حق سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ اور اسکے جمیع احکامات
ہیں جن پر چلنے کا حکم اس نے د یا ہے اور باطل سے مراد انسان کا نفس
اماّرہ، شیطان ابلیس اور اسکی ذریّت ہے جو انسان کو سیدہی راہ پر چلنے سے
روکتے ہیں اور اس میں اپنی تما م طاقتیں صرف کرتے ہیں اس لحاظ سے یہ دنیا
ابلیس و آدم کا معرکہ کارزار ہے جہاں ہمہ وقت ان دونوں کے درمیان زور
آزمائی اورجنگ جاری رہتی ہے۔
اس جنگ کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو شیطان کے پیروکا ر اور اسکے بندے ہیں وہ
رحمٰن کے بندوں کے ساتھ نبردآزما ہو جاتے ہیں ۔ یہ جنگ درحقیقت کفر و ایمان
کے درمیان ہے جو اس دنیا کی پیدائش سے شروع ہوئی اور قیامت تک جاری رہے گی۔
جب بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے کسی قوم میں اپنے کسی رسول یا نبیﷺ کو بھیجا
جو شیطان کی پیرو ی کرکے کفر و گمراہی کے اندھیروں میں غرق ہو چکے تھے تو
انھوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ان برگذیدہ ہستیوں کے ساتھ ظالمانہ اور
ہتک آمیز سلوک کیا، انکی بات نہ مانی ، انکو طرح طرح سے تکالیف پہچائیں اور
بعض انبیأء علیہم الصّلوۃ والسّلام کو شہید کرنے سے بھی دریغ نہ کیا اور
بہت تھوڑے لوگ انکی دعوت پر ایمان لائے۔
مگر قانون قدرت یہ ہے کہ حق ہمیشہ فتحیاب ہوتا ہے اور اسے کبھی شکست نہیں
ہوتی اور نہ ہی وہ جھکتا ہے بلکہ باطل کو جھکا دیتا ہے ارشاد باری تعالیٰ
ہے’’ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں پس وہ اسکا بھیجا نکال دیتاہے اور وہ
جاتا رہتا ہے‘‘ (القرآن)۔ یعنی حق کبھی جھکتا نہیں اور مغلوب نہیں ہوتا
بلکہ غالب ہی رہتا ہے جبکہ باطل کو ہمیشہ شکست فاش ہوتی ہے اور اسے حق کے
سامنے جھکنا پڑتا ہے۔
یہ جھکنا دو طرح پر ہے ایک یہ کہ جب بھی حق و باطل آپس میں بھڑتے ہیں تو
فتح آخر کار حق ہی کی ہوتی ہے اگرچہ وقتی طور پر باطل غالب ہوتا ہو ا نظر
آئے اور دوسرا یہ کہ تمام مخلوقات چاہے وہ جمادات ہوں ، حیوانات ہوں یا
نباتات سب کے سب اپنے اختیار سے یا تکوینی طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی
تسبیح بیان کرتے ہیں اور اس کے اقتدارکامل اور جلال و جبروت کے آگے جھکے
ہوئے حالت سجدہ میں ہیں چنانچہ فرمایا :۔
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمان میں ہے اور جو
کوئی زمین میں ہے اور سورج چاند ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت
سے آدمی اور بہت ہیں جن پر ٹھہر چکا عذاب، اور جس کو اللہ ذلیل کرے اسے
کوئی عزت دینے والا نہیں (الحج پ ۱۷)
اور اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی ہے آسمان اور زمین میں خوشی سے اور زور
سے (یعنی نا خوشی سے) اور انکی پرچھائیاں صبح و شام (سجدہ کرتی ہیں )الرعد
پ ۱۳)
اللہ کی تسبیح بیان کر تا ہے جو کچھ ہے کہ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ کہ ہے
زمین میں بادشاہ پاک ذات زبردست حکمتوں والا ‘‘ ۔ا(لجمعہ پ ۲۸)
اللہ کی پاکی (تسبیح) بولتا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین
میں اور وہی ہے زبردست حکمت والا (الصّف ۲۸)
گرج (آسمانی بجلی) اللہ کی تسبیح و تعریف کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کے خوف
سے وہی آسمان سے بجلی گراتا ہے اور جس پر چاہتا ہے اس پر ڈالتا ہے۔ (الرعد
پ ۱۳)
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب بھی کفر کے اندھیروں میں نور ہدایت کا آفتاب
چمکا تو باطل قوتیں اسکے خلاف اکھٹی ہو گئیں اور اسے بجھانا چاہا مگر حق
وباطل کی اس جنگ میں حق ہمیشہ غالب اور فتحیاب رہا اور باطل کو شکست فاش
ہوئی کہ........
