دُنیا بھرمیں قتل، ڈکیتی، زنا بالجبر ، کرپشن اور سماجی
اور دیگر اخلاقی بُرائیوں کے مرتکب افراد عدالتوں سے سزا پانے کے بعد عوام
اور میڈیا سے منہ چھُپاتے پھرتے ہیں۔ لیکن وطن عزیز میں شرمناکی اور ڈھٹائی
کا جو مظاہرہ 13جولائی کو کرپشن کے شہنشاہ، معزول وزیر اعظم اور رُسوائے
زمانہ سیاست دان نواز شریف اور اُس کے خاندان کی جانب سے کیا گیا، اُس کی
مثال رہتی دُنیا تک نہیں مِلے گی۔ جس دھڑلے سے انہوں نے عدالتی فیصلے کے
بعد سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے منتقل ہونے تک کے تمام مراحل کے دوران اپنی
تشہیر کروائی ہے اُس پر تمام اندرونِ مُلک اور دیار وطن سے باہر تمام
پاکستانیوں کے سر شرم سے جھُک گئے ہیں۔ دُنیا بھر کو یہی لگا جیسے پاکستان
میں کرپشن پر جیل جانا جیسے کسی انتہائی مقدس فریضے کی ادائیگی ہے جس کی
سعادت حاصل کرنے والا خود کو انتہا درجے کی توقیر و تحریم کا مستحق سمجھنے
لگتاہے۔ جب انسان کے اندر سے غیرت اور عزت نفس کا مادہ ختم ہو جائے تو پھر
وہی کچھ کرتاہے، جو نوازشریف اور اس کے خاندان کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔
اُوپر سے کہتے ہیں میڈیا کی جانب سے ہماری بلیک آؤٹ کیا گیا۔کس منہ سے یہ
میڈیا کوریج مانگتے ہیں۔ کیا کبھی کسی سزا یافتہ مجرم کو قوم سے خطاب کرنے،
پریس کانفرنسیں کرنے، ریلیاں نکالنے اوراپنے حق میں عوامی اجتماع کی اجازت
ہوتی ہے؟ یقینا نہیں ہوتی۔ تو پھر یہ لوگ کس طرح اس رعایت و مہربانی کے
مستحق قرار پاتے ہیں۔ ذلت و رُسوائی کی خُدائی لاٹھی سے پِٹنے کے باوجود ان
کی نخوت، خبطِ عظمت اور کرّ و فر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
نواز شریف کو اب جیل میں بند ہونا ہی تھا۔ کیونکہ دُنیا کا ہرکونہ‘ ہرمُلک
اُس کے لیے غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ اس کے خلاف عوامی غیظ و غضب اس قدر بڑھ
گیاہے۔ کہ اب وہ بھی سوچنے لگا ہے کہ جب تک عوام کا غصّہ ٹھنڈا نہیں ہو
جاتا، میں کسی محفوظ ترین مقام پر چلا جاتا ہوں۔کہیں بھی اسے جائے پناہ
نہیں مِل رہی۔ اس کی مثال اُن گینگسٹرز کی سی ہے جو اپنی ظلم و زیادتی کے
باعث بہت سے دُشمن پیدا کر لیتے ہیں۔اُنہیں ہر وقت اپنی جان کا دھڑکا لگا
رہتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے ہاتھوں سے پولیس والوں کو رشوت دے کر خود کو کسی
جُرم میں ملوث کرواتے ہیں اور جیلوں میں بند ہو کر خود کو محفوظ ترین خیال
کرتے ہیں۔سو نواز شریف بھی حفاظتی تحویل میں چلا گیاہے۔ اس وقت اسے سب سے
بڑا خطرہ اپنے ہی گھر کے فرد یعنی شہباز شریف سے ہے۔ شہباز شریف کے پاس
موجودہ انتخابات کی صورت میں زندگی کا اکلوتا موقع ہے جس سے وہ وزارتِ عظمی
