یار کو ہم نے جا بجا دیکھا - 14 قسط نمبر

اٹھ پتری ناشتہ کر لےاتنے دن ہو گۓ تیں ہوش ای کونی کردا۔دادا جی نے پیار سے اسے جگاتے ہوۓ کہا اور وہ اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا
ایک بات پچھوں بابا؟؟؟ فریش ہو کر آیا تو تخت پہ بیٹھتے ہوۓ اس نے کہا
پچھ پتری سو بار پچھ بار بار پچھ۔ دادا جی نے پیار سے کہا
تنّے روٹی کون دیندا ہے؟؟؟ وہ بہت عرصہ سے اسی تجسس میں تھا آخر پوچھ ہی بیٹھا
اللہ۔ بہت ہی مختصر جواب دیا گیا
پر بابا اللہ ہمیشہ تنّے سوکھی روٹی اور اچار ای کیوں دیندا ہے؟؟؟ وہ گفتگو میں بہت دلچسپی لے رہا تھا
اللہ نَے عاجزی پسند ہے نا پتری اس واسطے۔ دادا جی نے باتوں کے ساتھ ساتھ نوالہ توڑ کر منہ میں ڈالا
پر بابا کیہہ عاجزی صرف سوکھی روٹی کھانے سے ای انسان میں آوے ہے؟؟؟ اس کے اس قدر معصومانہ سوال پر دادا جی مسکرا دیے
سوکھی روٹی تو سادگی کی علامت ہے پتری اور سادگی میں ای تو عاجزی ہے۔
اگر سادگی میں عاجزی ہے بابا تو فِر اللہ نے منّے کیوں پراٹھا دیا؟؟؟ اس نے پھر اسی معصومانہ انداز میں پوچھا
پتری عاجزی چیزوں میں تھوڑی ہووے ہے۔ عاجزی تو مزاج میں ہووے ہے۔ ویسے بھی تیرا کھانا بوہت اوپر سے آیا ہے۔ جس پہ نہ منّے سوال کیا نہ ای تو کر۔ دادا جی بات مکمل کر کے پھر سے کھانا کھانے میں مصروف ہو گٸے
اوپر سے؟؟کِت سے؟؟؟ وہ بہت حیرانی سےپوچھ رہا تھا
سب سمجھ جاۓ گا تیں فکر کیوں کرے ہے چل بس اب جلدی سے ناشتہ کر فِر تنّے ملنا بھی ہے کسی سے۔
کس سے بابا؟؟؟ وہ سوال پہ سوال پوچھ رہا تھا
ملاقات آٸی ہے تھاری۔ دادا جی نے بہت سرسری انداز میں بات کی مگر وہ بال کی کھال نکالنے بیٹھ گیا
کس سے ملاقات ہے بابا؟؟؟ کس نے بلایا منّے؟؟؟ کت جاٶں میں؟؟؟ وہ سوال پہ سوال پوچھ رہا تھا
صحرا کی طرف نکل جانا باقی تیں خود سمجھ جاۓ گی پتری بس اِب نہ سوال کریں۔وہ پھر سوال کرنے کو منہ کھول رہا تھا کہ دادا جی نے بس کہتے ہوۓ ہاتھ اٹھا کر روکدیا
ناشتہ کرنے کے بعد دادا جی اس کو دروازے تک چھوڑ کر آۓ اور وہ دعاٸیں لیتا ہوا رخصت ہو گیا پورے چار گھنٹے کی مسافت پہ صحرا تھا۔ صحراٸی علاقہ میں پہنچ کر وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے اور کدھر جانا ہے کہ اسے ایک آدمی اپنی طرف آتا دکھاٸی دیا
آٸے صاحب اس طرف جانا ہے۔ آدمی نے صحرا میں بنے ایک چھوٹے سے ڈھابے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔ وہ بے حد حیران تھا وہ اسے پوچھنا بھی چاہ رہا تھا کہ آخر وہ کون ہےاور اسے کیوں ساتھ چلنے کا کہہ رہا ہے لیکن وہ خاموشی سے اس کے پیچھے چل دیا۔ ڈھابے پر پہنچتے ہی اسے مزید حیرانی کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے دیکھا کہ ڈھابے کے مالک سمیت وہاں پر کام کرنے والا ہر شخص اس کی آٶ بھگت میں مصروف ہے بنا پوچھے کہ آیا وہ ان کا مطلوبہ شخص ہے بھی کہ نہیں۔اس کو کھانا کھلانے کے بعد تھوڑی دور ایک ٹیلے کی طرف یہ کہہ کر روانہ کر دیا گیا کہ اس کا بلاوا اس طرف سے آیا ہے۔
