انسان کوانفرادی وقومی سطح پر کتنے ہی اندوہناک،ہولناک
اورخوفناک حالات کا سامنا کیوں نہ ہو ۔خواہ وہ جسمانی بیماری ، معاشرتی
تنہائی ،خوف و غصہ، ذہنی ابتری و بے سکونی کا شکارہو یااسے آمدنی کے ذرائع
مسدود ہوجانے اور بے گھر ہوجانے کا خوف لاحق ہو۔یااس قسم کے دیگر مسائل کا
شکار ہو جن کا حل اس کی قوت و بساط سے مکمل باہر ہو اور اس کے سامنے تمام
راستے بھی مسدود ہوں،کوئی دروازہ بھی ایسانہ ہو جہاں شنوائی اوردرد کے
درماں کاامکان ہو۔ اس وقت انسان تمام ظاہری اسباب ووسائل سے مایوس ہوکر
انتہائی مایوسی کے عالم میں بھٹک رہاہوتا ہے۔ اس کی ذہنی کیفیت انتہائی
پسماندہ اورابترہوجاتی ہے۔ ہرگزرتا دن اس کی ابتری میں اضافہ
کرتاجاتاہے۔اسے کہیں امید کی کوئی صورت نظرنہیں آتی ۔بقول اسداللہ خاں غالب
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
وہ مایوسی ،یاسیت،اضمحلال اورافسردگی کا شکار ہوتاجاتا ہے۔ اس کے اندر کوئی
ارتعاش ،جنبش ،شورش اورتحریک باقی نہیں رہتی۔ اس پر مستزاد یہ کہ ناامید
ہونے کے بعد اس کے دل میں مزید کوئی نئی امید اور آس بھی پیدا نہیں ہوتی۔
بقول اکبرالہ آبادی
دل مایوس میں کچھ شورشیں برپانہیں ہوتیں
امیدیں اس قدر ٹوٹیں کہ اب پیدانہیں ہوتیں
اُس وقت دنیا اپنی تمام تررنگینی ،دلکشی،رعنائی،دلربائی ، فراوانی ، فراخی
اور وسعت کے باوجود اس شخص پر تنگ ہوجاتی ہے اوروہ قرآن کریم کی اس آیت کا
مصداق بن جاتاہے۔ وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ
(التوبۃ:25)"اورزمین تم پر اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ ہوگئی"۔
اوروہ شخص زمین کی سطح پر ہونے کے بجائے اس کے بطن میں ہونے کی خواہش کرتا
ہے ۔ یہ وہ لمحات ہیں جب انسان خودکشی اورحرام موت جیسے راستے بھی استعمال
کرنے سے دریغ نہیں کرتا اور یہ کہنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ ان زندگی کی
دشواریوں سے مرجانا ہی بہتر ہے ۔بقول اکبرالہ آبادی
گزرکی جب نہ ہو صورت گزرجانا ہی بہترہے
ہوئی جب زندگی دشوار مرجانا ہی بہتر ہے
اس قسم کی سوچ نہ اسلام کی تعلیم ہے ،نہ اسلام اس کی قطعاًاجازت دیتاہے اور
نہ ہی یہ مومن کے شایان شان ہے کہ وہ اس نہج پر سوچے اورغوروفکر کرےکیونکہ
دنیا وی مصائب پر توانسان مرنے کی آرزو کرسکتا ہے لیکن اگر آخرت میں بھی
اسے چین نہ ملاتو کہاں جائے گا۔بقول ابراہیم ذوق
اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی چین نہ پایا توکدھرجائیں گے
اس سلسلے میں حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ تم میں سے کوئی بھی کسی رنج
،مصیبت ،غم ،تکلیف ،نقصان پہنچنے کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے۔اگراس نے
موت کی تمنا کا ارادہ کرہی لیا ہے تو یوں کہے اے اللہ اگرمیرے لئے زندگی
بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ اور اگر موت میں میر ی بھلائی ہے تو مجھے وفات دے
دے۔لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمْ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَهُ فَإِنْ
كَانَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتْ
الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتْ الْوَفَاةُ خَيْرًا
لِي(بخاری)۔"تم میں سے کوئی بھی اس ضرر کے سبب جو اس کو پہنچا ہو موت کی
تمنا نہ کرے ۔ اگروہ لازماًایسا ارادہ رکھتاہے تو یوں کہے اے اللہ اگر
زندگی میرے لئے بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ اور اگر میر ی بھلائی موت میں ہے
تو مجھے وفات دیدے"۔
ان تمام صورتوں اورپریشانیوں سے نکلنے کے لئے بہترین ہتھیار جو ہمارا دفاع
کرے گاوہ دعا کے علاوہ اورکیا ہوسکتاہے۔یہ ایساہتھیار ہے جوکبھی پرانا ،زنگ
آلود اوربے کارنہیں ہوتا،جسے خود نبی اکرم ﷺ نے مومن کا ہتھیار
قراردیاہے۔الدعاء سلاح المؤمن، وعماد الدين ، ونور السماوات والأرض ۔"دعا
مومن کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون ہے اورآسمان و زمین کا نورہے"۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم)
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ صرف دعاپر تکیہ اوربھروسہ کرکے ہم عمل یا اس
درد کا علاج ہی نہ کریں ۔ہم ان تکلیفوں سے نجات کے لئے اپنی منصوبہ بندی
اور کوشش بھی ضرور کریں۔ یہ کوشش بھی کسی نہ کسی شکل و صورت میں دعا کا ہی
اثر ونتیجہ ہونگی۔ہاں اگرکوئی شخص عملی جدوجہداورہاتھ پاؤں ہلائے بغیرفقط
دعاؤں کا سہارا لیتا ہے اورجو اس کی قوت و بساط میں ہے وہ بھی نہیں کرتا تو
یہ اس کی نادانی ہوگی ۔وہ شخص دراصل اسلام کے حقیقی مزاج اور دعاکی روح سے
عاری ہےاور ایسے شخص کی دعائیں بھی اثر وقبولیت سے محروم رہیں گی۔بقول والد
ماجد
ذوق عمل نہیں ہے توتیری دعائیں کیا
پیدانہیں دعامیں اثر کا سوال تک
اقبال عظیم خوبصور ت پیرائے میں دعااورعزائم کے باہمی تعلق کے بیان اوردعا
کے ساتھ ساتھ دوا اورعلاج کوبھی اختیارکرنے کادرس دیتے ہیں:
دعا بھی صرف عزائم کا ساتھ دیتی ہے
دوائے درد بھی ڈھونڈو فقط دعا نہ کرو
موانع قبولیتِ دعا:کچھ اعمال دعاؤں کی قبولیت میں مانع ہوتے یعنی جن کی وجہ
سے اللہ رب العزت دعائیں قبول نہیں فرماتا بلکہ ان دعاؤں کی حیثیت صرف ایک
چیخ اورپکارکی مانند رہ جاتی ہے۔ان میں سب سے اول لقمہ حرام ہے کیونکہ حرام
کھانے والے کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ
يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ
وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَ غُذِيَ بِالْحَرَامِ
فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ۔پھر آپ ﷺ نے ایک آدمی کا ذکر کیا جس نے طویل
سفرکیا،اس کے بال بکھرے ہوئے اورچہرہ گرد آلود تھا وہ اپنے ہاتھ آسمان کی
طرف بلند کرتاہے اور پکارتاہے اے رب اے رب درآنحالیکہ اس کا کھانا
حرام،پینا حرام،لباس حرام اس کو غذا حرام سے ملی پس کیسے اس کی دعا قبول
ہوگی۔اسی حدیث کو میرے والد ماجدابوعلی محمدرمضان صاحب نے ان اشعار میں
بیان فرمایا ہے:
فرماگئے ہیں بات یہ اللہ کے رسول(ﷺ)
ہوگی نہ ایسے شخص کی کوئی دعا قبول
جس کا ہو خورد نوش لباس اور غذا حرام
بچتے رہیں حرام سے لازم ہے خاص و عام
اس کے علاوہ حرام امور یعنی گناہ کے کاموں کے لئے کی گئی دعا یا پھر قطع
رحمی کے لئے کی گئی دعائیں بھی رب کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتیں۔جیسا کہ
حدیث مبارکہ میں ہے:مَا مِنْ أَحَدٍ يَدْعُو بِدُعَاءٍ إِلَّا آتَاهُ
اللَّهُ مَا سَأَلَ أَوْ كَفَّ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهُ مَا لَمْ
يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ۔جو آدمی بھی اللہ سے دعا مانگتا ہے
اللہ اس کی دعا قبول کرتا ہے ۔ یا جو اس نے مانگا اس کو عطا کرتا ہے یا دعا
کے بمقدار اس کے گناہ دور کردیتا ہے ۔ بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا
نہ کرے ۔(ترمذی)
انسان بعض اوقات اپنے لئے ایسی دعا مانگتا ہے جو یاتو گناہ سے متعلق ہوتی
ہے یااگرقبول ہوجائے تو اس کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہےیا بعض اوقات انسان
جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے اہل وعیال یادیگر پرناحق لعنت کرتا ہے یاقطع
تعلق کی دعا کرتا ہے۔ یہ تمام دعائیں رب کی بارگاہ میں مقبول نہیں
ہوتی۔بالفاظ دیگر اگر معصیت کی دعا نہ ہو اور دل کی گہرائیوں سے صدا نکلے
،یہ صدائے دل پروں کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ فوراً بارگاہ الہی میں پہنچ کر
درجہ قبولیت پر فائز ہوجاتی ہے ۔ بقول ڈاکٹرعلامہ محمداقبال
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پرنہیں طاقت پرواز مگررکھتی ہے
دعاکی قبولیت کے مراتب :
دعا کبھی بے کار نہیں جاتی البتہ قبول ہونے کی صورتیں مختلف ہیں۔یعنی جو
آدمی بھی اللہ سے دعا مانگتا ہے اللہ اس کی دعا قبول کرتا ہے اور اس کی
تین صورتیں ہیں۔ اول بعینہ وہی دعا قبول ہو،دوم اس سے بہتر کوئی صورت پیدا
ہوجائے یا اس سے کوئی گناہ دورکردیا جائے، یاوہ دعا آخرت کے لئے ذخیرہ
بنادی جائے۔
مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو اللَّهَ بِدُعَاءٍ إِلَّا اسْتُجِيبَ لَهُ
فَإِمَّا أَنْ يُعَجَّلَ لَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِمَّا أَنْ يُدَّخَرَ لَهُ
فِي الْآخِرَةِ وَإِمَّا أَنْ يُكَفَّرَ عَنْهُ مِنْ ذُنُوبِهِ بِقَدْرِ
مَا دَعَا مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ أَوْ
يَسْتَعْجِلْ ۔جو آدمی بھی اللہ سے دعا مانگتا ہے اللہ اس کی دعا قبول
کرتا ہے ۔ پس یا تو دنیا کے اندر اس کا اثر ظاہر کردیتا ہے۔یا آخرت کے لئے
اس کا اجر محفوظ کردیتا ہے یا دعا کے بمقدار اس کے گناہ دور کردیتا ہے ۔
بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے یاعجلت کا مظاہرہ نہ
کرے۔(ترمذی)
اورقبولیتِ دعامیں سب سے بہترین صورت یہی ہے کہ اس کی دعاء آخرت کے لئے
ذخیرہ بنادی جائےکیونکہ آخرت میں ان دعاؤں کا جتنابدلہ دیاجائے گا اسے دیکھ
کر ہر شخص یہی خواہش کرے گا کہ کاش دنیا میں اس کی کوئی دعاقبول نہ ہوئی