کی مسند پر براجمان ہونے کا دہائیوں پُرانا خواب پُورا کر سکتا ہے۔ بلاشبہ
نواز شریف کے ہوتے ہوئے شہباز شریف کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکتا اس لیے اُس
کا رستے سے ہٹ جانا ہی شہباز شریف کا مقصد حل کر سکتاہے۔دُوسری طرف نواز
شریف بھی جانتا ہے کہ شہباز شریف اُسے اپنی راہ کا سب سے بڑا کانٹا سمجھتا
ہے۔
راقم گزشتہ کئی سالوں سے اپنے کالموں اور ذاتی گفتگو کے دوران سیاسی افراد
اور مقبول عام میڈیا اینکروں سے شریف برادران کے شدید نوعیت کے ذاتی
اختلافات کی بات کرتا رہا تو یہ لوگ اسے دیوانے کی بڑ قرار دیتے تھے۔اور اب
یہی سیاسی تجزیہ کار جو شہباز شریف اور نواز شریف کے برادرانہ تعلق کو
مثالی قرار دے رہے تھے، 13جولائی کے بعد سے وہ بھی چینلوں اور اخبارات پر
چیخ چیخ کر شہباز شریف کی بے وفائی اور غداری کا رونا رو رہے ہیں۔ انہیں
چار پانچ سالوں سے جاری دونوں شریفوں کے درمیان سرد جنگ کی خبر اب جا کر
ہوئی ہے۔ یہ لڑائی حمزہ اور مریم کے درمیان جانشینی کے معاملے پر شروع ہوئی
تھی۔ لازمی سی بات ہے کہ کوئی بھی باپ اپنی اولاد کے سیاسی کیریئر کو رشتہ
داری کی مروت کی سُولی پر نہیں چڑھا سکتا۔
شہباز شریف نے اپنی دانست میں نواز شریف کی سیاست کو دفنا دیا ہے وہ اُس کی
سیاست کی قبر بنا کر خود اُس کا مجاور بن کر بیٹھ گیا ہے۔ کیونکہ اُس کی
اپنی سیاسی حیثیت کچھ نہیں ہے، اُسے نواز شریف کی سیاسی شہادت کی ضرورت
تھی۔ خود کو ’کارکن کارکن‘ کہہ کہہ کر شہباز شریف نے اپنے قائد کو ایسا
پھنسایا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔یہ ریلی کا ڈراما بھی شہباز شریف نے
الیکشن میں نواز لیگ کی مکمل طور پر گر چُکی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کی
کوشش کے طور پر کیا ہے۔ سب کچھ انتظامیہ کے ساتھ طے شدہ تھا اس لیے ریلی کا
راستہ روکا نہیں گیا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ پولیس کی جانب سے پابندیوں کے
باعث پہنچ نہیں سکے، اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ پہنچنا ہی نہیں چاہتے
تھے۔شہباز شریف اپنے سیاسی قد و کاٹھ میں اضافہ چاہتا تھا۔ سو ریلی کا
انعقاد اس لیے کیا گیا۔ اس سارے احتجاجی ڈرامے کا مقصد نواز شریف کا
استقبال قطعاً نہیں تھا۔ اُس نے نواز شریف کے نام اور سزا کو کیش
کروایا۔اصل گیم ہی مائنس نواز کے لیے رچائی گئی تھی۔ وہ علیحدہ بات کہ اس
کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا۔ نواز کیمپ کے درجنوں لیڈروں نے اس ریلی میں شرکت
نہ فرما کر شہباز شریف کی خوشی کرکری کر دی۔
کسی بھی احتجاجی کال کے دوران ٹاپ لیڈر شپ تو انتظامیہ کے ساتھ ڈیل کر کے