ضوفی؟؟ اسے ٹیلے پر پہنچتے ہی وہ نظر آٸی جس کی ایک جھلک اسے اور بھی بے تاب کر جاتی تھی۔ وہ ایک جیپ میں سوار تھی جو کہ اونٹ کی رفتار سے چل رہی تھی۔ وہ بھی اسی رفتار سے اس کے پیچھے چلنے لگا لیکن جتنا وہ قریب جاتا وہ اتنا ہی اس سے دور ہوتی جاتی۔ جیسے ہی وہ اپنی رفتار بڑھاتا جیپ کی رفتار خود بخود بڑھتی جاتی۔
ضوفی؟ میری بات سنو۔ ضوفی؟ خدا کے لیے رک جاٶ۔ وہ اپنی پوری قوت سےاسے آوازیں دیتا اس کے پیچھے بھاگتا جا رہا تھا لیکن وہ ایسے بیٹھی تھی گویا کہ بہری ہو۔وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کتنی دیر سے اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے مگر پسینے سے شرابور مسلسل بھاگتے بھاگتے اسے جب بھوک اور شدید پیاس کا احساس ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ اسے یوں بھاگتے ہوۓ بہت دیر ہو گٸ۔اس کے قدم تھکنے لگے تھے رفتار میں کمی آتی جا رہی تھی لیکن وہ پھر بھی ہمت نہ ہارا یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ آخر وہ ایک جگہ گر کر بے ہوش ہو گیا۔
ضوفی؟؟ ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے اس نے اس کا نام لیا اور پھر حیرانی سے ارد گرد دیکھنے لگا
یہ کون سی جگہ ہے؟؟ وہ تھوڑی دیر ادھر دیکھنے کے بعد زیرِلب بڑبڑایا
یہ اللہ کا گھر ہے بیٹا۔ ایک عمر رسیدہ شخص اندر داخل ہوا اور وہ فورًا اٹھ کر بیٹھ گیا وہ حیران تھا کہ اس کی آواز اس شخص نے کیسےسن لی حالانکہ وہ بالکل آہستہ آواز میں بولا تھا
لیکن میرے داداکہتے ہیں کہ اللہ کا گھرتو انسان کا دل ہوتا ہے۔ اس نے دانستگی میں یہ بات نہ کہی تھی
دل تو اللہ کا سب سے بڑا گھر ہوتا ہے۔ بابا جی جو کہ غالباً اسی مسجد کے امام تھے بہت پر سکون لہجے میں گویا ہوۓ
مگر میں ایسا نہیں سمجھتا۔ اسے امام صاحب کی بات سے اختلاف تھا
تو تم کیا سمجھتے ہو؟؟ امام صاحب نے مسکرا کر پوچھا اور اس کے قریب بیٹھ گٸے
دل تو ہجرو وصل کی دنیاٶں کے عین درمیان راکھ کے ڈھیر سے بنا ایک کعبہ ہوتا ہے جہاں محبت نام کی چنگاری رہتی ہے۔وہ چنگاری جسے وصل کی طرف سے آنے والی یخ بستہ ہواٸیں ملیں یا ہجر کی جانب سے آٸی لو۔ وہ دونوں صورتوں میں بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ بہت اعتماد سے جواب دے رہا تھا
تو تم محبت کو پہچان گٸے مگر خدا کو نہیں۔ امام صاحب اسے ٹٹول رہے تھے
اوربہت معذرت کے ساتھ کہ آپ خدا کے اس گھر تو آ گٸے مگر خدا کو ہی نہ پہچان سکے۔ وہ بنا کسی جھجھک کے بولتا جارہا تھا
تو میاں تم ہی بتا دو کہ میں خدا کو کو کس طرح پہچان سکتا ہوں؟؟ امام صاحب اس کی اندر چھپی جستجو کو باہر لانا چاہتے تھے جس سے وہ خود بھی ابھی تک بے خبر تھا
