وزیراعظم نے فرمایا کانگریس مسلمان مردوں کی پارٹی ہے اب
چونکہ بی جے پی اس کے متضاد ہےاس لیے وہ ہندو عورتوں کی پارٹی ہوگئی۔
کانگریس اور بی جے پی میں ایک فرق یہ ہے کہ اول الذکر صرف زبانی جمع خرچ
میں یقین رکھتی ہے ۔ وہ مسلمانوں کی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود
کچھ کرتی کراتی نہیں ہے اس کے برعکس بی جے پی ہندو خواتین کا بڑا خیال
رکھتی ہے۔ اس کی تازہ مثال مودی جی کے گجرات میں بی جے پی سامنے آیا ۔گجرات
بی جے پی کے نائب صدر اور سابق رکن اسمبلی جینتی بھانوشالی کوحال میں ایک
سنگین الزام کے سبب اپنے عہدے سے استعفی دیاا پڑا ۔ مسلم خواتین کے حقوق پر
دن رات جملہ بازی کرنے والی بی جے پی کے ایک بڑے رہنما پر سورت کی۲۱ سالہ
دوشیزہ کے ذریعہ عصمت دری کا الزام شرمناک ہے۔
سورت کے پولس کمشنر کو موصولہ تحریری شکایت کو جانچ کے لیے کپودرا پولس
اسٹیشن منتقل کر دیا گیا ہے ۔ شکایت کے مطابق متاثرہ لڑکی ۲۰۱۷ میں
بھانوشالی کے رابطہ میں آئی تاکہ ۱۲ویں کلاس کے بعد فیشن ڈیزائنگ کورس میں
داخلہ لے سکے۔ بھانوشالی نے اسے احمد آباد کے اچھے کالج میں داخلہ دلانے کی
یقین دہانی کی۔ اس کے بعد احمدآباد بلا کر کار سے گاندھی نگر لے جاتے ہوئے
راستے میں ایک سنسان مقام پر چاقو سے ڈرا کرآبروریزی کردی۔شکایت میں مزید
کہا گیا ہے کہ بی جے پی رہنما نے متاثرہ کومزاحمت سے روکنے کے لیے
سمجھایاداخلہ لینے کے لئے لڑکیاں ایسا کرتی ہیں۔ اسی کے ساتھ بی جے پی
رہنما کے مسلح محافظ اور ڈرائیور نے اس کی ویڈیو بنا لی بس پھر کیا تھا
ویڈیو کے ذریعہ بلیک میل کر کے بھانو شالی نے کئی بار اس کی عصمت کو تار
تار کیا۔ اس سال مارچ میں بھانو شالی کے ڈرائیور نے بھی ہوٹل میں اس کا ریپ
کیا۔
گجرات بی جے پی کے صدر جیتو واگھانی کو اپنا استعفی سونپنے کے بعد
بھانوشالی نےخود پر عائدشدہ الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ کچھ
لوگ انہیں بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ویسے بھانو شالی سے یہ توقع تو
نہیں ہے کہ وہ شرافت سے اپنا جرم قبول کرلے گا۔ اناو کے بی جے پی رکن
اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر بھی اپنے خلاف سازش کا ڈھنڈورا پیٹ کر خود معصوم
کہلاتے تھے لیکن خود راجناتھ سنگھ کی سی بی آئی نے عدالت کی پھٹکار کے بعد
تفتیش کرکے واردات کے ۱۳ ماہ بعد فرد جرم داخل کردی ۔ اس چارج شیٹ میں ممبر
اسمبلی سینگر کے بھائی اتل سمیت پانچ لوگوں کو ملزم بنایا گیا ہے ۔ اتل اور
اس کے ساتھیوں پر متاثرہ کے والد کی پٹائی کا بھی الزام ہے۔ ان بدمعاشوں نے
مارپیٹ کے بعد متوفی پر فرضی مقدمہ قائم کرکے اسے جیل بھجوادیا ۔ جیل میں ۹
اپریل کو اس کی موت ہوگئی ۔ بانگرمئو کے رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ آبروریزی
کے جس الزام میں ماخوذ ہے۔ اس میں گرام پردھان کی اہلیہ نے نوکری دلانے
کالالچ دے کر مظلومہ کو سینگر کی رہائش گاہ پر پہنچایا تھا جہاں اس کی
آبروریزی کی گئی۔
اترپردیش میں تو خیر کلدیپ سنگھ سینگر کو بچانے کی بہتیری کوشش کی گئی مگر
بھانوشالی سے فوراً استعفیٰ لے کربی جے پی کے ترجمان بھرت پنڈیا نے کہا
حقائق کی بنیاد پر قانون اپنا کا م کرے گا۔ سورت کے پولس کمشنر ستیش شرما
