ادھر رئیس احمد ناصر نسوار خان نے معاملے میں الجھا ہوا
تھا۔ جے جے اور ویلٹینا کو ختم کرنے کے بعد ریاض علوی نے اس اطلاع دی اور
کہا کہ بہت جلد ہمارا جے جے ایس ون کو جواب دے گا اور نسوار خاں سے بھی
رابطہ کرے گا ۔رئیس نے نسوار خاں کا موبائل قبضے میں لے اسے بند کر دیا تھا
، تاکہ دوسری مصروفیات سے نمٹ لے۔ فی الحال وہ اسے بند ہی رکھے تاکہ یہ راز
راز رہے۔
اس سے کہا کہ اگر ایس ون یا سپر مین کے آدمی ہوں تو ان سے کہے کہ جے جے اور
ویلیٹنا خیریت سے ہیں اور اپنا مشن مکمل کر رہے ہیں ۔ نسوار خان نے شیرون
کو رئیس کی مرضی کا جواب دیا اور فون بند کر دیا ۔ رئیس احمد ناصر نے یہ
احتیاط برتی تھی کہ وہ نسوار خاں کے سامنے منہ پر نقاب چڑھا کر گیا اور
قدرے آواز بھی تبدیل کر لیتاتھا۔ نسوارخاں ان یہودیوں سے بھی زیادہ خطرناک
تھااسے ختم نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ اس کے ذریعے اور بھی بہت سی معلومات
مل سکتی تھی ۔ پھر نسوار خان جیسا لالچی آدمی ڈبل کراس بھی کر سکتا تھآ اور
اسے بلیک میل بھی کیا جا سکتا تھا۔
اسی لئے اس کی طرف سے آنے والا ہر فون اور ہر پیغام نوٹ کر لیا گیا اور اس
سے شیر ون کے متعلق پوچھ گچھ کر کے اس کی ہی زبان میں سب کچھ ریکارڈ کر کے
محفوظ کر لیا گیا تاکہ اگر اسے آزاد بھی چھوڑا جائے تو وہ زبان نہ کھولے کہ
وہ کہاں تھا اور اسے سے کیا سلوک کیاگیا۔
رئیس احمد ناصر کو اطلاع ملی کہ جے جے تیار ہے اس لئے وہ نسوار خان کو
سمجھا کر کسی اجنبی مقام پر چھوڑ آئے ۔ رئیس نے نسوار خان سے کہا اگر وہ
اپنی زندگی چاہتا ہے تو اسے ان کے لئے بھی کام کرنا پڑے گا اور اسے اس
تنظیم کے متعلق یا شخص کے بارے میں انہیں مطلع کرنا ہوگا جو اسلام دشمن
سرگرمیو ں میں ملوث ہو ۔ اس کے لئے اسے معقول معاوضہ بھی دیا جائے گا اور
اس کی جان بھی بخش دی جائے گی ۔
نسوار خان نے وعدہ کر لیا کہ وہ ان کے لئے کام کرے گا بلکہ انہی کے لئے کام
کرے گا۔ وہ بظاہر ان کا دشمن بنا رہے گا اور اندر سے ان کا ساتھی رہے گا ۔
نسوار خاں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے گھر سے دور چھوڑ دیا گیا۔
**۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔** |