نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہء بطحا کی
عزت پر
خدا شاہد کہ کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
قارئین کرام !
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں راہ چلتے مفتیوں، کوتاہ چشم علماء و مادر زاد کج
فہم مفکرین کی بھی کوئی کمی نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جدیدیت کے مارے ہوئے
دیسی انگریز تو ہمیں قدم قدم پر دیکھنے کو ملتے ہیں- یقیناً آپ نے بھی
دیکھے ہوں گے-
اسی قبیل کے لوگوں سے آجکل ہمارا بھی پالا پڑا ہوا ہے، اور حقیقیت میں، وہ
بزعم خویش اپنی اپنی دانائی اور سیانے پن کے حصار میں کنویں کے مینڈک کی
طرح مقید ہیں اور انھیں یہ گمان ہے کہ شاید دور حاضر کے افلاطون وہی ہیں
مگر قارئین کرام ! آپ ہی مجھے بتائیں کہ کیا کوئی گدھا ، اگر کسی بڑے ادارے
کی مسند صدارت پر بیٹھ کر خود کو معتبر اور معزز سمجھنا شروع کر دے تو کیا
لوگ بھی اسے معتبر قرار دیں گے اور اگر اس کے قبیل کے افراد اسے معتبر قرار
دے بھی دیں تو کیا وہ حقیقتاً اور واقعی معتبر گردانا جائے گا؟
یا کوئی عزت اور شرف کا کچھ معیار اور کسوٹی بھی ہو گی کہ نہیں ؟ جس کا دل
کرے خود کو افضل و اعلیٰ اور دوسروں کو حقیر و پست قرار دے دے؟
قارئین کرام ! یقیناً آپ کا جواب یہی ہو گا کہ ہر دور میں، ہر معاشرے میں
عزت اور شرف کا کچھ نہ کچھ معیار ضرور ہوتا ہے- خود ساختہ توقیر کی کوئی
حییثیت نہیں ہوتی بلکہ اصل عزت وہی ہے جسے اللہ عزت عطا کرے اور اصل ذلت
وہی ہے جسے اللہ ذلت قرار دے۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ جسے اللہ عزت دے، وہ شخص معزز ہے اور جسے وہ قادر مطلق
رسوا کرے وہ ہی شخص در اصل ذلیل ہے اور نہ صرف دنیا میں بلکہ عقبٰی میں بھی
ذلت اسی کا مقدر ہے-
اللہ چونکہ مالک کل ہے اور اسکی بادشاہی دائمی ہے لہٰذا اس کا قانون بھی
دائمی ہے اور اس کے قانون کو مخلوق کے قانون پر وہی فوقیت و فضیلت حاصل ہے
جو کہ اللہ کو مخلوق پر ہے-
حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمیت تمام انبیا و مرسلین علیھم
السلام کے بابت اللہ کی غیرت نے روز ازل سے ایک قانون وضع کر رکھا ہے - جس
کے مطابق اہانت انبیا و رسل کا مرتکب شخص حتمی اور قطعی طور پر مرتد، خارج
از دین اور واجب القتل ہے، لائق گردن زدنی ہے-
جب ایک قانون مالک کل نے بنا دیا ہے تو مسلمانان امت کو اس میں چوں و چرا
یا اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہے- جو اس دربار میں چوں و چرا کرتا ہے تو
اس کے منہ پہ فخرج منھا فانک الرجیم کی پھٹکار ڈال کے اسے ہمیشہ کے لئے
مردود قرار دے دیا جاتا ہے- پھر اسکی ریاضت و تقوٰی کو نہیں دیکھا جاتا-
حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت قرابت کی وجہ سے دنیا کا
کوئی بھی انسان ابو لہب سے زیادہ معزز نہیں ہو سکتا لیکن جب اس نے جرم
اہانت کیا تو اس کا سارا نسبی وقار مٹی میں روند دیا گیا اور اسے ذلت آمیز
عذاب دیا گیا جب اتنے بڑے اور نہایت معزز خاندان کا چشم و چراغ اس سزا سے
نہ بچ سکا تو پھر میری اور آپکی کیا حثییت ہے؟
پھر تو ایک لاکھ بھی سلمان تاثیر ہوں اسی طرح مردود قرار پائیں گے جیسے
ابلیس جو کہ سدرتہ المنتہٰی پر رہتا تھا اور ابو لہب جو حضور رسالت مآب صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سگا چچا تھا-
کیونکہ اس راہ میں گورنری کا زعم کام نہیں آتا- یہاں مسلمانی شرط اول ہے
اور جن لوگوں کو سورئہ اخلاص ٹھیک طرح سے پڑھنے نہ آتی ہو، وہ مسلمان
کہلوانے کے مستحق نہیں ہوا کرتے- اور سلمان تاثیر ملعون کا کردار عامتہ
الناس سے چھپا ہوا نہیں تھا- حکومتی چمچے اور میڈیا اس وقوعے کو نہایت غلط
انداز میں پیش کر رہے ہیں، انھیں خدا خوفی کرنی چاہیئے اور اس معاملے کے
حقائق سے پہلو تہی برتنے سے شرم کرنی چاہیئے-
کراچی سے ہمارے فاضل دوست سلیم اللہ شیخ نے اس پر تفصیلی بات کر دی ہے اور
وہ مبنی بر حقیقت مضمون ہے، قارئین اسے پڑھیں اور واقعہ سے مکمل آگاہی حاصل
کریں-
ملک ممتاز قادری واقعی ایک عظیم انسان ہے جس نے نسبت رسول معظم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا حق ادا کر دیا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ
وآلہ وسلم سے نسبت غلامی رکھنے والوں کا ہمیشہ سے یہی شعار و طریق رہا ہے
کہ
سمجھا ہے کیا امام عراق و حجاز کو
گدی سے کھینچ لوں گا زبان دراز کو
اگر ممتاز قادری کے خلاف حکومت نے اپنے مغربی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے
کے لئے کوئی سختی کی تو ہم کراچی سے خیبر تک ناموس رسالت مآب کے پلیٹ فارم
پر ایسے جواں مرد مجاہد کی بازیابی کے لئے سول نافرمانی کی تحریک چلا کر
نام نہاد مسلمانوں کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور تاج و تخت کے
حریصوں کو تختہء دار تک پہنچا کے دم لیں گے کیونکہ بقول راقم الحروف
رومی ! یہی احکام خدا کا ہے خلاصہ
ہے قتل کے لائق شہ ابرار کا گستاخ |