احتجاجی ڈراما رچاتی ہے جبکہ دوسرے درجے کی قیادت بھی پولیس اور انتظامیہ
سے ساز باز کر کے خود کو نظر بند کروا لیتی ہے یا تھوڑی دیر کے لیے تھانے
میں بند کروا دیتی ہے۔ جبکہ مارا غریب کارکن جاتا ہے‘ جو اپنی مکمل سیاسی
وابستگی کے ساتھ بنا کسی لالچ کے لیڈروں کی آواز پر لبیک کہتاہے۔ لاٹھیاں
کھاتا ہے، پتھروں سے سر پھٹول کرواتا ہے، شرپسندی کے الزام میں جیلوں میں
بند کر دیا جاتا ہے، مقدموں کا سامنا کرتا ہے۔13 جولائی کو جو تھوڑے بہت
لوگ سڑکوں پر تھے اُن کا تعلق بھی اسی استحصال زدہ طبقے سے ہے۔
بہرحال‘ شہباز شریف سب کچھ جیت کر بھی ناکام رہے گا۔نواز شریف کے ساتھ ساری
انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ ہے۔ بھارتی اور امریکی لابی خصوصاً اس کی جان چھُڑانے
کے لیے سرگرم ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف جیل میں اپنی سزا کی مُدت
پُوری کرے گا وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ویسے بھی شہباز شریف نے اہلِ
پنجاب کو کرپشن‘ دھُوڑ مٹی ‘ آلودہ پانی اور مہنگائی کے علاوہ دِیا ہی کیا
ہے کہ لوگ اُس کی آواز پر اُٹھ کھڑے ہوں۔ اس کی سیاست جی پی چوک پر ناقص
اور کرپشن زدہ تعمیراتی کام کے باعث پڑنے والے گڑھے کی طرح زمین بوس ہو گئی
ہے۔نام نہاد ریلی میں جو لوگ اکٹھے تھے وہ بھی وہاں تماشا دیکھنے مصروف تھے
یا پھر اپنے کاموں سے گھروں کو نکلے لوگ تھے جو رش میں پھنس کر رہ گئے
تھے۔چند مقامات پر دس دس پندرہ پندرہ شرپسندوں کی ٹولیاں تھیں‘ جنہوں نے
تھوڑا بہت ہنگامہ برپا کیا۔ ورنہ راوی چین ہی لکھتا رہا۔ ویسے ایک کروڑ کی
آبادی میں سے چند سو افراد کے اجتماع نے مسلم لیگ کی نام نہاد مقبولیت کی
قلعی کھول دی ہے۔ پٹواریوں اور کرائے کے غنڈوں کی عدم موجودگی میں ان کی
اصل سیاسی اوقات سامنے آ گئی ہے۔
شُنید ہے کہ نواز شریف کچھ بالادست طاقتوں سے ڈیل کر کے آئے ہیں جس کے تحت
انہیں عدالتوں سے عنقریب ریلیف مل جائے گا اور یہ ضمانت پر رہا ہو جائیں
گے۔ شہباز شریف کو کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اور وزارت عظمی نواز شریف کے خاص
الخاص بندے شاہد خاقان عباسی کے حصّے میں آئے گی۔ عمران خان اس گیم سے پوری
طرح باہر ہے۔ اُس کا اسٹیبلشمنٹ نے استعمال کرنا تھا، کر لیا۔ اُس کا اس
سارے ڈرامے میں کردار مہمان اداکار کا تھا۔ بس ایک بات ضرور ہوئی ہے کہ
نواز شریف اور اس کا خاندان زندگی بھر کے لیے نااہل قرار پا چکا ہے۔ اُنہیں
زمامِ اقتدار دُوسرے لوگوں کے سپرد کرنا پڑے گی۔ نواز شریف کو اسکے تکبر،
کرپشن اور مُلک دُشمنی کی سزا اﷲ نے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں دلوائی ہے اور
عنقریب شہباز شریف کو بھی اسی انجام سے دوچار ہونا ہے۔ |