انتخابات کی گہماگہمی عروج پر ہے ۔امیدوار ایڑی چوٹی کا
زور لگارہے ہیں دن رات ایک کیا ہوا ہے ۔جلسے ،ریلیاں ،کھانوں کا سلسلہ جاری
ہے ۔گرمی کے دنوں میں جب شادیوں کا کام ٹھپ ہوتا ہے اکثر شادی ہال بھی ہاتھ
پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن بم دھماکوں ،خودکش حملوں کے تازہ
واقعات نے شادی ہال مالکان کی چاندی کردی ہے ۔اکثر اجتماعات ،جلسے یہاں
ہورہے ہیں ووٹراب اتناسیانا ہوگیاہے کہ اب اس کی کوشش ہے کہ پچیس جولائی سے
پہلے جتنازیادہ اجتماعی اور انفرادی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے امیدواروں سے
اٹھا لے ۔کوئی اقدار ،اخلاق رہا نہیں ایک سے زبان کا معاملہ کھڈے لائن لگ
چکا ،ٹرانسفارمرز ،گلیوں کی تعمیر کی سیاست ہورہی ہے ۔کالا دھن کی بوریوں
کے منہ کھلے ہوئے ہیں ۔شہروں کی گلیاں ،بازار ،چوک بینرز ،پینا فلیکس ،سائن
بورڈوں سے لدے ہیں ۔بڑے بڑے کھانوں کا اہتمام ہورہا ہے ۔الیکشن کمیشن کے
اخراجات کی حد کا سرعام مذاق اڑایا جارہا ہے ۔نمائندے کی دین داری ،شرافت ،اخلاق
گیابھاڑ میں جس کسی کے پاس جتنی دولت وہ اتنا ہی بڑا امیدوار ہے ۔تقاریر
میں گالم گلوچ ،نازیبا الفاظوں کا استعمال اتنا بڑھا کہ الیکشن کمیشن کو
نوٹس لینا پڑا۔امیدوار کوخود ،تحریری یا کسی وکیل کے ذریعے جواب دینا پڑا ۔پری
پول دھاندلی اور خلائی مخلوق کی بے جامداخلت کی بازگشت ملکی وغیر ملکی
میڈیا پر سنائی دینے لگی ۔جس کا جواب ذمہ داروں کو قائمہ کمیٹی کے اجلاس
میں دینا پڑا کہ ہماری طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہورہی ہے ۔تو بہرحال یہ
پہلی دفعہ ہوا ہے کہ الیکشن سے پہلے ایسے الزامات کا سامنا ہے ۔ابھی کسی
بھی مہم جوئی کا سلسلہ اگرنہ تھما تو پنجاب میں جو جوڑ توڑ عوام کا بن رہا
ہے وہ آنے والے حکمرانوں ،نادیدہ قوتوں ،خلائی مخلوق کے لئے بہت سے مسائل
کھڑا کرسکتا ہے ۔عوام کا اگراعتماد الیکشن سے پہلے ہی اٹھ گیا تو پھر پچیس
جولائی کے دن کی ریہرسل کی کوئی ضرورت نہ رہے گی ۔اس لئے الیکشن کو غیر
جانبدار ثابت کرنے کے لئے تمام تر مخلصانہ کوشش ہر محب وطن شہری ،ادارے ،نگران
حکمراں ،الیکشن کمیشن کو کرنی چاہیئے ۔بصورت دیگر ہم اقوام عالم میں مذاق
بن کر رہ جائیں گے ۔معاشی اور جغرافیائی لحاظ سے ہم ویسے ہی مسائل میں گھرے
ہوئے ہیں مذید مسائل کے ہم متحمل نہیں ہیں ۔اندورنی وبیرونی طور پر ہم پر
ویسے ہی بہت دباؤ ہے ۔ہم الیکشن کی جانب داری کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کے
خلاف عوامی دباؤ کا سامنا نہیں کرسکتے ۔آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ کہنا
کہ فوج کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے امیدافزا ء ہے ان کے مطابق ہمارے
تین لاکھ 71 ہزار فوجی جوان امن وامان اوردھاندلی کے تدارک کے لئے پولنگ
سٹیشنوں پر تعینات ہوں گے ۔اٹھارہ ہزار پولنگ سٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمرے
نصب کیے جائیں گے ۔ترجمان آئی ایس پی آر کے مطابق ملک میں حساس پولنگ
سٹیشنوں کی تعداد بیس ہزار ہے جبکہ کل سولہ لاکھ کے قریب اہلکار تعینات کیے
جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی، بھارتی ایجنسی را کی
مدد سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے اور الیکشن کے دن بھی ہم
کسی بھی ایسے واقعات کے تدارک کے لئے ہمہ تن گوش ہیں اور تمام تر وسائل
پرامن اور غیر جانبدارالیکشن کے انعقاد کے لئے بروئے کار لائیں گے ۔عالمی
میڈیا کے مطابق الیکشن 2018 میں عام خاندانوں کے درمیان بھی تفریق نظر آرہی
ہے ۔آئندہ الیکشن میں کوئی بھی جماعت واضع اکثریت لینے کی پوزیشن میں نظر
نہیں آرہی ۔مخلوظ حکومت بنے گی ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق پاکستان کی مشکلات
الیکشن کے بعد ختم ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں ۔لیکن انہوں نے امید ظاہر کی ہے
کہ سیاسی شراکت دارالیکشن کمیشن ،نگران حکومت ودیگر ذمہ داران سیاسی وجہوری
عمل کی آزمائش سے پچیس جولائی کے دن سرخروہوکر نکلیں ۔موجودہ الیکشن میں
ووٹرز کی جانب سے ایک امید افزء پیغام یہ ملا ہے کہ انہوں نے اپنے نمائندوں
سے باز پرس ،خبر لینا شروع کردیا ہے بھائی آپ پانچ سال تک کہاں تھے آپ کی
شکل دیکھنے کو ہم ترس گئے ۔ہم بنیادی ضروریات زندگی سے پہلے بھی محروم تھے
اب بھی ہیں ۔آپ نے شکل تک نہ دکھائی ۔یہ ٹرینڈ حوصلہ افزاء ہے کیونکہ ہمارے
احتسابی ادارے تو فیل ہیں اب عوام کو ہی اپنے نمائندوں کا احتساب کرنا ہوگا
موجودہ الیکشن میں کارکردگی کو لوگ دیکھ کر ووٹ دے رہے ہیں ۔آپ ڈیرہ
اسماعیل خان کی ہی مثال لے لیں جہاں کے این اے 38 اور 39 سے مولانا فضل
الرحمٰن جیسے بڑے مذہبی رہنما الیکشن لڑرہے ہیں لیکن کیونکہ انہوں نے پانچ
سالوں تک عوام سے اپنے آپ کو دور رکھا ۔اس لئے انہیں کافی مشکلات کا سامنا
ہے ۔ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے علی امین گنڈہ پور اور سابق سینٹر وقار
اور پی ٹی آئی کے شیخ یعقوب ہیں دونوں حلقوں میں مولانا کا دیگر امیدواروں
سے سخت مقابلہ ہے ۔اگر پی ٹی آئی کامیاب ہوئی کارکردگی کی بنیا دپر ہوگی ۔مولانا
کا واحد سہارا دونوں حلقوں میں زیادہ امیدوار ہونے کے باعث ووٹوں کی تقسیم
ہونا ہے ویسے صوبائی حلقہ پی کے 97 پر ڈیرہ سے علی امین کی جیت یقینی ہے ۔عوام
اب اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے ۔وہ امیدواروں کے جاہ وجلا ل ،رتبے سے متاثر
ہونے والی نہیں ہے ۔اگر عوام کی جانب سے امیدواروں کا احتسابی عمل جاری رہا
تو امید ہے کہ آئندہ سیاستدان اپنے حلقوں کی طرف توجہ مبذول کریں گے ۔ہمارے
شہروں کے ووٹروں میں یہ رجحان تیزی سے پید ا ہورہا ہے ۔ان میں شعور پیدا
ہورہا ہے لیکن ہماری دیہاتی آبادی میں تاحال شعور ناپید ہے وہاں وہی پرانا
برادری ،گدی نشینی ،پیری مریدی ،جاگیردارانہ ،وڈیرہ ازم ،چوہدراہٹ ،نمبرداری
کا سلسلہ جاری ہے ۔اسی بنیاد پر ہماری اسی فیصد آبادی کا ووٹ نااہلوں کو
ایوانوں میں پہنچاتا رہتا ہے جس کے باعث عوام کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں
جب تک عوام میں اچھے برے کی تمیز نہیں ہوگی وہ صرف اہلیت کی بنیاد پر ووٹ
نہیں دیں گے تویوں ہی مسائل سے دوچار اور بنیادی ضروریات زندگی سے محروم
رہیں گے ۔ |