نے وضاحت کی کہ ’’متاثرہ پولس اسٹیشن نہیں آئی ہے، بلکہ اس نے مرکز میں
شکایت دی ہےاس لیے فی الفوراس معاملہ میں ایف آئی آر درج نہیں کی جاسکی ‘‘۔
پولس کمشنر نے بتایا کہ اول تومتاثرہ سے رابطہ کر کے یہ معلوم کیا جائے گا
کہ وہ عائد کردہ الزامات پر قائم ہے یا نہیں، تصدیق کے بعد آگے کی قانونی
کارروائی کی جائے گی۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن جب پولس متاثرہ کے گھر
تفتیش کے لیے پہنچی تو اس پر قفل پڑا ہوا تھا ۔ پولس اس لڑکی کو تلاش کرنے
میں ناکام رہی اس لیے دروازے پر خط چپکا کر لوٹ آئی۔ ڈپٹی کمشنر نے بتایا
کہ پولس والوں نے پڑوسیوں سے پوچھا تو انہوں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا
لیکن انڈین ایکسپریس کو پڑوسیوں نے بتایا کہ وہ حال میں کہیں اور منتقل
ہوگئے۔ اب یہ مزید تحقیق کا موضوع ہے کہ وہ خوف سے زیر زمین چلے گئے یا
انہیں غائب کردیا گیا۔ مودی جی کے آدرش گجرات میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
سہراب الدین اور پرجاپتی معاملے میں ہر روز مکرنے والے گواہوں سے صوبہ
گجرات کے دہشت زدہ ماحول کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سوال یہ ہے شکایت کرنے کے بعد وہ لڑکی اپنے خاندان سمیت کیوں غائب ہوگئی
؟اس کا جواب اترپردیش میں سنبھل کے اندرانہیں دنوں رونما ہونے والی ایک
واردات میں ہے۔ یہ ہیبتناک واقعہ راج پورا تھانہ کے پاٹھک پور گاوں میں پیش
آیا۔ وہاں پر ایک خاتون کی جلی ہوئی لاش ملی ۔ متوفی کے اہل خانہ کا الزام
ہے کہ گاوں کے چار بدمعاش نوجوان آئے دن اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیا کرتے
تھے۔جب اس خاتون نے مخالفت کی تو بات بڑھ گئی اور بدمعاشوں نے پہلے تو
خاتون کے گھر میں گھس کر اسے زدوکوب کیا اور پھر اسے گھر سے اٹھاکر لے گئے۔
اہل خانہ کے مطابق خاتون کے ساتھ عصمت دری میں ناکام ہونے پر ان لوگوں نے
اس جھونپڑی کو آگ لگادی جس میں اسے یرغمال بنایا گیا تھا۔وہ عورت ایک ۶
سالہ بچی کی ماں تھی۔ اس کا شوہر دہلی میں کام کرتا ہے۔ پولیس نے لاش کو
قبضے میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لئے بھیج دیا ہے۔ اس واردات سے اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ بی جے پی سرکار میں اگرعام دبنگ کسی ابلہ ناری کو زندہ
جلاسکتے ہیں تو اس جماعت کا صوبائی نائب صدر کیا نہیں کرسکتا؟
گجرات کی دوشیزہ کو اگر خاطر خواہ تحفظ فراہم نہیں کیا گیا تو بیچاری کبھی
آگے آکر شکایت نہیں کرسکے گی۔ ہر کسی کے اندر ہاپوڑ ہجومی قتل کے چشم دید
گواہ سمیع الدین کی طرح کاحوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ خود بری طرح زخمی ہیں۔
ہاتھپیر میں فریکچر، سر میں ٹانکے ہیں، پسلی ٹوٹی ہوئی ہے اس کے باوجود
اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہےگاؤں کے لوگوں نے پیٹ پیٹ کر
قاسم کو مار ڈالا اور خودانہیں مرا سمجھ کر چھوڑ دیا۔ وہ اس جھوٹ کا انکار
کرتے ہیں کہ قاسم گئوکشی کر رہا تھا اس لیے کہ نہ تو وہاں سے کوئی گائے
برآمد ہوئی اور نہ ہی ذبح کرنے کا سامان ملا۔ حدتو یہ پولس نے ابھی تک ان
سے بیان نہیں لیا۔ وہ پولس کی ایف آئی آر کو جھوٹا قرار دے کر جوڈیشل
مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان درج کرانے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ سمیع الدین اس
بات پرخدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ وہ موت کے منہ سے لوٹے آئے اور اس عزم
کا اظہار کرتے ہیں، اب انہیں سچ بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
اس معاملے میں پلکھوا پولس کمال جانبداری کررہی ہے ۔ اس نے سنگین معاملے کو
موٹر سائیکل کا معمولی جھگڑا قرار دے کر رفع دفع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
قاسمقتل کے ملزم یودھسٹھر کو سیشن کورٹ سے ضمانت مل گئی ہے۔ ہجومی قتل کی
ویڈیو کے وائرل ہونے کےباوجود پولس کا رویہ افسوسناک ہے۔اس معاملے کا ایک
حوصلہ افزا پہلو یہ ہے کہ موضع ہنجالپور کے رہائشی دنیش تومر نے کھل کر
پولس کے خلاف بیان دیا ہے کہ اس نےملزمنا کو بچانے کے لئے متاثرین پر دباؤ
بنایا اور غلط ایف آئی آر درج کی گئی۔ دنیش تومر کے مطابق سی او پی کے سنگھ
نے ان کے سامنے ہی سمیع الدین کے بھائی یاسین سے کہا کہ جو وہ بولیں وہی
لکھنا ہوگا۔ پولس نے سمیع الدین اور ان کے اہل خانہ کو گئو کشی کے الزام
میں جیل بھیجنے کی دھمکی بھی دی۔
سمیع الدین کے بھائی یاسین نے بھی اپنے اوراہل خانہ کی جان کو خطرہ بتایا
ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھانہ میں لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ’’اب مودی یوگی کی
حکومت ہے، تم لوگوں کی سنوائی نہیں ہوگی۔‘‘ یاسین نے بھی آئی جی میرٹھ کے
نام درخواست دے کر جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے بیان درج کرانے کی عرضی داخل کی
ہے۔اس معاملہ میں متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے سپریم کورٹ کی سینئر
ایڈوکیٹ ورندا گروور سرگرم عمل ہیں۔ وہ متاثرہ خاندان کو قانونی مدد دے رہی
ہیں۔ انہوں نے پولس کے کردار کو انتہائی شرمناک بتایا۔ ورندا نے کہا ہے کہ
تینوں گواہوں کی درخواست یوپی پولس کے اعلی افسران کو بھیج دی گئی ہے اور
اگر اسے نظر انداز کیا گیا تو عدالت عالیہ سے رجوع کیا جائے گا۔
مودی اور یوگی سرکار میں نظم و نسق کی جس طرح دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اس کی
مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اس کے باوجود وزیراعظم اس جانب توجہ دینے کے
بجائے سیاسی جملے بازی میں مصروف ہیں ۔ مودی جی اگر الٹے لٹک جائیں تب بھی
مسلم خواتین بی جے پی کے جھانسے میں نہیں آئیں گی لیکن اگر وہ اسی طرح
ہندو سماج کی خواتین کو نظر انداز کرتے رہے اور خود ہندوتوادیوں کے جبر سے
اترپردیش اور گجرات کے انہیں بچانے میں ناکام رہے تو اس کی بہت بڑی قیمت
چکانی پڑے گی۔ وہ کبھی بھی کسی مظلوم ہندو خاتون سے ہمدردی کا اظہار نہیں
کرتے اور نہ کوئی ٹھوس اقدام کرتے ہیں۔ مودی جی کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو
۳۱ فیصد ووٹ بی جے پی کو ملے تھے ان میں سے ۱۵ فیصد ہندو خواتین تھیں۔ اگر
ان میں سے ۵ فیصد نے بھی حکومت کے اس مایوس کن رویہ سے بیزار ہوکر کمل کا
ساتھ چھوڑ دیا تو بی جے پی کی لٹیا ڈوب جائے گی اور مودی جی کو اپنا جھولا
اٹھا کیلاش پربت کی طرف جانا پڑے گا۔
|