گدھا بھی کہتے ہو اور ووٹ بھی مانگتے ہو....

عمران خان قومی ہیرواور مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں ۔ان کو بات کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیئے ‘ کیونکہ زبان سے نکلی ہوئی بات پھر واپس نہیں ہوتی ۔سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری ۔ قصور شہر میں گدھے پر نواز شریف کا نام لکھ کر اسے لاٹھیوں سے اس قدر پیٹا گیا کہ گدھے کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور معصوم جانور خون میں لت پت نظرآرہا تھا یہ عمران خان کے مونہہ زور سپورٹروں کا کارنامہ ہے ۔نواز شریف خاندان کو تو چور کا خطاب بہت پرانا دے رکھا ہے اب ان کے چاہنے والوں کو بھی گدھے کاخطاب عطا کردیا ہے ۔اس سے پہلے بھی وہ پنجاب والوں کوگدھا اور جاہل قرار دے چکے ہیں ‘ لاہور والوں کو رنگ باز کے لقب سے پکارتے ہیں جبکہ کراچی والوں کو زندہ لاشیں قرار دیتے ہیں ۔سابق وزیر اعلی کے پی کے‘ پرویز خٹک اپنے قائد سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ گئے ۔ انہوں نے فرمایا میں جب کسی گھر پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ اس گھر میں رہنے والے طوائف کی اولاد میں سے ہیں ۔تحریک انصاف کے مونہہ زور قومی ترجمان فواد چوہدری کے تو کیا ہی کہنے ‘وہ ہر روز اپنے مخالفین پرچہرہ بگاڑ بگاڑ کر نئے سے نئے لفظی کوڑے برساتے ہیں ۔ میڈیا ان کے فرمودات کو اسی طرح نشرکرتا ہے ۔ ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے فرمایا کہ لاہور کا بجٹ ‘ خیبر پختونخواہ سے چار گنازیادہ ہے گویا لاہور میں تعمیر ہونے والے میگا پراجیکٹس ان سے برداشت نہیں ہوتے۔ صوبہ پنجاب اور پنجابیوں سے نفرت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ انہوں نے سرزمین پنجاب کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے جنوبی پنجاب کے تمام وڈیروں ‘ لیٹروں اور جاگیرداروں کو اس وعدے پر تحریک انصاف کے ٹکٹ بھی جاری کردیئے کہ وزیر اعظم بنتے ہی پنجاب کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردوں گا۔۔ عمران خان پنجابیوں سے ووٹ بھی مانگتے ہیں اورپنجاب کے ہی ٹکڑے کرنے پر بضد بھی ہیں ۔ کوئی غیرت مند پنجابی عمران خان کو ووٹ نہیں دے گا اور اگر کوئی دیگا تو وہ سرزمین پنجاب کا باغی تصور کیا جائے گا ۔ عمران کے ساتھ ساتھ بلاول بھی پنجاب دشمنی میں کسی سے کم نہیں ۔اگر کوئی سندھ کی تقسیم کی بات کرتا ہے تو پیپلز پارٹی سمیت تمام قوم پرست مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں اور ایسا مطالبہ کرنے والے کو ننگی گالیوں سے بھی نوازا جاتاہے ۔ لیکن یہی سندھی وڈیرے پنجاب کو متحد نہیں دیکھ سکتے۔ اگر نئے صوبے بنانے اور تقسیم در تقسیم کے عمل کو ہی آگے بڑھانا ہے تو پھر بات صرف پنجاب کی تقسیم تک محدود نہیں رہنی چاہیئے پھر کراچی اور ہزارہ صوبہ بھی بن کے رہے گا ۔ بہرکیف پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف یہ دونوں جماعتیں پنجاب دشمنی میں پیش پیش دکھائی دیتی ہیں۔ ویسے مقتدر حلقوں کی سرپرستی کو دیکھتے ہوئے عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے ۔ اب ذرا مستقبل کے وزیراعظم عمران خان کی چند وارداتوں پر نظر ڈال لیں۔ 1350کنال زرعی اراضی کا مالک ہونے کے باوجود سوا لاکھ روپے ٹیکس اداکرتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو پیش کیے جانے والے گوشواروں میں خود کو ساڑھے تین کروڑ جائیداد کا مالک ڈیکلرکیا جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے ۔ 300 کنال پر مشتمل بنی گالہ کا محل ‘ تین ارب سے کم کیا ہوگا ۔ زمان پارک میں دو کنال کا خوبصورت اور نیا تعمیر شدہ بنگلہ کی مالیت بھی یقینی طور پر پچاس کروڑ سے کم نہیں ہوگی ۔