ہوتی اوران کا بدلہ بھی آج دیاجاتا۔جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فلا يدع الله دعوة دعا بها عبده المؤمن
إلا بين له إما أن يكون عجل له في الدنيا ، وإما أن يكون ادخر له في الآخرة
، قال : فيقول المؤمن في ذلك المقام ياليته لم يكن عجل له في شيء من
دعائه۔حضور ﷺ نے فرمایا:مومن بندہ اﷲ تعالی سے جتنی دعائیں کرتا ہے، اﷲ
تعالی ایک ایک کی وضاحت کرے گا کہ یا تو اس دعا کا بدلہ دنیا ہی میں جلدی
عطا کردیا گیا یا اسے آخرت کے لئے ذخیرہ بنادیا گیااوران دعاؤں کے بدلے
آخرت میں جو کچھ مومن دیا جائے گا، اسے دیکھ کر وہ تمنا کرے گا کہ کاش دنیا
میں اس کی کوئی بھی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی۔ (مستدرک(
قبولیتِ دعا کے بہترین اوقات واحوال:
خمس ليال لا يرد فيهن الدعاء : ليلة الجمعة ، وأول ليلة من رجب ، وليلة
النصف من شعبان ، وليلة العيد وليلة النحر ۔"پانچ راتیں ایسی جن راتوں میں
دعا رد نہیں کی جاتی ۔ جمعہ کی رات،رجب کی پہلی رات،پندرہ شعبان کی رات،عید
الفطر کی رات اور عید قرباں کی رات"۔( شعب الایمان للبیھقی)
پانچ راتوں کا ذکر تواوپر حدیث میں موجود ہے ہی اس کے علاوہ ہرروز رات کے
آخری پہردعاؤں کی قبولیت کاوقت ہے۔ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ
لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ
الْآخِرُ يَقُولُ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي
فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ
ہر رات آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے جب تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اورکہتا
ہے :کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعاؤں کو قبول کروں،کون ہے جو مجھ
سے سوال کرے میں اس کو عطاکروں،کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اس کی
مغفرت کروں۔(بخاری)
جمعہ میں ایک ایسی گھڑی بھی آتی ہے جس میں ہر دعاقبول کی جاتی ہے۔ قال ابو
القاسم ﷺ فی جمعۃ ساعۃ لایوافقھاوھو قائم یصلی یسال خیرا الا اعطاہ''جمعہ
کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جسے اگر کوئی مسلمان اس حال میں پالے کہ وہ
کھڑا نماز پڑھ رہا ہو توجوبھلائی وہ مانگے گا اللہ عنایت فرمائے گا۔''(صحیح
البخاری) اس کے علاوہ عرفہ کا دن بھی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اہم
ہے۔أَفْضَلُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ ۔"سب سے بہترین دعا عرفہ
کے دن کی ہے"۔(موطاامام مالک)اور روزہ افطار کرنے کا وقت ، ثلاثۃ لاترد
دعوتھم الصائم حین یفطر،والامام العادل،ودعوۃ المظلوم۔" تین بندوں کی دعاء
رد نہیں کی جاتی ،روزہ افطارکرنے والا،امام عادل اورمظلوم" (ابن ماجہ)، شب
قدر، فرض نمازوں کے بعد (أدبار المكتوبات،بیہقی)،اذان و اقامت کے درمیان:
إِنَّ الدُّعَاءَ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ
فَادْعُوا۔بے شک اذان اوراقامت کے درمیان دعائیں رد نہیں کی جاتیں پس تم
