اسلام دین فطرت ہے۔ جو انسانی زندگی کے تمام افعال
واعمال اوراقوال واحوال پرمحیط ہے ۔اورانسانی عظمت کا نقیب ہے ۔ زندگی کے
ہر شعبہ میں اسلام کی صالحانہ رہنمائی موجود ہے۔نومولود بچوں کے اچھے معنٰی
دار نام تجویزکرنے مہمل اور بے معنیٰ ناموں سے ا حترازکرنے کا چلن معاشرے
سے عنقا ہوگیا ہے۔رسول کریم صل اﷲ علیہ وسلم کی پاکیزہ تعلیمات وہدایات سے
جس طرح بچوں کوحسن ادب سکھانے اور اچھی تربیت دینے کا سبق ملتا ہے، اس کے
ساتھ ہی بچوں کے اچھے نام تجویزکرنے کی اہمیت و نافعیت بھی بخوبی واضح
ہوجاتی ہے۔نا م تجویز کرنے کا مقصد محض تعین اورپہچان نہیں، بلکہ اس سے
مذہب کی شناخت وابستہ ہے ۔دین کے لئے علامت اور شعار ہے۔ فکر وعقیدہ کے
اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ اس لئے احادیث میں اس سلسلہ میں خصوصی ہدایات دی
گئیں ہیں۔ اچھے دلکش اور با معنی ناموں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، اورایسے
ناموں سے منع کیاگیا ہے جو بھدے اور معنی ومفہوم کے اعتبار سے ناگوار ہوں
جن سے شرک کی بو آتی ہو۔
حضرت ابودرداء رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا ـ:’’کہ
قیامت کے دن تم اپنے اوراپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤگے لہٰذا اچھے نام
رکھاکرو۔‘‘ (رواہ احمد، ابوداود، مشکوٰۃ:۸۰۴) حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا:’’ باپ پر بچہ کا یہ بھی حق
ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اوراس کو حسن ادب سے آراستہ کرے۔‘‘ (رواہ
البیہقی فی شعب الایمان) اس وقت مسلم معاشرہ کی صورت حال زبوں تر ہے۔ جدت
پسندی کادور ہے۔ لوگ ایسے نئے نئے نام تجویز کرتے ہیں جو بے معنی اورمہمل
ہوتے ہیں ،بلکہ ایسے نام نکلوانے کی فکر ہوتی ہے جومحلہ ،پڑوس ،اورآس پاس
کے گاؤں دیہات اوراہل قرابت میں کسی کا نہ ہو۔کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ
بعض لوگ ایسے ناموں کے معانی پوچھتے ہیں کہ لغۃً جن کا نہ کوئی مادہ ہوتا
ہے اور نہ ماخذ اشتقاق۔ ظاہر ہے کہ ایسے مہمل الفاظ کے معانی لغت میں کیسے
مل پائیں گے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ اچھے نام سے محبت
رکھتے تھے۔ (زاد المعاد) ایک اور حدیث میں ہے ،حضرت ابوسعید رضی اﷲ تعالی
عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد
فرمایا:’’ جب کسی کے یہاں بچہ پیدا ہوتو اس کا نام اچھا رکھے اور تعلیم
وتربیت دے بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کردے اور بالغ ہونے کے بعدشادی نہیں
کی اور وہ لڑکا (یالڑکی) کسی گناہ میں مبتلا ہوگیا تواس کا گناہ باپ پر بھی
ہے۔(مشکوٰۃ،ص:۱۷۲) حضرت ابوہب جشمی کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا :’’انبیاء کے ناموں پراپنے نام رکھو، اور اﷲ تعالیٰ کے نزدیک
بہترین نام عبداﷲ و عبدالرحمن ہیں اور سب ناموں سے سچے نام حارث وہمام ہیں
اور سب سے برے نام حرب اورمْرہ ہیں۔‘‘
بعض ناخواندہ لوگوں میں یہ رجحان بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ نام قرآن سے تجویز
کرنے کو خیروبرکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں قطع نظر اس کے کہ معنی کیسے ہیں،
چنانچہ ایک صاحب نے اپنی بچی کا نام رکھا ’’لِمَن تَشَآء ‘‘ رکھا۔ دوسرے
صاحب کے بارے میں پتہ چلا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو ’’وَرِیشا‘‘ سے موسوم
کیا۔ ایک عزیز شہرملاقا ت کرنے دیہات سے آئے تو انہوں نے بتایا میں ایک
ایسی عورت کو جانتا ہوں کہ جو ذرا قرآن کریم پڑھنا جانتی تھی ۔اس کے یہاں
یکے بعد دیگرے تین بیٹیاں پیداہوئیں اس نے اپنے کو خواندہ سمجھتے ہوئے
بچیوں کے نام تجویز کرنے کے لئے قرآن کریم سے ’’سورہ کوثر‘‘ کا انتخاب کیا
چنانچہ بڑی بچی کا نام ’’کوثر‘‘ رکھا دوسری کا نام ’’وانحر‘‘ تجویز کیا،
اور تیسری کا نام ’’ابتر‘‘ مقرر کیا۔ کوثر اور وانحر کے معنی تو بحیثیت نام
کسی حد تک درست بھی ہیں ،لیکن آخری لفظ ’’ابتر ‘‘کے معنی بہت بدتر کے ہیں ،جو
کسی بھی طرح مناسب نہیں ایسے لوگوں کو بطور اصلاح کچھ کہاجائے تو سمجھتے
ہیں کہ قرآن کریم سے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کرناکون سے مسئلہ کی بات ہے۔
حالانکہ قرآن کریم سے نام تجویز کرنے کی بات علی الاطلاق درست نہیں ہوسکتی۔
اس لئے کہ قرآن کریم میں ’’حمار‘‘، ’’کلب‘‘، ’’خنزیر‘‘، ’’بقرہ‘‘، ’’فرعون‘‘،
’’ہامان‘‘، ’’قارون‘‘ وغیرہ کے الفاظ بھی آئے ہیں، تو ان کے طریق استدلال
کے مطابق ان الفاظ کے ذریعہ بھی نام رکھنا صحیح ہونا چاہئے؟
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے بچے کو سب سے پہلا تحفہ جو دہتا ہے وہ نام ہے اس
لیئے بچوں کے اچھے نام تجویز کریں۔سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اچھا
نام تجویزکرنے کی ترغیب دی ہے۔ اسم کے اثرات مسمّیٰ میں منتقل ہونا بھی
مسلم ہے۔ پھر عمدہ نام وہ ہے جس میں بندہ کے لئے بندہ ہونا ظاہر ہو۔ اس کے
بعد وہ نام جو انبیاء اور پیغمبروں کے ناموں پر ہوں اس کے بعد ان ناموں کی
اجازت ہے جس کے معنی میں کوئی برائی اور شر نہ ہو۔ اس وقت جدت پسندی کا ایک
مزاج اورایک روہے، جس کے اثر سے چیدہ چیدہ افراد ہی محفوظ ہیں۔ قرآن کریم
میں ’’منہم من قصصنا علیک‘‘ کے تحت بعض پیغمبروں کے اسماء ذکر کئے گئے ہیں
ان میں بھی بعض نام تو امت مسلمہ میں رائج ہیں اور بعض قلیل الاستعمال ہیں
مثلاً آدم، ذوالکفل اور نوح،اور بعض بالکل متروک ہیں مثلاً ہود، لوط، الیسع
حالانکہ ان کے بابرکت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں، زبان پر ثقیل بھی نہیں،
بہت ہلکے پھلکے ہیں، بس التفات نہیں۔ |