ہم تو سمجھے تھے کہ دہشت گرد نامی ’’چوہے‘‘ یا تو واصلِ
جہنم کر دیئے گئے یا پھر دُم دبا کر بھاگ گئے۔ لیکن پشاور، بنوں اور مستونگ
میں یکے بعد دیگرے خودکُش حملوں اور بم دھماکوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ابھی
اِن ’’چوہوں‘‘ میں کچھ جان باقی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بجھتے دیئے کی وہ ’’
لَو‘‘ ہو جو دَمِ واپسیں کچھ زیادہ ہی بھڑکتی ہے ۔ لیکن اغلب گماں یہی کہ
دہشت گردی کی اِن وارداتوں میں ہمارے’’ جہنم سے نکلے ہوئے‘‘ پڑوسی بھارت کا
ہاتھ ہے جو دفاعی طور پر مضبوط پاکستان کو کسی بھی صورت میں معاشی طور پر
مضبوط ہوتا نہیں دیکھ سکتا ۔ جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے، تب سے
بھارت کی ایسی ہی مذموم حرکات جاری ہیں کیونکہ اُس کے خطّے کا چودھری بننے
کے خواب کی سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہی تو ہے۔ اقتصادی راہداری کی تکمیل
اُس کے اِس خواب کو چکناچور کر رہی ہے،اِسی لیے اُس کے پیٹ میں مروڑ اُٹھتے
رہتے ہیں اور وہ پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لیے غیرانسانی
حربوں کو بھی جائز سمجھتا ہے۔
نائن الیون کے بعد افغانستان پر مسلط کی جانے والی اندھی امریکی جنگ میں
پاکستان امریکہ کا اتحادی بنا۔ ایک طرف آمر پرویز مشرف نے امریکیوں کے لیے
پاکستان کے دَر وا کر دیئے تو دوسری طرف بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے اپنی
مذموم سرگرمیوں کو مہمیز دی اور طالبان نامی دہشت گردوں کی دامے، درہمے،
سخنے، قدمے مدد شروع کر دی۔ تب سے اب تک اِس اندھی جنگ میں ہمارے 10 ہزار
سے زائد فوجی جوان اور 60 ہزار سے زائد شہری شہید ہو چکے ہیں۔ معیشت کی
بربادی کے علاوہ 100 ارب ڈالر سے زائد ہم اِس جنگ میں جھونک چکے جبکہ
امریکہ کی طرف سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی صورت میں جو ملا، وہ ’’اونٹ کے مُنہ
میں زیرہ‘‘ کے مترادف۔ پیپلز پارٹی کے دَور میں افواجِ پاکستان نے طالبان
کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ سابق صدر آصف زرداری تو اِس آپریشن کے لیے ہرگز
تیار نہ تھے لیکن جب امریکہ دھمکیوں پر اُتر آیا تو سوات میں آپریشن شروع
ہوا۔ نوازلیگ کے دَور میں آپریشن ضربِ عضب اور پھر رَدالفساد کی صورت میں
پہلے جنوبی ،پھر شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں سے پاک کیا گیا۔ زیادہ تر
جہنم واصل ہوئے اور بچے کھُچے افغانستان بھاگ گئے جہاں اُن کا سرپرست بھارت
موجود تھا۔ پاکستان نے اقوامِ عالم کو دہشت گردی کی اِن وارداتوں میں بھارت
کے ملوث ہونے کے ڈوزیئر بھی دیئے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ وجہ
اُس کی یہ تھی کہ بھارت کی پشت پر امریکہ کھڑا تھا جسے خود مضبوط ومستحکم
پاکستان قبول نہیں تھا۔
نواز لیگ کے دَور میں پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے معاہدے پر دستخط ہونے
کے بعد نہ صرف بھارت بلکہ امریکہ بھی تلملاء اُٹھا کیونکہ امریکہ کو اگر
ایک طرف اقوامِ عالم پر اپنی اقتصادی گرفت مضبوط کرتا چین قبول نہیں ہے تو
دوسری طرف وہ عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت کو معاشی قوت بنتے ہوئے بھی
نہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ تو خود گوادر پر نظریں جمائے ہوئے تھاکیونکہ دنیا
کا تینتیس فیصد سے زائد تیل آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے اور گوادر اُس سے قریب
تر۔ اگر گوادر پر امریکی کنٹرول ہو جاتا تو وہ پورے خطے کا نگران بن
بیٹھتا، اِس لیے امریکہ کی تلملاہٹ سمجھ میں آتی ہے۔ اب وہ بھارت سے اپنی
دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہوئے پاکستان کو آنکھیں دکھا رہا ہے جو ہمارے نزدیک
پاکستان کی خوش قسمتی ہے کیونکہ امریکہ کے سابق وزیرِخارجہ ہنری کسنجر کے
مطابق ’’امریکہ کی دشمنی بُری لیکن دوستی اُس سے بھی بری‘‘۔ ہماری جان اِ س
’’اتحادی‘‘ سے تو تقریباََ چھوٹ چکی لیکن معاشی طور پر مضبوط پاکستان کا
خواب ابھی ادھورا ہے۔ یہ ادھورا خواب تبھی پورا ہو سکتا ہے جب ہم اندرونی
طور پر بھی مضبوط ہوں لیکن یہاں تو عالم یہ کہ مسندِ اقتدار کے بھوکے
’’گِدھ‘‘ ایک دوسرے پر جھپٹ رہے ہیں۔
جمہوری ممالک میں عام انتخابات ہوتے رہتے ہیں جن سے نہ صرف جمہوریت مضبوط
ہوتی ہے بلکہ اِنہیں ملکی استحکام کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان
میں یہی انتخابات ملکی ضعف کا باعث بنتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے دَورِ حکومت
میں ’’غضب کرپشن کی عجب کہانیاں‘‘ مشہور ہوئیں۔ اُس دَور میں پاکستان کے
ڈیفالٹ کر جانے کا خطرہ سروں پر منڈلانے لگا۔ نوازلیگ کا دَور آیا تو
’’لاڈلا‘‘دھاندلی کا شور مچاتا ہوا سڑکوں پر نکل آیا۔ 2014ء کے 126 روزہ
طویل دھرنے نے حکومت کو مفلوج کیے رکھا اور لڑکھڑاتی معیشت قریب المرگ ہو
گئی۔ پاناما کیسز نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ وزیرِاعظم میاں نوازشریف
پاناما نہیں اقامہ کی بنیاد پرنااہل ہوئے کیونکہ پانامالیکس میں تو میاں
صاحب کا سرے سے نام ہی نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ جب نااہلی ضروری ٹھہری تو
پاناما نہ سہی بہانہ سہی جو اقامہ کی صورت میں مِل گیا۔ میاں صاحب نااہل
ہوئے اور پانامہ کیس مذید تفتیش کے لیے نَیب کو بھیج دیا گیا۔ نَیب سے ہوتا
ہوا یہ کیس احتساب عدالت میں پہنچا جہاں ساڑھے نَو ماہ کی صبح و مَسا
سماعتوں کے بعد جو فیصلہ آیا، اُسے سادا لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے
کہ ملزم چور ہے نہ اُس سے چوری کا مال برآمد ہوا اور نہ اُس پر کبھی چوری
کا الزام لگا اِس لیے اُسے گیارہ سال قیدِبامشقت کی سزا سنائی جاتی ہے۔
میاں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اسلام آبادہائیکورٹ کے بنچ کو بتایا
’’ احتساب کے جج صاحب نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ بچے عام طور پر والدین کے
زیرِکفالت ہوتے ہیں لیکن دَورانِ جرح واجد ضیاء نے تسلیم کیا کہ بچے
نوازشریف کے زیرِکفالت ہونے کے ثبوت نہیں ملے‘‘۔ خواجہ حارث نے معزز عدالت
کو یہ بھی بتایا کہ میاں نوازشریف کو یہ نوٹس ہی نہیں دیا گیا کہ کیا بچے
اُس کے زیرِکفالت تھے یا نہیں۔ میاں صاحب پر فردِجرم عائد کی گئی کہ اثاثے
بے نامی دار کے نام تھے لیکن کسی گواہ نے نہیں کہا کہ بچے نوازشریف کے بے
نامی دار ہیں۔ اِس کے علاوہ ٹائٹل دستاویزات میں بھی میاں نوازشریف کا کوئی
تعلق ثابت نہیں ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ اگر بچے محترم جج صاحب کے مطابق میاں نوازشریف کے بے نامی
دار ہیں تو میاں محمد شریف مرحوم کے بے نامی دار کیوں نہیں؟ جبکہ نوّے کی
دہائی میں شریف خاندان کی پراپرٹی کے اصل مالک تو میاں محمد شریف مرحوم ہی
تھے اور وہ لندن فلیٹس میں رہتے بھی رہے تھے۔ عجیب بات ہے کہ ’’دادا‘‘ اور
’’پوتے‘‘ تو الگ کر دیئے گئے مگر درمیان سے میاں نواز شریف کو ’’اُچک‘‘ لیا
گیا کہ نااہلی کے بعد جیل بھی تو مقصود تھی۔ لاڈلا تو نااہلی کے فیصلے کے
فوری بعد سے ہی سونامیوں کو ’’خوشخبری‘‘ دے رہا تھا کہ اڈیالہ جیل شریف
خاندان کا انتظار کر رہی ہے۔ اُس کا کہا سچ ثابت ہوا اور اب میاں صاحب اپنی
بیٹی اور داماد کے ہمراہ اڈیالہ جیل میں ہیں۔
حیرت ہے کہ میاں صاحب کو سزا دینے کے لیے تو دِن رات ایک کر دیا گیا۔ ایسی
تیزی و تیزرفتاری پہلے کبھی کسی کیس میں دیکھی نہ سُنی لیکن اِس تیزی کا
اسلام آباد ہائیکورٹ میں دور دور تک نام ونشان نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ
نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر کردہ اپیلوں کی مذید سماعت جولائی
کے آخری ہفتے تک ملتوی کر دی ہے۔ شاید مطلوب ومقصود میاں نوازشریف اور مریم
نواز کو انتخابات سے دور رکھنا ہو۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ جیل میں بیٹھا
نوازشریف، آزاد نوازشریف سے کہیں زیادہ خطرناک ہے، 25 جولائی کو ہمارے اِس
خیال پر مہرِتصدیق بھی ثبت ہو ہی جائے گی۔
یہاں تمام متحارب سیاسی جماعتوں سے یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ ہوسِ
اقتدار میں اتنی دور نہ نکل جائیں کہ سوائے پچھتاوے کے کچھ باقی نہ بچے۔
دشمن تاک میں ہے اور وہ پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لیے ہر
حربہ استعمال کرنے کے دَرپے۔ عام انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لیے خودکُش
حملے اور بم دھماکے حربہ ہی تو ہیں وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ اِدھر
انتخابی گہما گہمی شروع ہوئی اور اُدھر بم دھماکے۔۔۔۔ خُدارا ! دہشت گردی
کے اِن واقعات کی ’’ٹائمنگ‘‘ پر غور کریں، انتخابی اکھاڑے میں ضرور اُتریں
مگر افہام وتفہیم کے ساتھ کہ اِسی میں قوم کی بہتری مضمر ہے۔ |