سب تعریفیں اسی عظیم الشان ذات
کے لیے ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا اور اسے رنگ برنگی مخلوق سے سجایا۔ دن
کی روشنی اور اس میں قسم قسم کی زندگی کی رعنائیاں، پھولوں کے رنگ و بناوٹ
اور خوشبوئیں، سبزہ زار،باغات اور لہلہاتے کھیت، گیت گاتے پرندے، طرح طرح
کے جانور،بل کھاتی ندیاں، آبشاریں اور جھرنوں بہتا پانی، مرغزار وں اور برف
زاروں کے نظارے اور تتلیاں، ہواؤں کی گردش، گھٹائیں، گرجتے بادل ، کڑکتی
بجلیاں، بارشیں، دریا ، سمندر، پہاڑ، درخت، رنگارنگ مخلوق اور نجانے کیا
کچھ۔ رات کی تاریکی کا پردہ اور سکون ، قندیلوں کے مانند خوبصورت ٹمٹماتے
ستارے اور ان کی راہ دکھلاتی حسین روشنی اور دل میں طلاطم برپا کرتی ٹھنڈی
مسحور کن چاندنی۔ یہ ساری چیزیں بامقصد اور کسی نہ کسی طرح انسان کی خدمت
میں لگی ہوئيں اور اس کو راحت پہنچا رہیں ہیں۔ یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں
جن پر اگر کھلے دل و دماغ سے غور کیا جائے تو یہ بلاشرکت غیرے بس اپنے خالق
و مالک ہی کے کامل علم وحکمت ،بےمثال عظمت و قدرت اور بےنیاز وحدانیت پر
دلالت کرتی ہیں۔
اللہ تبارک تعالیٰ کی تخلیق کردہ کائنات اور اس کی ہر ہر چیز بامعنی،
بامقصد اور خدا کے متعین کردہ اپنے کام میں مصروف نظر آتی ہے۔ جیسا کہ قرآن
پاک میں سورۃ (ص) میں ارشاد ہو رہا ہے ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس
دنیا کو جو ان کے درمیان ہے فضول پیدا نہیں کردیا ہے۔ یہ تو ان لوگوں کا
گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے، اور ایسے کافروں کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ
سے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ کی پیدا کردہ یہ اتنی ساری چیزیں انسان
کے فائدے کے کام اور اس کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں، اور جہاں سب کچھ ہی
بامقصد ہے تو آخر اس عظیم مخلوق یعنی حضرت انسان کی تخلیق بے مقصد کیسے ہو
سکتی ہے؟آخر اس اشرف المخلوقات کے پیدا کیے جانے کا کیا مقصد ہے؟ اور یہ
ایک ایسا سوال ہے کہ جو اگر ہم لوگوں سے پوچھیں تو کوئی بڑا خوش نصیب ہی ہو
گا جس نے اپنی زندگی کا شعوری مقصد وہ رکھا ہو جس کے لیے حقیقتا ہمارے رب
نے ہمیں پیدا کیا ہے۔
ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے؟ ہمیں خدا نے یہ زندگی کیوں دی ہے اور ہمیں کیا
کرنا چاہیے؟ ہمیں زندگی کا کیا مقصد رکھنا چاہیے اور آیا ہم اپنی تخلیق کا
مقصد پورا کر رہے ہیں یا نہیں؟
سورة الذاريات میں ارشاد پاک ہے ”میں نے جِن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی
کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ میں ان سے کوئی رزق
نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزاق
ہے، بڑی قوت والا اور زبردست“ ۔
اپنے خالق کی بندگی و اطاعت ہی ہمارا مقصد تخلیق ہے۔ رزق کا حصول اور اس کی
دوڑ دھوپ ہماری پیدا کیے جانے کا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ تمام چیزیں ضروریات
ہیں اور ہمیں ان کے حصول کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس لیے پیدا کیا
گیا ہے کہ جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور جو رزق دیتا ہے، پرورش کرتا ہے اور
