دس میں کی سیاست اچ کھٹیا،،،،

کیا وجہ ہوئی کہ سب سے بڑے سیاسی دشمن کو سب سے بڑا رفیق ماننا پڑ گیا،، میری رسوائی میں وہ بھی ہیں برابر کے شریک،میرے قصے میرے یاروں کو سناتا کیا ہے،،اس میں کوئی دورائے نہیں کہ چکوال کی سیاست میں سب سے ذیادہ ووٹ بنک اگر کسی کے پاس تھا تو وہ سردار عباس تھے،اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ پورے ضلع میں لاوہ سے سوہاوہ تک اور ڈھڈیال سے منارہ تک اگر کسی شخصیت کے لیے ہرگاؤں دیہات میں کوئی نہ کوئی بیٹھک کھل جاتی ہے تو وہ سردار غلا م عباس ہیں،مگر آج اتنی مقبولیت کے باوجود سردار عباس میدان سیاست میں کہاں کھڑے ہیں،کبھی وقت نے انہی وقت دیا تو اکیلے بیٹھ کے وہ سوچیں گے ضرور کہ انہیں اس حال تک پہنچانے والے کون ہیں ،دوسری طرف اگر سیاست کا مقصد پیسہ کمانا ہے یا زمینیں ا ور جائیداد بنانا تب تو سردار غلام عباس خان کو ایک کامیاب سیاستدان قرار دیا اجا سکتا ہے مگر شومئی قسمت کہ سیاسی میدان میں عملاً کامیاب اور ہر پل موجود رہنے کے لیے پیسے کے عمل دخل کے علاوہ ایک اور چیز بھی ازحد ضروری ہے اور وہ ہے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ،سیاست ٹائمنگ اور صحیح وقت پر صحیح فیصلے کا دوسرا نام ہے،صحیح فیصلہ غلط وقت پر ہوا تو بربادی اور صحیح وقت پر فیصلہ غلط ہو گیا تو تباہی،بدقسمتی یہ ہے کہ یہ تباہی ایک یا دو دنوں پہ موقوف نہیں ہوتی اکثر اوقات یہ پورا کیریئر اڑا لے جاتی ہے اگر کوئی قسمت کا دھنی کیرئیرکسی نہ کسی حد تک بچا لے توعزت و ناموس سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور اپنے ہاں ایسے لوگوں کے لیے نجانے کس منچلے نے لوٹے کی اصطلاح مشہوکی اور اب اس اصطلاح کا ایسا چلن ہو ا کہ جو کوئی بھی کسی وقت اپنی پارٹی چھوڑ کر کسی اور پارٹی میں جاتا ہے اس پر فورا ً یہ لیبل فکس ہو تا ہے اور پھر یوں چپکتا ہے کہ ا کثر و بیشتر قبر تک جسم و لباس پر موجود رہتا ہے،اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو سردار غلام عباس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا،سردار غلام عباس نے پاکستا ن پیپلز پارٹی سے اپنی سیاست کا آغاز کیا، اپنے الگ انداز سیاست کی وجہ سے فوراً ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریب ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے ،بے نظیربھٹو نے ان کا عوامی سٹائل پسند کرتے ہوئے نہ صرف انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا بلکہ پنجاب میں وزیر بنا دیا،پارٹیوں میں اونچ نیچ اور گرم سرد موسم کا سلسلہ چلتا رہتا ہے،پاکستان میں تو یہ سلسلہ شب و روز جاری رہتا ہے،پارٹی کے برے دنوں میں سیاستدانوں پر مختلف قسم کے دباؤ آتے ہیں جنہیں بہت کم لوگ براشت کر کے وہیں ڈٹے رہتے ہیں اکثریت وقت کا دھار ادیکھ کر موسم کے ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کر لیتے ہیں اور حالات کے ساتھ چپ کر کے سمجھوتہ کر لیتے ہیں،سردار غلام عباس نے بھی پیپلز پارٹی پر زرا سا کڑا وقت آنے پر اپنا ٹھکانہ بدل لیا اور نہ صرف پی پی پی کو چھوڑدیا بلکہ بے نظیر بھٹو کی بے پایاں محبت بھی ان کے پاؤں کی زنجیر نہ بن سکی،اس کے بعد کچھ عرصہ آزادانہ سیاست کی اور ملک میں مارشل لا ٗ لگا