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ان گمراہ قوموں پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا عذاب آیا اور انھیں تباہ و برباد
کرکے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
سب سے آخر میں نبی آخر الزّماں حضرت محمد الرسو ل اللہﷺ تشریف لائے آپ نے
جب مکہ مکرمہ میں دین کی دعوت کا آغاز کیا تو مکہ کے کفا ر و مشرکین نے
ابتدائی طور پر یہ سمجھاکہ یہ شخص جو ہمارے آباء و اجداد کے مذہب پر تنقید
کرتا ہے اور ایک نئے دین کی دعوت دے رہا ہے تو شاید اسکے پیچھے انکے کوئی
ذاتی مقاصد ہیں یہی وجہ ہے کہ انکے ایک وفد نے آپکے دادا عبدالمطلب سے
ملاقات کی اور کہا کہ اگر آپکے بھتیجے کا اس نئے دین کی اشاعت سے مقصددولت
حاصل کرناہے تو ہم انھیں دینے کیلئے تیار ہیں اور اگر یہ چاہتے ہیں کہ کسی
اچھے خاندان کی لڑکی سے انکی شادی ہو جائے تو یہ بھی ہو سکتا ہے اور اگر یہ
چاہتے ہیں کہ ہم انھیں اپنا سردار مان لیں تو ہم یہ بھی کر سکتے ہیں مگر یہ
ہمارے خداؤں (بتوں) کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیں۔
آنحضرت ﷺ نے انکی باتوں کا جو جواب دیا وہ قابل غورہے آپ نے فرمایاچچا جان!
اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور ایک ہاتھ پر چاند رکھ دیں تو بھی میں
دین اسلام کی دعوت دینے سے باز نہیں آؤں گا چاہے اس میں میری جان ہی کیوں
نہ چلی جائے۔اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ اسلام خطہ عرب میں پھیلنا شروع ہوا
جو شخص ایک مرتبہ دین اسلام قبول کر لیتا تو وہ اسکے دل میں ایسا راسخ ہو
جاتاکہ وہ شہید ہونا تو قبول کر لیتا مگر اسلام سے پھرتا نہیں تھا۔
اور پھر کفار مکہ سے جنگوں کا آغاز ہوا غزوۂ بدر ، احد اور غزوۂ خندق میں
مشرکین کے بڑے بڑے سرداروں کو شکست فاش ہوئی اور انھیں اسلام کی عظمت و
شوکت کے آگے جھکنا پڑا اورجب مکہ فتح ہو گیا تو کفار و مشرکین کو یہ یقین
ہو گیا کہ اب اس دین کو دنیا میں پھیلنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔اور
پھر غیر ممالک سے جنگوں کا آغاز ہوا حتیٰ کہ اس وقت کی دو سپر پاور زقیصر و
کسرٰی کوجنگوں میں شکست فاش ہوئی اورانھیں حقا نیت اسلام کے آگے سرنگوں
ہونا پڑا۔ آج اسلام دنیا کا سب سے بڑادین ہے اور روز بروز اسکے پیرو کاروں
کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوگ اسکی عظمت و شوکت کے آگے جھکنے پر
مجبور ہیں۔
اور عملی زندگی میں اسکی مثال اس طرح ہے کہ یہ معرکہ آرائی انسان کے اندر
سے شروع ہوتی ہے اس طرح پر کہ حق کا معنی اللہ تبارک و تعالیٰ کے جمیع
احکامات کو نبی پاکﷺ کے طریقوں پر پورا کرنا ہے یعنی ہر کام سنّت کے مطابق
کرنا ہے اور اپنے جسم و جاں کو اس کام میں لگا دینا ہے اور جب انسان یہ کام
کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسکے ا ندر کا باطل یعنی نفس امّارہ اور شیطان
ابلیس اسکے خلاف مزاحمت شروع کر دیتے ہیں اور اسے اس کام سے روکنے کی پوری
پوری کوشش کرتے ہیں اس طرح ایک معرکہ آرائی کی شکل بن جاتی ہے۔
اس میں جو لوگ ثابت قدم رہتے ہیں اور نفس و شیطان کے اغواء میں نہیں آتے وہ
رحمٰن کے بندے کہلاتے ہیں ۔ اسکے برعکس جو خود کو ان دونوں کے سپرد کر دیتے
ہیں وہ شیطان کے بندے کہلاتے ہیں۔
شیطان کو جب حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسّلام کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں
راندہ درگاہ کیا گیا تھا تو اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ قسم کھائی تھی کہ
اب میری اور انسان کی دشمنی ہے میں اسکے ہر ممکن طریقے سے گمراہ کرنے کی
کوشش کروں گا، تو بارگاہ احدیّت سے اسے یہ جواب ملا تھا کہ’’جو میرے بندے
ہیں انپر تیر کوئی زور نہیں چلے گا۔‘‘
بہرحال جو رحمٰن کے بند ے ہیں وہ شیطان کی چالوں میں نہیںآتے اور ثابت قدم
رہتے ہیں اور یہ دنیا ابلیس و آدم کا معرکہ کارزار ہے جہاں ان دونوں کے
درمیان جنگ جاری رہتی ہے اور رحمٰن کے بندے شیطان کے بندوں کے خلاف برسر
پیکار ہو جاتے ہیں اور انھیں شکست فاش دے کر حق کے آگے جھکنے پر مجبور کر
دیتے ہیں۔ |