ہماری زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہےاسی کی عبادت وپرستش اور اطاعت
و بندگی کی جائے۔
خود پروردگار عالم ارشاد فرما رہا ہے سورة الروم (30 ) ”اللہ ہی ہے جس نے
تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ
تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان
میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟ پاک ہے وہ اور بہت بالاوبرتر ہے اُس شرک سے
جو یہ لوگ کرتے ہیں۔“
تو کسی دوسرے کو شریک کیے بغیر اپنے خالق، مالک، رازق اور حقیقی معبود کی
بندگی ہی ہمارے پیدا کیے جانے کا مقصد ہے۔ اور ہمارے انسان ہونے کے مقام کی
حقیقی عزت ورفعت اور شرف اسی میں ہے کہ ہم بس اپنے رب ہی کی بندگی کریں۔
ورنہ ہمارا جسمانی وجود تو ایک وقت مقرر تک زندہ رہے گا لیکن ہمارا حقیقی
وجود اپنا مقصد پورا نہ کرنے کی بنا پر بے کار ہوجائے گا اور جسمانی موت سے
بہت پہلے ہی جیتے جی مر جائے گا۔ اس طرح اللہ کی نشانیوں پر توجہ نہ کر کے
توحید سے غافل رہنے اور اپنے رب کی بندگی کا یہ مقصد پورا نہ کرنے پر ہماری
زندگی حقیقی علم کی روشنی سے محروم ہو کر اندھیروں میں بھٹکتی ایسی حیوانی
زندگی رہ جائے گی کہ جس کا مقصد پیٹ کے پیچھے ہی دوڑتے رہنا، کھانا پینا،
افزائش نسل اور آسائشوں کی تلاش کے علاوہ اور کچھ نہ رہ جائے گا، ایسے ہی
غافل لوگوں کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے سورة الأعراف - 7 آیت - 179 ”ان
کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے
دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ تو جانوروں کی
طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جوغافل ہیں۔“
روئے زمین پر زندگی کا یہ ہنگامہ، یہ مال و اولاد، یہ رونقیں اور چکا چوند،
اچھے برے حالات، یہ سب ایک ابتلاء و آزمائش کے سامان کے سوا اور کچھ بھی
نہیں۔اور ہماری پیدائش کا ایک مقصد یہ امتحان لینا ہے کہ کون اللہ کی دی
ہوئی سماعت و بصارت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو استعمال کر کے اللہ
اور اس کے رسولوں، اور آئمہ علیہ السلام پر ایمان لاتا ہے اور اعمال صالحہ
کرتا ہے اور اس طرح اپنے آپ کو اشرف المخلوقات اور اللہ کا حقیقی نائب ثابت
کرتا ہے۔
اللہ نے اگر مال دیا ہے تو اسی لیے عطا کیا ہے اس سے زکواۃ اور صدقات دیے
جائیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ صاحب استطاعت ہیں تو یہ استطاعت
اللہ نے حج ہی کے لیے دی ہے۔ خدا نے طاقت دی ہے، وقت دیا ہے، صلاحیت دی ہے،
مال دیا ہے، اقتدار دیا ہے، علم دیا ہے غرض جو بھی نعمت عطا کی ہے تو اسی
لیے کہ خدا ہی کی بخشی نعمت کو کسی طرح اللہ کے کسی کام میں کھپا دیا جائے۔
اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم ملازمت، تجارت یا روزی کمانے کے لیے جو بھی حلال
کام کریں اس میں اللہ کے احکامات کے مطابق اسی کو راضی کرنے کے لیے پوری
دیانت داری سے کریں حلال کھانا، خیانت نہ کرنا اور خلق خدا پر ظلم نہ کرنا
ہی اللہ کی بندگی ہے۔ ہم میں جو صاحب اقتدار و حیثیت ہیں تو نماز، روزہ،
زکواۃ کے ساتھ ساتھ اپنے فیصلوں کو اللہ کے فیصلوں کے ماتحت کریں کہ یہ بھی
اللہ کی اطاعت و بندگی ہے۔ آمین |