تو مشرف کی ٹیم کا حصہ بن گئے،مشرف نے بلدیاتی سسٹم رائج کیا تو سردار عباس نے ق لیگ کے چوہدریوں کے ہاتھ پہ بیعت کر کے بڑھ چڑھ کر اس نظام میں حصہ لیا اور دو دفعہ ضلع بھر کے ناظم رہے،کہتے ہیں وہ سردار عباس کی سیاست کا عروج تھا اور یہ کچھ اتنا غلط بھی نہیں اس عرصے میں سردار عباس کی سب سے بڑی کامیابی چکوال میں سیمنٹ فیکٹریوں کی مد میں بھرپور سرمایہ کاری تھی جس سے اربوں روپے کا سرمایہ چکوال میں انویسٹ ہوا،ان فیکٹریوں کی تعمیر میں جہاں ایک طرف اہل علاقہ کو خصوصاً پانی اور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے شدید تحفظات تھے وہیں بہت سے لوگوں نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ بھی رنگے،چکوال میں سیمنٹ کے بڑے بڑے پلانٹ تو لگ گئے مگر شہر کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کا پانی تھا جسے سردار عباس خاطر خواہ حل نہ کر سکے اس کے علاوہ آنجہانی ریلوے ٹریک کے لیے بھی متعدد دفعہ شہنشاہ جذبات بنے ایک بار تو چوا سیدن شاہ میں مشرف سے ریلوے ٹریک کے لیے جھولی تک پھیلا دی مگر ٹریک نہ بننا تھا نہ بنا،مشرف کے جانے کے بعد جب پیپلز پارٹی کا دور آیا تو سردار عباس کو پیپلز پارٹی میں مناسب جگہ نہ ملنے پر سردار صاحب نے ایک بہت بڑے جلسہ عام کا اہتمام کر کے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی اور بھرے جلسے میں اعلان کیا کہ عمران خان ہی وہ واحد رہنما ہے جو پاکستان کو بھنور سے نکال سکتا ہے میری بقیہ زندگی کی سیاست اب پی ٹی آئی کے ساتھ ہو گی واضح رہے اسی قسم کا اعلان جناب بلدیہ چکوال میں تحصیل ناظم آفتاب اکبرکے دفتر میں پرویز مشرف کے بارے میں بھی کر چکے تھے،پی ٹی آئی میں شمولیت کے وقت عمران خان نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ سردار عباس کے آجانے سے پی ٹی آئی ضلع کی سب سے بڑی جماعت بن گئی،مگر کچھ ہی عرصہ بعد سردار عباس کی طبیعت نے حسب معمول انہیں چین نہ لینے دیا او ر وہ عمران خان کے وزیر ستان مارچ کے موقع پر عمران خان کے گاڑی سے باہر نہ نکلنے کو جواز بنا کر پی ٹی آئی پر تین حرف بھیج کر الگ ہو کر بیٹھ گئے،اسی دوران دوالمیال میں مسلمانوں اور قادیانوں میں شدید تصادم ہو گیا ،جس کے بعد دونوں طرف سے متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا مسلمانوں کی تعداد غالباً زیادہ تھی جو گرفتار ہوئے اس وقت تلہ گنگ کے ایک صاحب جو آج سردار صاحب کے اتحادی ہیں نے سردار عباس پر قادیانیوں کی حمایت او ر اس طرح کے دیگر سنگین نوعیت الزامات کے ہینڈ بل مارکیٹ میں تقسیم کر دیے جس کے بعد سردار عباس کو باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے اپنے ایمان اور اس سارے عمل کی وضاحت کرنا پڑی،اس کے بعد سردار غلام عباس کی جب ن لیگ میں جانے کی ہاہا کار مچی توہم تین چار جرنلسٹس چکوال سے سیدھے سردار عباس کے کیمپ جا پہنچے اور اس بابت معلوم کیا تو سردار صاحب نے جواب دیا میں ابھی عمرہ کر کے واپس آ رہا ہوں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں اب سیاست اگر کروں گا تو صرف پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ ہی کروں گا چند دن گذرے پتہ چلا موصوف میاں صاحب کو پیا رے ہو گئے،نانی خصم کیا برا کیا