکھا جائے کہ ہماری اپنی خواہش یا پہلے سے
کوئی ٹھیرائی ہوئی بات کیا چاہتی ہے اورقرآن کی عبارت اوراس کے مضمون کو کس
طرح کھینچ تان کر اپنی خواہش یا اپنے پہلے سے قائم نظریے کے مطابق کرلیا
جائے۔ یہ طریقہ مذموم، ناپسندیدہ او رحرام ہے۔ ایسی تفسیر کرنے والے کے لیے
دوزخ کی وعید آئی ہے۔
تفسیر بالرائے مذموم کی بعض صورتیں
تفسیر بالرائے مذموم کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں، مثلاً:
1. اپنی خواہش یا اپنے کسی خاص نظریے یا مخصوص فکر کو لے کر اُس کے مطابق
قرآن کی تفسیر کرنا۔ اس میں یہ نہ دیکھ جائے کہ خود قرآن کیا کہتا ہے بلکہ
قرآن کی معنوی تحریف کرکے اُسے اپنی خواہش، اپنے نظریے اور مخصوص فکر کے
مطابق ڈھال لیا جائے۔ یہ ایک من مانی تفسیر ہے جو کبھی عربیت کے خلاف کی
جاتی ہے اور کبھی قرآن کی بات کو اس کے اصل سیاق و سباق(Context)سے ہٹا کر
کی جاتی ہے۔
2. فرقہ پرستی کے تعصّب سے تفسیر کرنا تاکہ قرآن کو اپنے مخصوص فرقے کے
عقائد ونظریات کے مطابق ڈھال لیا جائے۔ اس طرح کی تفسیر کے نمونے فرقہ
پرستوں کی تفسیروں میں عام مل جاتے ہیں۔
3. قادیانیوں نے جو کہ غیر مسلم ہیں، اپنے غیر اسلامی عقائد و اعمال کو
قرآن کے مطابق ثابت کرنے کے لیے تفسیر بالرائے مذموم کا ارتکاب کیا ہے۔
4. ہر جگہ ایک ہی معنی مراد لینا جیسے من دون اللہ اور تدعو وغیرہ کا
5. دورِ جدید کے بعض مفسرین جب سائنسی حقائق کی بجائے سائنسی نظریات
(Theories) کے مطابق تفسیر کرتے ہیں تو وہ بھی تفسیر بالراے مذموم کا
ارتکاب کرتے ہیں۔ جیسے ڈارون(Darwin) کےنظریۂارتقا(Evolution Theory) کو
قرآنی تعلیمات کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسی
نظریات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں او رکبھی غلط ثابت ہوتے ہیں، اس
لئے ان کے مطابق تفسیر کرنے سے قرآنِ مجید کی حقانیّت اور صداقت پر حرف
آسکتا ہے۔البتہ وہ سائنسی او رطبعی حقائق جو تجربے (Experiments) اور
مشاہدے (Observations) سے ثابت ہیں، اُن کے مطابق تفسیر کرنے میں کوئی حرج
نہیں۔ جیسے زمین کا گول ہونا وغیرہ۔
6. کسی خاص مسلک و مذہب کے تعصّب میں مبتلا ہوکر اس کی بے جا حمایت و طرف
داری کے لیے کی گئی تفسیر بھی تفسیر بالراے مذموم ہے۔
7. یہودیوں کے وہ بے سروپا قصے اور اُن کی مذہبی داستانوں کی خرافات جسے
اصطلاح میں 'اسرائیلیات' کہا جاتا ہے، کےمطابق تفسیر کرنا بھی تفسیر
بالرائے مذموم ہے۔
8. مغربی تہذیب سے مرعوب ہوکر اُس کے سانچے میں قرآنی تعلیمات کو ڈھالنا
بھی تفسیر بالراے مذموم ہے۔اس طرح کی تفسیر کے نمونے سرسید احمد او رجناب
غلام احمد پرویز جیسے لوگوں کی کتبِ تفسیر میں موجود ہیں۔
9. زمانۂ حال میں 'فراہی مکتبِ فکر' کے نام سے ایک نیا گمراہ فرقہ وجود میں
آیا ہے جو دراصل مغربی تہذیب سے مرعوب و مسحور ہے۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ
وہ بھی اہل سنّت میں سے ہیں مگر ان کے عقائد و نظریات اہل سنت کے بالکل
خلاف ہیں کیونکہ وہ:
٭ قرآن مجید کی صرف ایک ہی قراء ت کو صحیح مانتے ہیں اوراس کی دوسری تمام
قراءتوں کے منکر ہیں۔
٭ مرتد کے لیے سزائے قتل کو نہیں مانتے۔
٭ شادی شدہ زانی کے لئے رجم یعنی سنگساری کی حد کا انکار کرتے ہیں۔
٭ صرف اللہ تعالیٰ او رآخرت پر ایمان لانے کو نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔
٭ ان کے نزدیک سنّت وہ نہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کے قول و فعل اور تقریر و
تصویب پر مشتمل ہے بلکہ وہ اس کا تعلق سیدنا ابراہیم سے جوڑتے ہیں۔ پھر اس
کے ثبوت کے لیے اجماع اور تواتر کی شرط لگاتے ہیں۔
٭ ان کی رائے میں کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا۔ (حالانکہ ایسا سمجھنا قرآن
کے نصوص کو جھٹلانا ہے)
٭ اجماع قطعی کے حجت ہونے کے قائل نہیں ہیں۔
٭ اس کے علاوہ اور کئی قسم کے گمراہانہ تصورات رکھتے ہیں۔
|