"آج کا مرد مظلوم ہے "( مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ،
پیشگی معذرت )
کیا آج کا مرد مظلوم ہے؟
خواتین و حضرات مجھے تعجب ہورہا ہے کہ آج ہم اس موضوع پر بات کر رہے ہیں۔
جی نہیں آج کا مرد مظلوم ہرگز مظلوم نہیں ہے۔ بلکہ معذرت کے ساتھ بزدل ہے۔
اگر آج کا مرد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے رستے
پر چلے تو اس کو اپنی مظلومیت کا ڈھول پیٹنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔آج کے
مرد نے مظلومیت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے وہ اپنے جیسے عظیم مردوں کا راستہ
فراموش کرچکے ہیں۔
ابتدائے آفرینش پر اگر نظر ڈالیں تو للہ نے آدم کا پتلا بنایا تھا جب کہ
اماں حوا کو ان کے پہلو سے پیدا کیا۔ آدم اکیلے اداس تھے ، اللہ تعالی نے
حوا کو ان کی قربت اور رفاقت کے لئے پیدا کیا۔ دنیا میں پیغمبری کی سعادت
ہمیشہ مردوں کے حصے میں آئی۔ قرآن پاک میں بھی عورتوں کے اوپر مردوں کی
حاکمیت ثابت ہے۔ ہے کہ:﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا
فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ
أَمْوَالِہِمْ﴾(النساء ،آیت 64)مرد عورت کے نگراں اور حاکم ہیں، اس لیے کہ
اللہ تعالیٰ نے ایک صنف (قوی )کو دوسری صنف (ضعیف)پر بڑائی دی ۔
اللہ تعالی نے مردوں کو جہاد پر جانے کی فضیلت سے نوازا ۔محمد بن قاسم ،
سلطان صلاح الدین ایوبی ہو یا طارق بن زیاد تمام بڑے فاتح مرد تھے۔یہ تو
میں نے آپ کو ماضی کا آئینہ دکھایا اب بات کرتے ہیں دور جدید کے مرد کی۔ جس
کو مظلومیت کا دعوی ہے ۔آج کا مرد بزدل ہے۔ وہ گھر میں ہی انصاف کا میزان
تھام نہیں سکتا ۔ وہ اپنی ماں ، بہن ، بیوی ، بیٹی کے بیچ توازن نہیں رکھ
پاتا ۔حق بات پر آواز نہیں اٹھا پاتا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورتیں نڈر
ہوگئیں ۔کہیں ساس بہو کو جلا رہی ہے ،تو کہیں بہو ساس کو زدوکوب کررہی
ہے۔کہیں نندیں اور ساس مل کر بہو کو طلاق دلوانے میں کامیاب ہیں ،تو کہیں
بہو نے بیٹے کو گھر والوں سے متنفر کردیا ہے۔ خاندانی نظام میں یہ بدسکونی
درحقیقت مرد کی مظلومیت کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ اس کے بزدلی کی دلیل ہے۔
جو مرد یہ کہتا ہے کہ" بیویاں بہت مل جاتی ہیں مگر ماں ایک بار ہی ملتی
ہے۔"
کیا یہ بیان کسی مسلمان اور صالح مرد کا ہوسکتا ہے؟ اسلام نے ہر رشتے کو اس
کی جگہ دی ہے۔ ماں اور بیوی دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے۔ مگر آج کا مرد
انصاف کرنے سے قاصر ہے۔ کہیں مظلوم ماں کے آنسووں سے نظر چراتا پھرتا ہے تو
کہیں مظلوم بیوی کی شکوہ کناں نظروں سے دور بھاگتا پھرتا ہے۔
اب اگر معاشی میدان پر نظر ڈالیں تو مرد کو کماو بیوی چاہیے ۔ آج کل رشتے
طے کرتے وقت
ڈاکٹر،انجینئر،لیکچرار کو ترجیح کیوں دی جاتی ہے؟
مرد اب چاہتا ہے کہ بیوی کمائی میں بھی برابر کا حصہ ڈالے۔ بڑے دھڑلے سے
بیوی کی ساری کمائی نان نفقے پر خرچ کرتا ہے جس کو پورا کرنا اگرچہ اس کی
زمہ داری ہے۔
گھریلو کاموں کی طرف دیکھئے ہم عورتیں ہر کام کو سنبھالتی ہیں ۔بچوں کی
نگہداشت ہو، صفائی ستھرائی ہو، گھر کی آرائش ہو ، بیمار ساس سسر کی خدمت ہو
ساری ذمہ داری عورت کی ہے۔ مرد اول اپنی نام نہاد انا کے باعث کسی کام کو
ہاتھ نہیں لگاتے اور اگر غلطی سے ہاتھ لگا دیں تو رن مریدی کا طعنہ دینے
والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
جس معاملے میں مرد حضرات بولنا نہ چاہتے ہوں وہاں منہ میں گھنگنیا ڈال کر
بیٹھے رہتے ہیں مگر جہاں اپنا مفاد ہو وہاں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ چار
شادیوں کا حق اللہ تعالی نے مرد کو عطا کیا ہے۔ اس لئے کہ اس کے ہاتھ میں
عدل کا میزان دیا ہے۔ مگر آج کے دور میں وہ مرد بھی جو عید کے عید نماز
پڑھتا ہے وقت پڑھنے پر چار شادیوں اور شرعی حق مہر کا راگ الاپتا نظر آتا
ہے۔
آج تک آپ نے کسی مرد کو بے اولادی کے طعنوں سے چھلنی ہوتے دیکھا ہے؟
ہمیشہ عورت کو بنجر ہونے کا طعنہ ملتا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ آج کا مرد
مظلوم کیسے ہوگیا؟
جس معاشرے میں مرد کے کردار کا پیمانہ یہ ہو کہ مرد نہا دھو کر صاف ہوجاتا
ہے وہاں پر مظلوم کیسے ہوگیا؟
ہمارے معاشرے میں اکثر گھروں شادی بیاہ کے فیصلے مرد حضرات طے کرتے ہیں
۔بعض اوقات ذبردستی کی شادیاں کروانے میں مرد حضرات ہی پیش پیش ہوتے ہیں۔
یہ کون کہتا ہے کہ مرد پٹتا ہے؟
میں نے تو اس کو پیٹنے والا ہی دیکھا ہے۔ مرد کا ہاتھ بیوی یا بیٹی پر
اٹھتا ہے مگر اپنی ماں اور بہن کے لئے عزت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھٹتا ۔
اگر ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں نظر دوڑائیں تو کیا اس وقت
کا مرد ایسا تھا؟
نہیں ! اسلام نے اگر مرد کو حاکم بنایا ہے تو اسے محبت، شفیق، ضروریات پوری
کرنے والا، انصاف کرنے والا، عادل کا درجہ بھی دیا ہے ۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔
مرد کی رعیت اس کے گھر والے ہیں ۔کیا آج کا مرد اپنے حقوق و فرائض پورے
کررہا ہے؟
نہیں ! تو پھر مظلومیت کی آہ و بکا کیوں؟
|