جو محبت کو پہچان گیا سمجھو خدا کو پہچان گیا کیونکہ محبت کوٸی خدا نہیں ہے مگر خدا محبت ضرور ہے۔ وہ یوں بات کر رہا تھا جیسے انہیں صدیوں سے جا نتا ہو
جب سب کچھ جانتے ہو میاں تو پھر یہاں وہاں کیوں بھٹکتے ہو؟؟ امام صاحب مسکراتےہوۓ بولے
میں تو کسی کی تلاش میں آیا تھا یہاں مگر نہیں جانتا کہ اسے کہاں پاٶں گا۔ وہ بہت دھیمی آواز میں بولا
دعا کروا لو کسی اللہ والے سے منزل مل جاۓ گی۔ امام صاحب اس کی سوچ اور باتوں سے بہت متاثر ہو رہے تھے اسی لیے اسے باتوں میں الجھا کر بات کو لمبا کر رہے تھے
دادا جی کہتے ہیں کہ اللہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ جب اللہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اس سے کچھ مانگیں اور وہ ہماری دعاسے پہلے ہمارے ہی حق میں مانگی ہوٸی کسی اور کی دعا سن لے؟؟ وہ نہیں جانتا تھا کہ امام صاحب صرف اسے اس کے اندر کی لگن سے آشنا کروانا چاہ رہے تھے اسی لیے سوال پہ سوال کر رہے تھے
بیٹا واپس لوٹ جاٶ اور اپنے دادا سے کہنا کہ منزل فقط ایک قدم کے فاصلے پہ رہ گٸی ہے۔ امام صاحب نے اتنا کہا اور اٹھ کر چل دیے
کیا مطلب؟؟ امام صاحب پلیز میری بات تو سنیں۔ میں سمجھ نہیں پایا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ وہ اٹھ کے ان کے پیچھے گیا مگر انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا آخر وہ دیوار سے ٹیک لگاۓ وہیں بیٹھ کر سوچنے لگا اور سوچتے سوچتے جانے کب اس کی آنکھ لگ گٸی لیکن جب اٹھا تو خود کو دادا جی کے گھر پایا
کھانا کھا لے پتری تیں کب سے بھوکی ہے۔ اس کے آنکھ کھولتے ہی دادا جی کھانے کی پلیٹ لیے اس کے سامنے آ کھڑے ہوۓ
میں واپس کِیسے آیا؟؟ کون لیکر آیا منّے؟؟ وا امام مسجد کون تھا؟؟ اس نے دادا کو دیکھتے ہی سوالوں کی بوچھاڑ کر دی
میں کیہہ جانوں پتری وا کون تھے۔ دادا جی نے نظر چراتے ہوۓ کہا
تیں سب جانے ہے بابا بس بتاندا کونی۔ اس نے خفگی سے کہا تیں چھوڑ ان باتاں نے یو بتا امام صاب نے کیہہ پیغام دیا مارے واسطے؟؟ دادا جی نے اشتیاق سے پوچھا
جب یو جانے ہے کہ پیغام دیا ہے تو یو بھی جانتا ہووے گا کہ کیہہ پیغام دیا ہے۔ وہ دادا سے سخت خفا تھا اوراس نے کھل کر اس کا اظہار بھی کیا
نہ پتری میں کیونکر جان سکوں ہوں بھلا؟ انہوں نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا اور اس کی ساری خفگی اڑنچھو ہو گٸی
امام صاب بول رے تھے کہ منزل ایک قدم کے فاصلے پہ رہ گی بس۔ اس کے بتاتے ہی دادا جی نے خوشی سے اس کا ماتھا چوم لیا اور وہیں تخت پر ہی سجدہ شکرادا کرنے لگ گٸے جبکہ وہ حیرانی سے ان کے اس عمل کو دیکھتا ہی رہ گیا
 

Adeela Chaudry
About the Author: Adeela Chaudry Read More Articles by Adeela Chaudry: 24 Articles with 51227 views I am sincere to all...!.. View More