سوشل میڈیا پر شیئرنگ کے وقت ذرا سوچئے!

فخرالدین پشاوری
ایک مسلمان جب کوئی نیک کام کرتا ہے تو ان کے اعمال نامے میں نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر گناہ کرتا ہے تو اعمال نامے میں بدی لکھی جاتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ ایسی نیکیاں اور ایسی گناہ ہے جس کی نیکی یا بدی ایک مرتبہ نہیں لکھی جاتی بلکہ بار بار اور مسلسل لکھی جاتی ہیں۔ اس کی مثال وہ نیکی یا بدی ہے جو آپ خود بھی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تو ایسے میں اگر وہ نیکی کرتا ہے اور دوسروں کو بھی نیکی کرنے کی ترغیب دیتا ہے تو اس سلسلے میں ایک تو اس کی خود کی نیکی لکھی جاتی ہے اور دوسرے وہ لوگ جو اس کی ترغیب پر راہ راست پر آجاتے ہیں اس کی نیکی میں بھی یہ برابر کا شریک ہوتا ہے اور اس کے ثواب میں کچھ کمی نہیں ہوتی پھر یہی مثال برائی کا بھی ہے۔

ارشاد ربانی ہے کہ ’’اور کفار مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم ہماری راہ پر چلو اور قیامت میں تمہارے گناہ ہمارے ذمہ رہے حالانکہ یہ لوگ ان کی گناہوں میں ذرا بھی نہیں لے سکتے یہ بالکل جھوٹ بول رہے ہیں اور (البتہ یہ ہوگا کہ) یہ لوگ اپنے گناہ اپنے اوپر لادے ہوں گے اور اپنے (ان) گناہوں کے ساتھ (ہی) کچھ گناہ اور (لادے ہوں گے) یہ لوگ جیسے جیسے جھوٹی باتیں بناتے تھے قیامت میں ان سے باز پرس (اور پھر سزا) ضرور ہوگی‘‘۔

آیت کریمہ کی اس ترجمے پر آپ سمجھ چکے ہوں گے اس مسئلہ پر اس لئے لکھا کہ یہی مسئلہ ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے۔ آپ اپنے اردگرد کے ماحول میں دیکھیں گے کہ کوئی کسی برائی میں مبتلا ہے تو وہ دوسرے کو بھی اس میں شامل کر لیتا ہے توگویا جس کو شامل کیا ہے اس کی برائی کا صلہ اس کو بھی ملتا ہی رہے گا۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک گناہگار جب توبہ کرتا ہے تو ان کے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں لیکن جن لوگوں کو اس نے اسی گناہ پر اکسایا تھا اور وہ اب بھی وہ گناہ کررہے ہوتے ہیں تو اس کی گناہ میں یہ برابر کا شریک ہے اور قیامت کے دن اپنے بوجھ کے ساتھ ساتھ اس گناہ کا بوجھ بھی اٹھائے گا۔

آج کل تو سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل ہوتا ہے اور موبائل میں سب سے عام جو ہے وہ فیس بک ہیں اور اس میں ہر قسم کے ویڈیوز آتے ہیں جن میں زیادہ تر فحاشی اور گندے قسم کے ہوتے ہیں۔ زیادہ صحیح اور دین اسلام کی تبلیغ وغیرہ کی بھی ہوتی ہیں اس سے میں منکر نہیں اس کی طرف بعد میں آتا ہوں پہلی گناہ کی اس ویڈیوز کی مثال دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر آپ کے نیوز فیڈ پر ایک گانا آیا جس کے ساتھ ڈانس وغیرہ بھی تھا اور آپ نے اسے دیکھ لیا تو آپ کو اپنے حصے کی گناہ مل گئی اور جس نے یہ گانا شیئر کیا تھا اس کو دوگنی گناہ ملے گی۔

اگر آپ نے اسے شیئر کیا تو کم از کم سو،دوسو تو دیکھیں گے تو ان سب کے گناہ میں بھی آپ برابر کے شریک ہوں گے۔ پھر فرض کرو کہ آپ نے توبہ کیا توآپکی گناہ تو معاف ہو جائیں گی مگر جو گناہ اپنے پھیلائی ہے اس کا کیا کروگے،اس کو کیسے روکو گے، میرے تجربے کے مطابق اس ویڈیو کو روکنا ناممکنات میں سے ہے کیوں کہ اگر آپ کی وہ ویڈیو سو بندے دیکھے اور ان میں سے صرف دس بندے آگے شیئر کریں اور ان کے بھی کم از کم سو ، سو دوست دیکھے تو ہزار بن جاتے ہیں ، اسی طرح یہ آگے جاتی رہتی ہیں۔ تو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور غلط کام یا غلط بات کو آگے پھیلانے کے بجائے نیکی کو آگے پھیلانا چاہیے جن کا ثواب آپ کو ملتا رہے گا اور کسی کو غلط کام کی طرف اکسانا بھی نہیں چاہیے کی پھر قیامت کے دن اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ساتھ ان کے گناہوں کا بوجھ بھی تیرے سر ہوگا اور ان کی گناہوں میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوگی اور اتنا ہی بوجھ اس کے سر پر بھی ہوگا۔

ہم نیک کاموں کی ترغیب دیں گے، نیکی کو پھیلائیں گے تو ان شاء اﷲ یہ ہمارے لئے صدقہ جاریہ ہوگا۔ جب تک وہ بندہ عمل کرتا رہے گا اس کے برابر ثواب ہمیں بھی ملتا رہے گا اور اس کے ثواب میں ذرہ برابر کمی واقع نہ ہوگی۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025635 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.