دعاکیاکرو (مسند احمد)، ماں باپ کی دعا بچے کے حق میں،مسافر کی دعا ،مظلوم
کی دعا ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ يُسْتَجَابُ لَهُنَّ لَا شَكَّ فِيهِنَّ دَعْوَةُ
الْمَظْلُومِ وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ
لِوَلَدِهِ۔تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں مظلوم کی دعا اورمسافر کی دعا
اورباپ کی دعا اپنے بچے کے لئے (ابن ماجہ)۔ مسلمان بھائی کی غیرموجودگی میں
کی گئی دعاء خیر سائل اور اس کے بھائی دونوں کے حق میں قبول ہوتی ہے۔مَنْ
دَعَا لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ
آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ "جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں اس
کے لئے دعاء خیر کرتاہے تواس پر مقرر فرشتہ آمین کہتا ہے اورکہتاہے کہ تیرے
لئے بھی اس کا مثل"(مسلم) ختم قرآن کے وقت أَنَّ الدُّعَاءَ يُسْتَجَابُ
عِنْدَ خَتْمِ الْقُرْآنِ ۔" بے شک ختم قرآن کے وقت دعائیں قبول ہوتیں
ہیں"(شعب الایمان للبیہقی)، دو خطبوں کے درمیان،آب زمزم پیتے وقت، برستی
ہوئی بارش میں(عند نزول الغيث،بیہقی)،مجاہد کی دعا جب تک وہ راہ جہاد میں
ہے،کعبہ پر پڑنے والی پہلی نظر، ،ابتداء و انتہاء میں درود شریف پڑھ کر
کوئی بھی دعا مانگی جائے، اس کے علاوہ انسان کے دل میں اگر کبھی کسی گناہ
کا خیال آئے اور وہ اس خیال سے رب کے ڈر(تقویٰ) کی وجہ سے رک جائے تو یہ
بھی دعا کی قبولیت اوررب کی رحمت کے متوجہ ہونے کا وقت ہے۔ اور سب سے بڑھ
کر ویسے بھی اگر خلوص دل اور دعا کی قبولیت کے یقین کے ساتھ کبھی بھی کہیں
بھی کوئی بھی دعائے خیر مانگی جائے تویقینا ً یہ دعاقبولیت کے مرتبہ پر
فائز ہو گی۔
کیوں نہ مقبول ہودعائے خلوص
کہ اثرخود ہے خاکپائے خلوص
خلاصہ کلام:
دعا بہترین عبادت ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ سے ایسا رازونیازکاعمل ہے جس سے
تقدیربھی بدلی جا سکتی ہے۔اس لئے انتہائی خشوع وخضوع اورخلوص سے دعامانگنی
چاہئے۔ دعاؤں کی قبولیت کے حوالے سے جواوقات واحوال احادیث مبارکہ میں
مذکور ہیں ان کا اہتمام کیاجائے۔ اورجن اعمال سے اللہ رب ذوالجلال کا غضب،
قہراورجلال جوش میں آتاہے ان سے مکمل اجتناب کیاجائے کیونکہ وہ اعمال
قبولیتِ دعا میں مانع ہیں۔
دعاؤں کی قبولیت میں کچھ تاخیر ہو یادنیامیں ان کے اثرات ظاہر نہ ہورہے ہوں
تو عجلت کا مظاہرہ نہ کریں اورنہ مایوس ہوکر دعا کرنا چھوڑیں بلکہ اورزیادہ
دعائیں مانگیں کیونکہ دعاؤں کی قبولیت کے مختلف مراتب ہیں ۔کیاخبر کہ دعاکے
نتائج وثمرات کب اورکہاں ملیں گے ؟ بہرحال اگرآداب کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے
باہتمام دعا مانگی جائے تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔خواہ اس کے نتائج بندے کی
خواہش کے مطابق ہوں یا رب کی رضاکے یعنی دنیا یا آخرت جہاں بھی ملیں دونوں
صورتوں میں نفع ہی نفع اور کامیابی ہی کامیابی ہے۔
|