کر کے چھوڑ دیا اور برا کیا کے مصداق جناب نے پی ٹی آئی میں جانا ہی نہیں تھا اور اگر چلے گئے تو پھر ادھر ہی ٹکنا تھا،مگر کیا بر تھا مرنا جو ایک بار ہوتا ادھر بھی سردار صاحب کی لاابالی طبیعت کو آرام نہ آیا ،ایک بلدیاتی الیکشن کا معرکہ اور دو ضمنی الیکشنز بھرپور انداز میں ن لیگ کے امیدواروں کو کامیاب کروائے اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی ،ایک دن اچانک سردار عباس کو پتہ چلا کہ جن کے لیے میں نے اپنا تن من دھن ایک کر رکھا ہے اور اپنا لیڈر تسلیم کیا ہوا ہے وہ تو غدار اور دشمن کے ایجنٹ ہیں،بے سروپا الزامات کا سہار ا لے کر ن لیگ کو چھوڑ کر دوبارہ کھلاڑی بن گئے،پی ٹی آئی کو سردار عباس کا جائن کرنا ان کے حلقے کے عوام کو تو پسند نہ آنا ہی تھا مگر شاید قدرت کو بھی اب کے با ر سردار عباس کی یہ قلابازی پسند نہ آئی اور ن لیگ کو چھورتے ہی سردار عباس کا ڈھلان کا سفر کچھ ایسا شروع ہوا کہ پاتال تک پہنچ گیا ،ستم ظریفی دیکھیے کہ کل آنے والے سیاسی بچے میدان میں ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ ذاتی ووٹ بنک رکھنے والا چکوال ضلع کا سب سے بڑا سیاستدان انتخابی میدان سے باہر حسرت و یا س کی تصویر بنے بیٹھا ہے،آج سردار عباس ہر قسم کا الیکشن لڑنے سے ہمیشہ کے لیے نا اہل ہو چکے ہیں کچھ لوگ اسے مکافات عمل کا نام بھی دیتے ہیں کہ انہی سردار صاحب نے دوسری بار ناظمین کیالیکشن میں جنرل عبدالمجید کو ایسے ہی دن دکھائے تھے جن کا آج انہیں سامنا ہے،تاہم جو کچھ بھی ہے کہ ایک بات طے ہے کہ انہیں اس حال تک پہنچانے میں جہاں قدرت کا بہت بڑا عمل دخل ہے وہیں ان کے نااہل مشیر جن میں ذیادہ تعدا بلے بلے اور بھاگ لگے رہن والوں کی ہے بھی برابر کے حصے دار ہیں،میں نے تیرہ اپریل کوروزنامہ نوائے وقت میں ایک کالم سردار عباس کا ہاتھ اور ایم این اے کی لکیر میں تحریر کیا تھا کہ ن لیگ چھوڑ کر آپ نے بہت بڑے گھاٹے کا سودا کیا ہے شاید آپ کے ہاتھ میں ایم این اے کی لکیر ہی نہیں ،جس پر مجھے سردار صاحب کے بہی خواہوں کی جانب سے تند و تیز جملوں کا سامنا کرنا پڑا تھا میرا جواب یہ تھا کہ میں نجومی نہیں نہ ستاروں کی چال کا الٹ پھیر سمجھتا ہوں حالات دیکھ کر اور سردار صاحب جیسے سیساستدان کی یوں اوپر تلے ایک سے دوسری پارٹی میں چھلانگیں لگانے سے دکھ ہوا کہ یہ سب کچھ کر کے اپنی سیاست کا ستیاناس کر رہے ہیں کیا کوئی ایک بھی نہیں ان کے آس پاس جو انہیں روک پاتا کہ یہ سب آپ کو زیبا نہیں ہے آپ اس ضلع کے سب سے بڑے سیاستدان ہیں آپ پارٹیوں کے پیچھے مت بھاگیں انہیں اپنے قدموں میں بلائیں کیا ہی اچھا ہو تا آپ الیکشن ٹریبیونل سے ناہلی کی صورت میں ہائیکورٹ کے بعد سپریم کورٹ نہ جاتے اور اب کی بار آپ کنگ بننے کی بجائے کنگ میکر بن جاتے ،کسی ایک جماعت میں ٹک کے بیٹھتے اور آج ضلعی سیاست پر راج کر رہے ہوتے،مگر حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے رب کو پہچانا،آپ بھی رب کو یقیناپہچان گئے ہوں گے اور دعا ہے کہ وہی رب آپ کو دوست دشمن کو پہچاننے کی بھی توفیق عطا کرے، کیا وجہ ہوئی کہ سب سے بڑے سیاسی دشمن کو سب سے بڑا رفیق ماننا پڑ گیا،،، میری رسوائی میں وہ بھی ہیں برابر کے شریک،میرے قصے میرے یاروں کو سناتا کیا ہے،،،