اس کھلے جھوٹ کو دیکھتے ہوئے بھی وہ صادق و آمین اور پانچ حلقوں سے اہل بھی قرار پا چکے ہیں۔ (کر لو جو کرنا ہے ) کے پی کے میں کرپشن کے بے شمار سیکنڈل منظر عام پر آئے۔ مجال ہے کسی ایک بھی کرپٹ کو پکڑا گیا ہو بلکہ احتساب کمیشن کو ہی تالا لگا کر سب اچھا کی گردان شروع کردی گئی۔ وہی شخص ہر جلسے میں کرپشن کے خلاف بھاشن دیتا نظر آتاہے ۔جبکہ ان کے قریبی ساتھیوں میں جہانگیر ترین ‘ علیم خان ‘ زلفی بخاری ‘ اور اعظم سواتی جیسے کھرب پتی شامل ہیں جو صرف کرپٹ نہیں مہا کرپٹ مشہور ہیں۔ عمران خان فرماتے ہیں میرے پاس ایک بھی گاڑی نہیں لیکن جہاز ‘ ہیلی کاپٹر اورلگژری گاڑیوں سے کم پر وہ سفر نہیں کرتے ۔پچاس ٹی وی چینلز پر ہر پانچ منٹ کے بعد تحریک انصاف کا اشتہار چلتا ہے ۔یہ تمام اشتہار مجموعی طور پر بیس پچیس ارب سے کم مالیت کے نہیں ہیں۔اتنا پیسہ کہاں سے آیا اور کس نے دیا کوئی پوچھنے والانہیں۔الزام لگا کر بھاگنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے فرمایا تھا جھوٹ بولنے والا شخص کبھی بڑا انسان نہیں بن سکتا لیکن وہ خود قدم قدم پر جھوٹ بولتے اور دوسروں پر کیچڑ بھی اچھالتے ہیں ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ پانچ سال تک خیبر پختونخوا میں کوئی قابل ذکر منصوبہ مکمل نہ کرنے کے باوجود صرف الزام تراشی اوربدزبانی کا مظاہرہ کرکے انہوں نے مسلم لیگ ن کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے ۔نواز شریف اور مریم نواز جیل میں بند اور شہباز شریف کے گرد نیب کاگھیرا دن بدن تنگ ہو رہا ہے۔ حالات یہی بتاتے ہیں کہ اس بار مسلم لیگ ن کا صفایا کرنے کا پروگرام ہے اگر پھر بھی مسلم لیگ ن بطور خاص پنجاب میں کامیاب ہوتی ہے تو اسے ووٹروں کا انتقام کہاجائے گا۔خیبر پختونخواہ کس قدر ترقی یافتہ صوبہ بن چکا ہے اس کااندازہ سوشل میڈیا پر مردان کے ایک نوجوان کی تحریر سے کیا جاسکتا ہے ۔ اس نوجوان کے بقول ترقی تو صرف پنجاب میں ہوئی ہے جبکہ ہم تو پچھلی صدی جیسے ماحول میں زندگی گزاررہے ہیں اگر ہمارا بس چلے تو گھر بار فروخت کرکے ہم بھی پنجاب منتقل ہوجائیں ۔ پتہ نہیں‘ خیبرپختونخوا کو ترقی کیوں نہیں دی جاتی۔عمران خان نے سنہرے خواب تو بہت دکھائے لیکن کوئی بھی خواب ‘حقیقت کا روپ نہ دھار سکا ۔میں نے اس نوجوان کو جواب دیا پنجاب کی ترقی سے متاثر ہوکر ہی خیبر پختونخواہ کی ایک چوتھائی آبادی پنجاب میں منتقل ہوچکی ہے ۔ یہاں ہر چوتھا شخص پٹھان ہے ۔جبکہ کراچی ‘سندھ اور بلوچستان کے لاکھوں لوگ بھی نقل مکانی کرکے پنجاب میں آباد ہوچکے ہیں ۔ بہرکیف اب جبکہ 25 جولائی کادن زیادہ دور نہیں۔ ان لمحات میں سوشل میڈیا اور الیکٹرونکس میڈیا پر ایک ہی تکرار جاری ہے کہ عمران خان نے پنجابیوں کوگدھے کے لقب سے کیوں پکارا ۔اس کا ردعمل بطور خاص جہلم اور بالعموم پنجاب کے دیگر جلسوں میں دیکھاجاسکتاہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ عمران خان کو نہ اپنی زبان پر کنٹرول ہے اور نہ ہی ا ن کے سپورٹروں کو ۔ جو بات کرتے اور تبصرہ کرتے ہوئے تہذیب کا دامن یکسر بھول جاتے ہیں لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں ۔کیا ایسے لوگ قیادت کے اہل ہیں ۔ ؟ اگر مقتدر حلقوں نے عمران خان کو حقیقت میں وزیر اعظم بنا دیا تو وہ بہت جلد اپنی حماقتوں‘ بدزبانی اور قوت فیصلہ سے محروم ہونے کی بنا پر اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے اور ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی عالمی سطح پر بدنام کریں گے ۔دنیا سے پہلے ہی ایک ٹرمپ برداشت نہیں ہورہا ‘پاکستان میں دوسرے ٹرمپ کاظہور ہوجائے گاتو قیامت اور زیادہ نزدیک آجائے گی ۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 659766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.